ماں باپ کے تعلقات اور بچوں کا مستقبل

527

بچپن سے جوانی میں دونوں بہنوںنے قدم رکھا لیکن ابا کا وہی حال تھا ذرا ذرا سی بات پر اماں کو زد و کوب کرتے جیسے وہ کوئی جانور ہو۔ صرف ابا ہی نہیں بلکہ ابا کے بہن بھائی بھی اماں کی ذرا سی غلطی پر ان کے چہرے پر تھپڑ برسا دیتے یعنی اس گھر میں اماں کا پیٹنا روز کا معمول بن گیا تھا۔
ریحانہ اور نادیہ اماں کی اس حالت پر کڑھتی رہتیں۔ ابا کے گھر میں داخل ہوتے ہی سناٹا چھا جاتا‘ اماں کا جسم کانپتا‘ ابا کی ایک چیخ پر وہ لرز جاتی۔ پورے خاندان میں ابا کا راج تھا اسی کے بڑے کاروبار سے پورا خاندان پل رہا تھا لیکن اماں…؟
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابا کی شادی زبردستی اس غریب لاوارث لڑکی سے کروائی گئی تھی جو ابا کے شاہانہ مزاج کے برخلاف تھی۔ سمجھو کہ یہ بے جوڑ شادی تھی یا ابا کا سخت مزاج۔ تینوں بھائی تو اسکول اور پھر واپسی پر دوستوں یاروں کے ساتھ وقت گزارتے اس لیے ان پر اس گھر کے ماحول کا اتنا اثر نہ تھا جتنا ریحانہ اور نادیہ پر تھا۔
…٭…
آج اماں نہانے گئی شاید غلطی سے سالن کی آگ دھیمی کرنا بھول گئی جیسے ہی وہ باتھ روم سے باہر نکلی بوا (پھپھو) کا زور دار طمانچہ اماں کے گال کو سرخ کر گیا۔ ہڈ حرام ہمارے تو بھائی کی قسمت پھوٹی کہ تجھ جیسی پھوہڑ‘ غلیظ عورت سے اس کا واسطہ پڑا۔ اس سے پہلے کہ اماں کے گال پر بوا کا دوسرا ہاتھ پڑتا ریحانہ نے آگے بڑھ کر اس کی کلائی زور سے پکڑ لی ’’خبردار بوا! اب اگر آپ کا ہاتھ اماںپر اٹھا تو میں آپ کے دونوں ہاتھ توڑ دوں گی۔‘‘
ریحانہ کی ہمت دیکھ کر نادیہ بھی آگے بڑھی۔ اماں کو آپ لوگوں نے لاوارث سمجھا ہوا ہے اب کوئی اماں کو ہاتھ لگا کر تو دیکھیں پھر دیکھنا…‘‘
…٭…
اس واقعے کے بعد دونوں نندیں اور دیور بھی کافی حد تک سنبھل گئے لیکن ابا کا وہی حال تھا۔ دونوں بہنیںاماں کو بھی ابا اور ددھیال کے خلاف بڑھکاتیں۔ اب گھر کا ایک الگ ماحول تھا اگر بھائی گھر میں ہوتے تو دونوں انہیں بھی ہر بات پر جھاڑ دیتیں کہ تم سب ہمارے دشمن ہو۔ اماں اور ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔
…٭…
ماں باپ کے اس رشتے کی دراڑ کی وجہ سے منفی اثرات کا ظاہر ہونا تو لازمی امر ہے۔ یہی ریحانہ اور نادیہ کے ساتھ بھی ہوا۔ گھر میں بھابھیاں آئیں تو دونوں نے اماں کے کان بھرنا شروع کر دیے کہ آپ کی کمزوری کی وجہ سے آپ کے شوہر‘ سسرال اور سب آپ پر ظلم ڈھاتے ہیں لہٰذا اب اپنی بہوئوں کو قابو میں رکھو جس کا خاطر خواہ اثر اماں پر ہوا۔ اور پھر دونوں بہنوں نے شادی کے بعد اپنے سسرال والوں اور شوہر کے ساتھ بھی سخت رویہ رکھا کہ کہیں ہماری نرمی سے یہ رشتے ہمارے لیے بھی وبال نہ بن جائیں جیسے اماں کے ساتھ ہوا۔
…٭…
یہ اس نوعیت کا کوئی ایک واقعہ نہیں اس سے ملتے جلتے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جن کے پیچھے ماں باپ کی ازدواجی زندگی کے اثرات ان کی اولاد پر نظر آتے ہیں۔ گاڑی کے یہ دو پہیے بے شک ایک دوسرے کی مخالف سمت ہوتے ہیںلیکن ان کا اکٹھے رکنا یا حرکت کرنا ہی گاڑی کو رواں رکھتا ہے اور سواریوں کے لیے بھی سہولت و آرام فراہم کرتے ہیں اگر ایک ٹائر پنکچر تو دوسرا بھی طاقت رکھنے کے باوجود سواریوں کو آگے گھسیٹنے یا گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے ناکام رہتا ہے یہی حال ماں باپ کے آپس کے تعلقات کا بھی ہے۔ والدین کے درمیان خوش گوار ماحول پورے گھر کو معطر اور حسین کر دیتا ہے۔ جب ان میں اختلافات اور لڑائی جھگڑے بچوں کو ضرور متاثر کرتے ہیں۔ دوران درس و تدریس مجھے کچھ ایسے ہی بچوں سے واسطہ پڑا جن میں کچھ بہت زیادہ سہمے ہوئے تھے‘ کچھ احساس کمتری میں مبتلا‘ کچھ جھگڑالو اور باغی دل و دماغ کے‘ کچھ الگ تھلگ رہنے والے۔ جب ہم نے معلوم کیا کہ کیا وجہ ہے تو جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ اس کی وجہ ان کے والدین کے آپس کے تعلقات تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ ماں باپ کے لڑائی جھگڑے یا گھر کے ماحول کے منفی اثرات بچوں پر ضرور آتے ہیں جو نہ صرف بچپن تک رہتے ہیں بلکہ آگے بھی زندگی پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں خاتون کا واقعہ سامنے آیا جو اس نے خود سب سے شیئر کیا تھا کہ اس کے والدین کے آپس کے تعلقات خوش گوار نہ تھے۔ والد صاحب والدہ پر تنقید کے نشتر چلاتے رہتے اور ساتھ ہی یہ طعنے بھی دیتے کہ تم اور تمہارے بچے میری وجہ سے عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم شہر کے بہترین اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم تھے لیکن ابا دن میں ایک مرتبہ ضرور یہ گوش گزار کرتے کہ یہ سب میری وجہ سے تمہیں نصیب ہو رہا ہے۔
اسی طعنے اور تنقید کے ماحول میں ہم بہن بھائی پڑھ لکھ کر بڑے ہوئے آج میں نوٹ کرتی ہوں کہ ہم سب بہن بھائیوں میں اس ماحول کے منفی اثرات پیوست ہیں۔ مثلاً میرے سسرال اور شوہر بہت اچھے ہیں لیکن میں ان پر اعتماد نہیں کرتی۔ ان کی اچھی بات میں سے بھی منفی نقطہ ڈھونڈ کر ان سے لڑتی جھگڑتی ہوں۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ انہیں اچھا سمجھوں لیکن ایسا کر نہیں پاتی۔ اسی طرح ایک خاتون نے اپنی دوست کا واقعہ بتایا کہ میری دوست کی والدہ ایک پڑھی لکھی سلجھی لڑکی جو نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اونچے عہدے پر فائز شخص کی بیٹی تھی اس کی شادی اپنے کسی رشتے دار لڑکے سے ہوئی جو درمیانی ( متوسط) حیثیت رکھتا تھا۔ بڑے سخت مزاج کا تھا لہٰذا اس کا رویہ ثمینہ (بیوی) کے ساتھ بھی سخت رہا‘ ذرا ذرا سی بات پر چلانا‘ لڑنا‘ ہاتھ اٹھانا اس کا معمول تھا۔ ثمینہ درگزر اور سمجھوتا کرنے والی لڑکی تھی اس نے سوچا آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا‘ اس لڑائی جھگڑے میں اسد (شوہر) کا ساتھ اس کی ماں اور بہنیں بھی دیتیں۔ لازمی بات ہے کہ اس ماحول کا اثر بچوں پر بھی پڑا۔
…٭…
آج اس کی بیٹی جو ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ سلجھے اور دین دار لڑکے کی بیوی ہے‘ اس کی ساس‘ نندیں‘ دیور‘ جیٹھانیاں سب اس سے محبت کرتے ہیں‘ اس گھر کا ماحول بڑا خوش گوار ہے لیکن وہ سب سے دور‘ دور رہتی ہے کسی کے ساتھ اس کا برتائو اپنائیت والا نہیں‘ سب بڑی کوشش کرتے ہیں کہ خوش رہے‘ خود کو اس گھر کا حصہ سمجھے۔ لیکن اس کا بچپن اور جوانی کے وہ لمحے اس کے آڑے آجاتے ہیں جو اسے دوسروں کا دوست بننے سے روکتے ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ میری ماں ایک پڑھی لکھی اور بڑے باپ کی بیٹی تھی‘ دنیا والوں نے اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا کیوں کہ وہ ٹھنڈے مزاج کی اور خوش اخلاق‘ محبت کرنے والی تھی میری ماں کی ان خوبیوں کو اس کی کمزوری سمجھ کر اسے دبا دیا گیا لہٰذا اب وہ خود کو کسی کے سامنے جھکانا نہیں چاہتی اسے کسی رشتے پر اعتبار نہیں رہا حالانکہ آج اس کے درمیان سب اس سے محبت کرنے والے ہیں۔
…٭…
ان مذکورہ حقیقی واقعات کی روشنی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسان کا بچپن اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا خصوصاً والدین کے آپس کے منفی تعلقات سب سے زیادہ نہ صرف اثر انداز ہو کر اس کے بچپن کو متاثر کرتے ہیں بلکہ زندگی بھر پیچھا کرتے ہیں۔ لہٰذا والدین اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھیں کہ بچوں کے سامنے اپنے جھگڑے اور باتیں نہ لائیں اگر کوئی مسئلہ ہو بھی تو درگزر کریں یا اکیلے میں اس پر بات کریں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خواتین (بیویاں) سمجھوتہ کر لیتی ہیں لیکن شوہر اپنی اَنا کا مسئلہ سمجھ کر زور سے چیخنا اور چلانا اپنا حق سمجھتے ہیں جو کہ غلط روش ہے۔ میں خواتین کو بے قصور نہیں کہہ رہی ہوں کہیں کہیں خواتین بھی ’’آگ‘‘ لگا کر شوہر کو ’’شعلہ‘‘ بنانے میں دیتی ہیں لیکن خدارا اپنے بچوں کے لیے اپنے لڑائی جھگڑوں کو ان سے دور رکھیں تاکہ ان کے مستقبل پر اس کا اثر نہ پڑے۔

حصہ