تخلیقی اور تحقیقی کام :پاکستان اور بھارت میں صورتحال قریب قریب یکساں

593

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال

(تیسرا حصہ)
میں نے پوچھا سر یہ بتائیںگر تخلیقی اور تحقیقی کام کے موازنے کے پس منظر میں آپ سے پوچھا جائے کہ پاکستان اور بھارت کہاں زیادہ اور معیاری کام ہورہا ہے تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا آپ نے تحقیق اور تخلیق دونوں مدات میںیہ سوال پوچھاہے۔دونوں جگہ صورت حال قریب قریب یکساں ہے، ہاں تخلیقی لحاظ سے ہمارا ادب زیادہ ترقی یافتہ اور بہتر ہے۔ شاعری اور فکشن دونوں میں۔ناول اور افسانہ دونوں ہی یہاں زیادہ بہتر تخلیق ہوئے ہیں اور ہوہے ہیں۔اور شاعری میں ہمارے ہاں نام بھی بڑے رہے اور ان کا تخلیقی شعری ادب بھی خیال و فکر اور اسالیب ہر اعتبار سے بھارت سے زیادہ بہتر اور معیاری تخلیق ہوا ہے۔اس کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ ساری صورت حال جو انتشار اور بے چینی و اضطراب کی صورت میں سیاست کی دین ہے۔تحقیق دونوں ملکوں میںمعاشرتی مضامین میں قدرے مختلف معیار سے فروغ پائی ہے۔بھارت میں جامعات کا نظام اتنا افسوس ناک نہیں جیسا پاکستان میں ہے، اس لیے وہاں جامعات میں معاشرتی علوم خاص طور پر تاریخ میں زیادہ معیاری اور ہمہ جہت پہلوؤں سے مطالعے ہوئے ہیں اور منظر عام پر بھی آئے ہیں۔پاکستان میں تاریخ کے شعبے کراچی یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی میں کبھی بہت فعال رہے ہیں۔پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی،نیشنل کمیشن آف ہسٹوریکل ریسرچ،ادارہ ٔ تحقیقات ِ پاکستان، پنجاب یونیورسٹی،قائد اعظم اکیڈمی، وغیرہ کے بعض کام اور منصوبے قابل ِ ذکر ہیں لیکن بھارت میں علیگڑھ یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، الہ ٓباد یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبے زیادہ ہمہ جہت تحقیقات پیش کرتی رہی ہیں۔خصوصا مسلم عہد حکومت پر علیگڑھ یونیورسٹی کا شعبہ بہت معیاری تحقیقات پیش کرتارہاہے۔ادبیات میں علیگڑھ یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ اور دہلی یونیورسٹی میں وہاں ہونے والے ماضی کے کاموں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔اسلامیات پر علی گڑھ میں خاصے معیاری کام ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔
اس ضمن میںپاکستان میں ایسی تحقیقات مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے مقابلتہ ً بس قابل ِ اطمینان رہے ہیں،بہت قابل ستائش نہیں۔جامعات میں ہونے والی ادبی تحقیق کے معیار اور موضوعات میںصورت ِ حال اور کیفیت قریب قریب یکساں ہے۔کمزوریاں اور نقائص دونوں جگہ ہیں۔جامعات میں، خصوصا ً شعبہ جات میں سیاست اور گروہ بندی، ذاتی چپقلش اورتنازعات دونوںجگہ مساوی ہیں، جن کی وجہ سے بہت معیاری تحقیق اب نہ یہاں کی جامعات میں دیکھنے میں آرہی ہے نہ وہاں کی جامعات میں۔بیرون ِ جامعات بہر حال پاکستان میں انفرادی اور ذاتی سطح پر زیادہ بہتر محققین اب نظر آتے ہیں، بھارت میں نامور اور ممتاز و مؤقر محققین اب رفتہ رفتہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں جن کی جگہ لینے والے اب دود دور تک نظر نہیں آرہے۔پھر بھی سیاست و قومیت کے موضوعات پر ڈاکٹر مشیر الحسن اور سیما علوی کے کام، قدرے نظریاتی تحفظات سے قطع نظر، بہت عالمانہ، مفید اور معیاری ہیں اورادبیات کے ذیل میں جنوب میں ڈاکٹر محمد علی اثر، مغرب میں ڈاکٹر عبدالستار دلوی اور شمال میں ڈاکٹر عبدالباری جیسے محققین پر بہر حال نظر ٹھہرتی ہے۔یہ حضرات اب جامعات میں نہیں ہیں۔دیگر شعبہ جات میں فارسی و عربی اور دینیات میں وہاں گاہے اچھے کام نظر آجاتے ہیں۔
میں نے جامعہ کراچی کی تحقیق کی صورت ِ حال کے بارے میں پوچھا کہ آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟ تو دکھی اندزا میں فرمایا’’کراچی یونیورسٹی کو تحقیق کی سرگرمیوں کے لحاظ سے اب مرحوم کہیے۔ورنہ ایک زمانہ تھا، پاکستان کی دیگر جامعات میں پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ یہی یونیورسٹی تھی جہاں عالمی شہرت و معیار کے محققین رہے ہیں اور متعدد بڑے بڑے کام یہاں منظر عام پر آئے ہیں۔ لیکن اب سناٹا یا ویرانہ ہے۔ جن شعبوں کو تحقیقات کے لحاظ سے امتیاز و افتخار حاصل تھا، جیسے شعبۂ تاریخ عام، شعبۂ اردو، شعبۂ تاریخ اسلام، فارسی، یہاں تک کہ سیاسیات،اور پھر سائنس کے چند شعبے جو اپنے تحقیقی کاموں کے لحاظ سے ممتاز رہے اب وہاں سوائے ایک آدھ نام کے خاک اڑتی ہے اور یہ گزشتہ پندرہ،بیس سال میں ایسا ہوا ہے۔ایسا سب کچھ سربراہوں کی علم و تحقیق سے دوری، نااہلی، بدذوقی اور بدمزاجی کی وجہ سے ہوا ہے۔ان دس پندرہ سالوں میں اس یونیورسٹی میںوہ سربراہ اس کا مقدر بنے جو علم و تحقیق سے کوسوں دور رہے۔کسی کا ایک دو شعروں کا شاعر ہونا اس بات کا مظہر نہ رہا کہ وہ سربراہ اور منتظم کے طور پر اعلیٰ علمی و تحقیقی روایات کو بھی فروغ دے سکے گا۔ جب نامزدگیاں سیاسی وابستگیوں اور سفارش و چاپلوسیوں کی بنیاد پر ہوں گی تو یہی صورت حال ہوگی جو سامنے آئی۔شعبوں کے سربراہوں کا مبلغ علمی و تحقیقی کام ان کے اپنے مضمون میں کسی شمار میں نہ آتاہو، ڈھونڈھے سے بھی ان کا کوئی علمی کام، کوئی معیاری تحقیقی مقالہ کسی عالمی شہرت و معیار کے مجلے میں شائع نہ ہو، کسی اعتبارسے کوئی علمی حوالہ ان کا کہیں تذکرے میں بھی نہ آئے تو ایسے افراد کیا کوئی بہتر یا قابل ِ ذکر علمی روایت اپنے شعبے میںقائم کرسکیں گے۔ ان پندرہ ،بیس سالوں میں اس یونیورسٹی سے علم و تحقیق سے وابستہ سارے امتیازات نیست و نابود ہوگئے۔اب ایسے سربراہ اور اکیس، بائیس درجوں کے پروفیسرشعبوں پر مسلط ہیں جن کی جھولی میں سوائے سرسری و بچکانہ کاموں کے کچھ نہیں۔ایسے افراد تحقیق و مطالعات میںکیا بہتر روایات قائم کرسکتے ہیں جو خودمعیاری تحقیق کی الف بے سے واقف نہیں اور نہ اس کا ذوق و شوق ہی رکھتے ہیں۔ان میں سے شاذ ہی کوئی استاد ایسا ملے گا، بشمول وائس چانسلر جن کے تحقیقی مقالات بیرون ملک کے مؤقرو مسلمہ تحقیقی مجلے میں چھپے ہوں اور وہ دیگر تحقیقات میں حوالہ بنے ہوں یا ان کی روشنی میں دیگر مطالعات کو مہمیز ملی ہو۔ان حضرات نے تحقیقی مقالات کے طور پر اپنی ترقیوں کے لیے عام اور سطحی رسائل و اخبارات میں اپنی سرسری نوعیت کی تحریروں کو پیش کرکے کامیابیاں اور مناصب حاصل کرلیے اورانتظامیہ مصلحتہً اور ایچ ای سی بے نیازی میں خاموش رہی! ایسے اساتذہ اپنے طلبہ کو کیادیتے ہیں؟ خود ان کے اپنے اور ان کی نگرانی میں ہونے والے جیسے تیسے کاموں کو دیکھ کر سوائے عبرت کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جن یکسر غیر اہم اور فضول موضوعات پر تحقیق کروائی جارہی ہے وہ اخبار کے لیے ایک سرسری مضمون کے موضوع سے بڑھ کر نہیں ہوتے۔اس سے زیادہ کی خود نگران اور انتظامیہ میں اہلیت نہیں کیوں کہ کسی جانب سے ایسے موضوعات پر اور ایسے موضوع کو تحقیق کے لیے قبول کرنے پر کوئی قدغن نہیں!ایچ ای سی کی عائد کردہ شرائط میں تحقیق کے آغاز سے قبل ایک متعلقہ نصاب(کورس ورک) لازمی ہے لیکن یہ نصاب کس نوعیت یا معیار کا ہے اسے دیکھنے والا کوئی نہیں۔کون اسے پڑھارہاہے،اس میں اس کی اہلیت ہے یا نہیں، اور وہ پڑھابھی رہاہے یا ٹال رہاہے اور وقت خوش گپیوں میں گزاررہاہے، کوئی دیکھنے والا بھی نہیں۔کئی شعبے ایسے ہیں جہاں کورس ورک صرف کاغذوں میں ہوتارہا اور یوں ہی امتحان بھی ہوگئے اور طلبہ گھر بیٹھے کامیاب بھی ہوگئے۔جب ایسا’ کورس ورک‘ ہوگا تو طالب علم میں تحقیق کا کیا ذوق و شوق پیدا ہوسکے گا،اس میں کیا صلاحیتیں پیدا ہوںگی اور موضوعات کا انتخاب اور رسمیات و اصولوں سے اسے کیا واقفیت ہوسکے گی۔پھر ایک محقق کے لیے دوران ِ تحقیق اپنے زیر تحقیق منصوبے سے متعلق کم از کم دو سیمیناروں کا پیش کرنااور آخرمیں یونیورسٹی یا کلیے کی جانب سے منصوبے یا موضوع کا ایک اجتماعی دفاع لازمی شرط ہے جس پر کراچی یونیورسٹی میں کبھی کہیں عمل نہیں ہوتا اور ایچ ای سی بے نیاز و لاعلم رہتی ہے۔اس صورت حال میں یہاں یا کسی بھی یونیورسٹی میں،جہاں حالات کم و بیش ایسے ہی ہوتے ہیں،کیا بہتر تحقیقات سامنے آسکیں گی اور کیا بہتر محقق معاشرے کو مل سکیں گے۔اس وقت خاص طور پر کراچی یونیورسٹی اپنے زوال کی انتہائی گہرائیوں میں ہے۔ملک کی چھوٹی چھوٹی یونیورسٹیاں، جو بہت بعد میں وجود میں آئیں، وہ نسبتا ً بہتری کی جانب رواں دواں ہیں جب کہ کراچی یونیورسٹی اپنے حالیہ سربراہوں کی بے بصیرتی اور سیاسی مصلحت اندیشیوں کے باعث، جن میںمعروف بدعنوانیاں بھی شامل ہیں، ترقی ِ معکوس کی جانب مصروف ِ سفر ہے۔ (جاری ہے)

حصہ