سبق

249

سول انجینئرنگ میں شان دار نمبروں سے کامیابی کے بعد جلد ہی کامران کو بلدیہ عظمیٰ میں ملازمت مل گئی۔ وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا‘ والد سرکاری ملازم تھے‘ قلیل تنخواہ میں امی کی کفایت شعاری اور سلیقے سے گزارا کچھ بہتر کر رکھا تھا۔
ملازمت کا پہلا دن تھا‘رات کو امی جان نے پاس بٹھا کر ڈھیروں نصیحتیں کیں اور حلال روزی کا سبق پڑھایا جب کہ بچپن سے وہ وقتاً فوقتاً سب کچھ سنتا رہا تھا لیکن امی کے سامنے خاموش بیٹھا ہا اور کہا تو بس اتنا کہ ان شاء اللہ میں یہ سب یاد رکھوں گا۔
ایک مہینہ ہو چلا تھا اس کے اخلاق سے سب بہت متاثر تھے وہ اپنے ماتحتوں کو بھی سلام کرتا اور ہمدردی سے ان کا حال احوال پوچھتا۔ پہلی تنخواہ جو کہ 75 ہزار روپے تھے‘ لا کر ماں کے قدموں میں رکھ دی۔ امی جان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
’’امی! یہ کیا آپ رو رہی ہیں؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں میرے لال! یہ خوشی کے آنسو ہیں۔‘‘
ابا جی پاس ہی بیٹھے تھے بولے ’’ارے میاں یہ خواتین بھی خوب ہیں‘ غم میں تو روتی ہی ہیں خوشی میں بھی رونے لگتی ہیں‘ پانی کہیں ملے نہ ملے ان کی آنکھوں میں ضرور موجود ہوتا ہے۔‘‘
امی ہنس پڑیں اور انہوں نے بڑے احترام سے وہ رقم اٹھائی اور اپنے گھٹنے کے نیچے رکھ لی۔
’’ارے بیگم! ابھی تم اٹھ کر کسی کام سے چلی جائو گی اور یہ نوٹ سارے گھر میں اُڑتے پھریں گے‘ انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھ دو۔‘‘
’’جی ابھی رکھتی ہوں‘ پہلے میں شکرانے کے نفل پڑھ لوں۔‘‘ پھر اپنے بیٹے کے ماتھے پر پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں۔ بچیاں اسکول گئی ہوئی تھیں۔
پہلا کنٹریکٹ اسے ایک پُل بنانے کا ملا۔ ریلوے ٹریک کے اوپر پُل بنوانا تھا‘ برسوں سے پھاٹک سے کام چلایا جا رہا تھا جب کہ ہر دن بسوں اور ٹرینوں کے حادثات کا خطرہ رہتا تھا۔
وہ دل و جان سے اپنے کام میں جُت گیا جو ٹیم اس کے ساتھ تھی وہ بڑی خوش تھی‘ مزدور سے لے کر سپروائزر تک بڑے اچھے موڈ میں کام کر رہے تھے۔
ہر روز بہنیں کہتیں ’’بھائی جان! ہم مہنگے والے سوٹ بنائیں گے‘ اچھی خوب صورت جوتیاں اور پرس لیں گے۔‘‘
’’ضرور… ضرور پر اس کے لیے امی جان سے درخواست کرو وزیر خزانہ تو وہی ہیں۔‘‘
’’ارے ہاں! یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے منہ بنایا۔ چھوٹی والی فوراً بولی ’’مگر بھائی اگر آپ سفارش کر دیں گے ناں تو امی مان جائیں گی۔‘‘
’’نہیں بھئی سفارش کرنی مجھے نہیں آتی۔‘‘
دونوںکا منہ اتر گیا۔
وہ ہنس پڑا ’’ارے ارے رونا نہیں‘ میں کر دوں گا سفارش تمہاری‘ چلو جائو اب امی کی مدد کرو۔‘‘
’’جی بھائی جان!‘‘ وہ امی کی طرف چل پڑیں۔
آج اتوار کا دن تھا‘ اس نے جی بھر کر مطالعہ کیا‘ اپنے کام کے حوالے سے‘ جو بھی کام کریں اس کے متعلق پوری آگاہی ہونی چاہیے کبھی کبھی چھوٹا سا پوائنٹ مس ہو جانے سے بڑے نقصان ہو جایاکرتے ہیں‘ یہ اس کے استاد محترم کا کہا ہوا جملہ تھا۔ ’’آہ کتنے اچھے استاد تھے‘ اللہ انہیں سلامت رکھے۔‘‘
پیر کے دن وہ ڈیوٹی پر پہنچا پھر ٹیم کو لے کر سائٹ پر کام شروع کردیا۔ آج دھوپ بہت تیزی تھی‘ ساتھیوں نے چھتری لگا کر دو کرسیاں رکھیں اور بولے سر آپ یہاں بیٹھ کر ہمارا کام آسانی سے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔‘‘
وہ نرمی سے مسکرا دیا۔ ’’کتنا خیال ہے تم لوگوں کو میرا۔‘‘
’’کیوں نہ ہو آپ بھی تو ہمارا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک شان دار کار آکر رکی اور ایک آدمی اتر کر اس کی طرف آیا۔ شان دار شخصیت‘ ہاتھ میں بریف کیس تھامے وہ شخص قریب آکر بولا ’’گڈ مارننگ جناب۔‘‘
’’میں آپ سے تعارف چاہتا ہوں۔‘‘ وہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ بولا۔
’’بیٹھنے کو نہیں کہیں گے؟‘‘ بڑے دوستانہ انداز میں کہا گیا۔
’’جی تشریف رکھیے۔‘‘
’’مان نہ مان میں تیرا مہمان۔‘‘ یہ محاورا بروقت یاد آیا۔
’’آپ کی بڑی تعریف سنی ہے‘ بہت تعاون کرنے والے انسان ہیں آپ۔‘‘
’’میرا نام اسلم ہے‘ میں کنسٹرکشن کمپنی سے منسلک ہوں‘ اسی سلسلے میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
’’جی فرمایئے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں… اگر کر سکا تو ضرور کروں گا۔‘‘
’’جی مہربانی آپ کی… یہ کہتے ہوئے اس نے دائیں‘ بائیں دیکھا۔ اور بولا ’’دراصل آپ جس سیٹ پر ہیں اس سے بڑے بڑے فائدے اٹھا سکتے ہیں… سمجھیے میں بھی آپ کو فائدہ ہی پہنچانے آیاہوں اگر آپ قبول کریں۔‘‘
’’کس طرح کا فائدہ…؟ ذرا وضاحت کیجیے گا۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے…‘‘ اس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولا ’’اگر آپ پُل کے مٹیریل میں کچھ ردوبدل کر لیں تو ہم دونوں کا فائدہ ہوگا۔‘‘
’’وہ کیسے؟ اس نے پوچھا۔
’’دیکھیں ہم کنسٹرکشن کا کام کم کرتے ہیں اور مٹیریل سپلائی کا زیادہ کرتے ہیں۔‘‘
’’تو آپ کا مطلب ہے ہم آپ سے مٹیریل خریدیں…؟‘‘
’’جی… جی! یہی مطلب ہے‘ بالکل ٹھیک سمجھے آپ۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولا۔
’’تو آپ مجھے تفصیل سے بتائیں‘ سب سے پہلے تو مجھے لوہے کے بارے میں بتائیں کتنے گیج کا ہوگا‘ سیمنٹ کون سی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔‘‘
جب اس نے مال کے بارے میں بتایا تو کامران سمجھ گیا کہ یہ شیطان کا ایجنٹ ہے‘ ایسے مال سے تو ہیوی ٹریفک کے لیے پُل نہیں بنایا جاسکتا۔
کامران نے کہنیاں میز پر ٹیکی اور اس کی طرف جھک کر کہا ’’آپ جائیں گے یا میرے ساتھی آپ کو گھر پہنچادیں۔‘‘
وہ شخص بریف کیس اٹھا کر چل پڑا۔
’’سر! ایسے لوگ پہلے بھی بہت آتے رہے ہیں مگر پہلے والے صاحب ان لوگوں سے سودا پکا کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے‘ یہ پہلا موقع ہے کہ اسے مایوس جانا پڑا۔ آپ ٹینشن نہ لیں اس طرح تو ہوتا ہے‘ ان کو ٹکا سا جواب دینے والے کم ہی ہیں اور جو ہیں ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے‘ تم جائو کام کرو چھٹی میں کم وقت رہ گیا ہے۔‘‘ دل پہ بوجھ آپڑا تھا‘ طبیعت مکدر ہو رہی تھی۔ صبح وہ کتنا فریش آیا تھا۔
’’یہ میرے موڈ کو کیا ہوا؟ کہیں مجھے افسوس تو نہیں ہورہا سودا چھوڑنے کا؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا۔ ’’نہیں نہیں! ماں باپ کا پڑھایا ہوا سبق بچپن سے میرے کانوں میں ڈالا گیا‘ اتنا کچا نہیں ہو سکتا میرا رب میری مدد کرے گا۔‘‘
مزدور سامان سمیٹ کر رکھ رہے تھے۔ ’’اچھا دوستو! خدا حافظ۔‘‘ وہ اپنی بائیک کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
چار مہینے گزر گئے‘ اتوار کی صبح وہ اٹھا سب سے پہلے اخبار کا مطالعہ کرنے کی عادت تھی‘ میز پر اخبار رکھا تھا‘ ہر روز کی طرح اخبار اٹھایا سب سے اوپر شہ سرخی تھی ’’فیاض پلازہ تعمیر کے دوران ہی گر گیا‘ اگر خدا نخواستہ لوگ اس پلازہ میں رہائش پذیر ہوتے تو بڑا جانی نقصان ہوتا‘ ناقص مٹیریل لگا کر بنایا گیا تھا۔
’’اُف خدایا!‘‘ وہ اخبار لے کر بھاگا۔ امی جان باورچی خانے میں تھیں۔
’’امی…!‘‘ اس نے چلا کر پکارا۔ امی فوراً باورچی خانے سے آئیں ’’کیا ہوا کامران بیٹا؟ خیر تو ہے؟‘‘
’’امی خیر نہیں ہے‘ فیاض پلازہ گر گیا ہے ابھی بن ہی رہا تھا کہ دوسری منزل کابوجھ برداشت نہ کرسکا… اُف! یہ ظالم لوگ۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا اور سوچا اگر میں اس دن اس شخص کی باتوں میںآجا تو کبھی خود کو معاف نہ کرسکتا تھا۔
’’اللہ ہی حساب لے گا ایسے لوگو ں سے۔ چلو تم اتنا احساس مت کرو برائی کا بدلہ اور اچھائی کا بدلہ مل کر رہتا ہے۔ چلو چائے پی کر سکون سے لیٹ جائو‘ ایک ہی دن تو ملتا ہے آرام کے لیے۔‘‘
وہ آہستہ قدموں سے اپنے کمرے کی طرف لوٹ گیا۔

حصہ