ادبی اور تعلیمی حلقوں میں پروفیسر اظہار حیدری مرحوم بہت مقبول تھے‘ ان کی ادبی اور علمی خڈمات سے ہر علم دوست واقف ہے‘ ان کی صاحبزادی صدف بنت اظہار نے مقامی ہوٹل میں انور شعور کی صدارت میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کے خطبہ استقبالیہ میں انہوں نے کہا کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں اردو ادب میں اپنی شناخت بنائوں لہٰذا میں بطور شاعرہ آپ کے سامنے حاضر ہوں میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اردو زبان و ادب کے لیے کام کرتی رہوں گی انور شعور نے صدارتی خطاب میں کہا کہ جو لوگ مشاعرے ترتیب دیتے ہیں وہ اردو کے پروموٹرز کی فہرست میں شامل ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی اعانت اور حوصلہ افزائی کریں۔ مہمان خصوصی خلیل احمد خلیل نے کہ اکہ آج بہت عمدہ شاعری ہماری سماعتوں تک آئی ہے مجھے بہت خوشی ہے کہ کورونا کے بعد ادبی فضا بہتر ہوئی ہے۔ حیدرآباد سے تشریف لائے صحافی و نقاد سید فیاض الحسن نے بحیثیت مہمان اعزازی اس مشاعرے میں شرکت کی انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اردو کی ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا جب تک ہم ایک نہیں ہوں گے ہماری ترقی ممکن نہیں۔ مشاعرے میں انور شعور‘ اقبال سہوانی‘ فرخ اظہار‘ وجیہ ثانی‘ رمزی آثم‘ شازیہ طارق‘ شجاع شاد‘ ماورا سید‘ کاشف علی ہاشمی‘ شازیہ عالم شازی‘ حرا شبیر اور صدف بنتِ اظہار نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔