برابر والے فلیٹ میں کل سے بڑی چہل پہل اور رونق ہو رہی تھی۔ ایسے جیسے گھر میں کوئی بڑی تقریب ہو۔ چھوٹے بڑے سب کی آوازیں معمول سے ہٹ کر آرہی تھیں۔ ایسے میں میرے اندر کا فطری تجسس سر ابھار رہا تھا۔
’’کل سے برابر والے گھر میں بڑی آوازیں آرہی ہیں‘ لگتا ہے مہمانوںکو آنا ہے‘ کوئی دعوت ہوگی۔‘‘ میں نے اخبار پڑھتے میاں صاحب کو متوجہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔
’’ہوں…‘‘ انہوں نے لاپروائی سے ایک ہنکارا بھرا اور دوبارہ اخبار میں گم ہو گئے۔
’’اونہہ! بات سنیں‘ میں کہہ رہی ہوں شاید ان کے گھر کوئی پارٹی ہے۔‘‘
’’اچھا تو تم بھی چلی جانا۔‘‘ اخبار اب بھی منہ کے آگے تھا۔
’’لو بھلا بلائے بغیر کیسے چلی جائوں؟‘‘
’’تو پھر کیسے کہہ رہی ہو کہ ان کے گھر تقریب ہے؟‘‘ اب کے اخبار کا صفحہ پلٹے ہوئے کہا گیا۔
’’وہ تو بچے آ جا رہے ہیں۔ سامان بھی کچھ لا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آوازیں بھی روزانہ سے ہٹ کر ہیں۔‘‘ میں نے جلدی جلدی کہا۔
’’ارے بھئی! ابھی ان کو آئے دو ماہ ہی تو ہوئے ہیں اس فلیٹ میں‘ بلایا ہوگا کسی کو‘ نئے گھر کی دعوت کر رہے ہوں گے‘ تم کاہے کو پریشان ہو؟‘‘ میاں صاحب نے جیسے مکھی اُڑائی اور میں ہونچ بھینچ کر رہ گئی۔ واقعی یہ لوگ نئے گھر کی دعوت کر رہے ہوں گے۔ گھر تو ان کا سیٹ ہو ہی چکا۔ اب عزیز‘ رشتے داروں کو بلا رہے ہوں گے یقینا۔ میں سوچتے ہوئے سر جھٹک کر اپنے کام میں لگ گئی۔
پڑوس کے فلیٹ کو آباد ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ بزرگ دادا دادی‘ ان کے بیٹا بہو اور ان کے 3 عدد بچے جو اسکول یا کالج کے طالب علم تھے۔ کُل سات افراد تھے۔ اچھے ملنسار لوگ تھے‘ میری ان لوگوں سے اچھی علیک سلیک ہو گئی تھی۔ ایک چکر بھی انہوں نے اور میں نے لگا لیے تھے لیکن مصروف زندگی کی وجہ سے ہم زیادہ ایک دوسرے کے گھر نہ جا پاتے اکثر دروازے سے ہی خیر خیریت ہو جاتی۔ میں نے شام میں بچوں سے بھی اس کا سرسری ذکر کیا۔ لیکن حسب معمول بچوں نے بھی اس کو سرسری ہی لیا تھا۔
…٭…
آج چھٹی کا دن تھا۔ ہم سب ہی دیر سے اٹھے تھے اور اب تقریباً گیارہ بجے کے قریب ناشتا ہو رہا تھا تبھی میری بیٹی نے جیم کی شیشی اٹھاتے ہوئے کیا۔
’’امی آپ کو پتا ہے آج برابر والے فلیٹ میں صبح صبح ہی بڑی گہما گہمی ہو رہی تھی۔ عابد‘ ساجد ان کی ابو اور دادا جان سب ہی سویرے سویرے کہیں جا رہے تھے‘ بڑے خوش خوش۔‘‘
’’ارے پکنک پر جا رہے ہوں گے۔‘‘ میرے بیٹے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… نہیں پکنک پر نہیں جا رہے تھے۔ دادا ابو اور انکل تو سفید براق نئے قمیض شلوار پہنے تھے اور عابد‘ ساجد بھی ہرے کرتے اور سفید شلواریں زیب تن کیے تھے اور علینہ کو بھی میں نے دیکھا انکل کا موبائل اتفاق سے گھر رہ ہوگا تو وہ بھاگتی ہوئی انہیں دینے آئی تھی۔ اس کے تو دونوں ہاتھوں پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ کوئی پکنک پر اس طرح تھوڑی جاتی ہیں۔‘‘ میری بیٹی تفصیل سے آنکھوں دیکھا حال بتا رہی تھی۰
’’یہ ساری خبریں تم کو کیسے معلوم ہوگئیں‘ کیا خواب آیا تھا؟‘‘ میرے بیٹے نے اسے چھیڑا۔
’’اگلے ماہ میرے پیپر ہونے والے ہیں صبح سے اسی کی تیار کر رہی تھی‘ نماز کے بعد سوئی نہیں تھی۔‘‘ اس نے بھائی کو جتاتے ہوئے کہا۔ ’’صبح صبح آوازیں سن کر میں نے کھڑکی سے جھانکا تو یہ چاروں گھر سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف جا رہے تھے۔‘‘
’’ان کے گھر تو دو دن سے رونق ہے‘ میں نے شام کو تمہیں کہا تو تھا‘ شاید آج دعوت ہے۔‘‘ میں نے پھر اپنا اندازہ بیان کیا اور ناشتا مکمل کرکے گھر کے کاموں میں لگ گئی۔ میاں اور بچے بھی ناشتا سے فارغ ہو کر کوئی ٹی وی کھول بیٹھ گیا تو کسی نے موبائل نکال لیا۔ تھوڑی دیر میں گھنٹی بجی میری بیٹی نے دروازہ کھولا تو پڑوس کی علینہ تھی‘ ہاتھوں میں ٹرے تھی۔ وہ ٹرے لیے سیدھی میرے پاس آگئی۔ خوب تیار ہوئی ہلکے اور گہرے ہرے رنگ کے خوب صورت کڑھائی والے کپڑے‘ دونوں ہاتھوں میں مہندی‘ بالوں میں ہرا کلپ۔ میں نے حیرت سے ایک نظر اسے دیکھا پھر اس کے سلام کا جواب دیا اور ٹرے پر سے کپڑا ہٹایا تو سویاں‘ مٹھائی اور کباب تھے۔
’’خیریت علینہ! یہ سب…؟‘‘
’’آنٹی! امی آج کے دن ہمیشہ یہ اہتمام کرتی ہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔
’’آج کے دن…؟ کیا مطلب…؟‘‘
’’آج 14 اگست ہے ناں…‘‘ اس نے جیسے مجھے یاد دہانی کرائی۔
’’ہاں…آں… 14 اگست ہے تو پھر…؟‘‘ میں اب بھی متعجب تھی۔
’’تو یہ کہ ہم گھر والے تو اسے بڑے بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔ آج شام میں ہمارے گھر‘ چچا اور پھپھو کی فیملی آئے گی۔ ہم لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں‘ مزے مزے کے کھانے امی اور چچی بناتی ہیں۔‘‘
’’تو یہ کہو دعوت ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں دعوت ہے‘ لیکن ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی۔ ابھی دادا ابو کے بھائی بہن اور ان کی فیملیز بھی آتی ہوں گی۔ دادا ابو پھر ہم سب کو آزادی کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ ساری قربانیاں جو ان کے خاندان کے بڑوں نے اور دوسرے مسلمانوں نے دیں۔ ان کے والد کی قائداعظم سے ملاقات کا قصہ‘ وہ سب ہم کو بتائیں گے۔‘‘
’’لیکن کیوں…؟‘‘ میری بیٹی بھی حیران تھی۔
’’تاکہ ہم سب بچوں میں بھی اپنے وطن سے محبت کا جذبہ گہرا ہو اور ہم بھی اس کی آزادی کی قدر کریں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے علینہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
’’تو کیا ہر سال…؟‘‘ میری بیٹی کے لبوں پر پھر سوال مچلا۔
’’ہاں میں تو بچپن سے اپنے گھر میں یہی سب دیکھ رہی ہوں‘ 14 اگست ہمارے گھر عید کا سماں ہوتا ہے۔ سمجھو تیرہ تاریخ کو تو چاند رات ہوتی ہے۔ نئے کپڑے‘ مہندی‘ پکوان‘ صبح‘ فجر میں ہی ہم سب اٹھ جاتے ہیں۔ ناشتا کرکے ابو‘ دادا ابا اور بھائی تو مزار قائد جاتے ہیں۔‘‘ (اس نے ہمارے ذہنوں کی الجھن کو دور کیا) ’’پھر دادا ابا صدقہ بھی کرتے ہیں اور گوشت وہیں غریبوں میں دے آتے ہیں۔‘‘ وہ ہمارے سوالوں کے تفصیل سے جواب دے رہی تھی۔ ’’پھر گھر آ کر ہم سب لوگ شکرانے کے نفل پڑھتے ہیں۔ بس سمجھو آج کے دن ہم اور ہمارے خاندان والوں کی تیسری عید ہوتی ہے۔ ابھی ہمارے ہاں مہمان آنے شروع ہو جائیں گے‘ میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے مڑی اور میں دل ہی دل میں شرمندہ‘ نظریں اٹھانے کے قبل بھی نہیں تھی‘ ایک ان لوگوں کا یومِ آزادی منانے کا طریقہ تھا اور ایک ہمارا‘ ہم تو اس دن کو صرف چھٹی کے طور پر سو سو کر گزارتے تھے یا تھوڑی بہت جھنڈیوں سے شہر کو سجا کر پھر بھول ہی جاتے تھے کہ آج جشن آزادی ہے۔ جشن تو علینہ کے دادا ابا کرتے تھے۔ اپنے دل اور گھر کو آباد کرکے۔ جھنڈیوں سے صرف گھر ہی کو آراستہ نہیں کیا جاتا بلکہ آزادی کی نعمت کو یاد کرکے روح اور دلوں کو نئے سرے سے تازگی دی جاتی۔
’’علینہ! تمہارے دادا ابو کس وقت تم لوگوں کو وہ واقعات سنائیں گے؟‘‘ دروازے کو کھولتی میری بیٹی نے علینہ سے سوال کیا۔
’’دوپہر کھانے کے بعد تقریباً ساڑھے چار‘ پانچ بجے تک۔‘‘ علینہ بتاتے ہوئے کچھ الجھی۔
’’میں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ میں بھی آئوں گی۔‘‘ میری بیٹی نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’اوہ اچھا… ضرور ضرور‘ دادا ابا تو بہت خوش ہوں گے… بلکہ ہم سب بھی۔‘‘
’’اور میں بھی…‘‘ یہ دوسری آواز میرے بیٹے کی تھی۔ میں نے چونک کر پیچھے دیکھا۔
’’پھر ہم شام کو مزارِ قائد پر بھی چلیں گے‘ قائد کو سلام کرنے اور فاتحہ پڑھنے۔ شکریہ بھی تو دادا کرنا واجب ہے ہم پر اس آزادی کا۔‘‘ میرے میاں کی آواز میں بھی کچھ شرمندگی کا تاثر تھا۔
’’اوہ! پھر تو آج ہم بھی بھرپور طریقے سے جشن آزادی منائیں گے۔‘‘ میرے بیٹے کی خوشی سے بھرپور آواز نے میرے اندر سے پشیمانی کے وہ جذبات جو ابھی کچھ دیر پہلے بڑی شدت سے آئے تھے‘ یکدم ہی دور کیے تھے اور میں ہلکی پھلکی ہو کر مسکرا دی۔