موسیقی روح کا سکون یا عذاب؟

552

پوری دنیا کو چھوڑ کرصرف امریکا کو دیکھیں تو سال میں تقریباً ایک ملین گانے ریلیز ہوتے ہیں۔ فی گانا ہزاروں ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ کچھ گانے اتنی بڑی لاگت کے ہیں کہ اس پر ایک ملک چل سکتا ہے۔ ’’اسکرین‘‘ مائیکل جیکسن کے گانے پر سات ملین ڈالر لاگت آئی۔ اسی طرح ایک اور گانے پر 85 ملین ڈالر لاگت آئی، جو کئی ممالک کی آمدنی کے برابر ہے۔ فیمنزم کے پس منظر میں بنائے گئے گانے ایسے ہیں کہ جن کی شاعری نے وہاں کی بچیوں کو ہوش و خرد سے بے گانہ کردیا۔
وہ لڑکی عالمی میوزک انڈسٹری پر تحقیق کررہی تھی۔ تجسس تھا کہ اِس میں اُس نے کیا تحقیق کی ہوگی۔ پوچھنے پر عجیب و غریب حقائق سے آگہی ہوئی۔ کہنے لگی ’’میوزک انڈسٹری نے پورے معاشرتی نظام کا تیا پانچا کردیا ہے، لیکن اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوگوں پر اس کے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک اور منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ انڈسٹری جن ہاتھوں میں ہے اُن کا اپنا ایجنڈا، مخصوص پس منظر اور نظریہ ہے، موسیقی کے ذریعے وہ اسی کا پرچار کررہے ہیں۔
میری آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑیں جب اُس نے بتایا کہ ان گانوں اور میوزک میں ڈرگز، الکوحل اور دیگر اخلاق باختہ رویوں کے متعلق دعوتی مصرعے ہی نہیں بلکہ شیطان کی بندگی کا واضح اعتراف بھی موجود ہے۔ ان کی موسیقی کا بیشتر زور حرام تعلقات کی تشہیر پر ہوتا ہے، جو گالیوں اور شیطانی کلمات سے بھرا، سراسر بدکاری کی دعوت دیتا ہے۔
موسیقی کا اہم کام دماغ کنٹرول کرنا بھی ہے۔ یہ دماغ کو ایک الگ طرح کے نشے میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی لیے اس کو شراب کا نائب بھی قرار دیا گیا۔ اس سے حیا کی موت اور شہوت کا راج ہوتا ہے۔ اگر نشہ جسم اوردماغ کو ناکارہ کرتا ہے تو موسیقی روح اور عقل کو لے ڈوبتی ہے۔
مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی بات یاد آ رہی ہے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کے استاد سے کہا ’’اگر تم اس کے دل میں گانے اور بانسری کی نفرت ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھوں گا کہ تم نے تربیت کردی، اسے نئی دنیا پیدا کرنے کے قابل بنادیا کہ سوچنے سمجھنے والے ذہن ہی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‘‘ بقول اقبالؒ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
ابن قیمؒ نے کیا ہی متنبہ کردینے والی بات کہی کہ جس دل میں گانا اور میوزک آجائے وہاں قرآن کی محبت نہیں رہتی، کہ یہ دل کو غفلت میں ڈالنے والے نفاق کا گھر کرنے والی چیزیں ہیں۔ حدیثِ مبارکہ میں لہوالحدیث کی تشریح میوزک اور گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر اُس شے کو جو انسان کے حواس چھین لے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر ڈالے، حرام قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی کو حرام کہا گیا، جو اسے غیر حقیقی دنیا میں لے جاکر چاند ستارے توڑ لانے کی بات کرتی ہے اور انسان ایسا غافل ہوتا ہے کہ قیمتی ترین متاع ایمان تک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
ایک عالمِ دین سے جو کہ مائنڈ سائنسز میں پی ایچ ڈی بھی تھے، کسی نے موسیقی کے حرام ہونے کی وجہ کے بارے میں سوال کیا۔ کہنے لگے ’’میوزک انسان کو خود پرست اور خودغرض بناتا ہے، اُسے اپنے سوا کسی کی پروا نہیں رہتی، اور یہ ایسی کھائی ہے جس میں گرنے کی کوئی انتہا نہیں‘‘۔ آسان الفاظ میں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ انسان جب خوش ہوتا ہے تو اس میں کیمیائی مادہ ’’ڈوپامین‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خوشی جب کسی جسمانی یا روحانی مشقت سے حاصل ہو تو دماغ میں ایک اور کیمیکل پیدا ہوتا ہے جو اسے توازن میں لاتا ہے، جب کہ گانوں، میوزک، موبائل گیمز میں جسمانی مشقت نہیں ہوتی، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ’’ڈوپامین‘‘ اگلی بار دہری تن آسانی کا تقاضا کرتے ہیں اور متوازن کرنے والا کیمیکل نہیں بن پاتا، نتیجتاً انسان مزید سے مزید لذت اور خوشی کی تلاش میں آگے چلا جاتا ہے، اور جب اسے مزید لذت نہیں ملتی تو ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔
موسیقی بھی انسان میں یہی کیفیت پیدا کرکے مزید سے مزید کی تلاش میں اسے زندگی میں کچھ بھی خاص کرنے اور سوچنے نہیں دیتی۔ لہٰذا اس کا مقصد ہر جگہ سے صرف مزید خوشی کا حصول رہ جاتا ہے۔ اس طرح وہ انسانی زندگی کے بجائے حیوانی زندگی کے شکنجے میں کسا جاتا ہے، جن کو صرف اپنے پیٹ اور خواہشات سے غرض ہوتی ہے۔

حصہ