ہم میں کتنے فی صدی آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں، کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں، کوئی’مفید‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’نفع بخش‘ بے ایمانی کرنے میں صرف اس بنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً برا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو وہاں کتنے فی صدی اشخاص محض اپنے اخلاقی احساس کی بنا پر، کسی جرم اورکسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی، ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہوں؟ ہمارے زمین داروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مال داروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی اور کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزادی سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنفین میں، اور ہمارے قومی ’خدمت گزاروں‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک سے ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلقِ خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟
(’بنائو اور بگاڑ‘ابوالاعلیٰ مودودی، جلد 31، عدد 5، ذی العقدہ 1367ھ، ستمبر 1948ء، ص 315۔316)