قیام پاکستان کی تاریخ بہت سی ناقابل فراموش شخصیات کے کارناموں سے مزین ہے‘ ان تمام شخصیات نے پاکستان کی تحریک جدوجہد آزادی اور قیام کے بعد پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے اور اس کے روشن مستقبل کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ان میں صرف مردوں نے ہی حصہ نہیں لیا بلکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ جدوجہد پاکستان میں شامل تھیں۔ پاکستانی قوم کی جرأت مندانہ تاریخ میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کا نام ہر لمحہ قائداعظمؒ کے ساتھ رہے گا۔ وہ نہ صرف عظیم بھائی کی عظیم بہن تھیں بلکہ عزم و حوصلہ‘ بصیرت‘ دیانت‘ سچائی اور یقین محکم کی مجسم تصویر تھیں۔ دراصل ایسی عظیم شخصیت کو خراج تحسین اور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا مقصد دراصل ان عظیم روایات کی تجدید کرنا ہے جو ان کی رواداری اور کارناموں سے جنم لیتی ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ سوجھ بوجھ‘ عقل و دانش اور فہم و فراست سے نوازا تھا۔ وہ بچپن سے ہی ہر معاملے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے ایسے وقت میں تعلیم حاصل کی جب مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ انگریزی تعلیم سے لڑکوں کو بھی دور رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا۔ 1910ء میں انہوں نے میٹرک پاس کر لیا اور 1913ء میں پرائیویٹ طور پر سینئر کیمبرج کا امتحان بہترین نمبروں سے پاس کیا۔ 1922ء میں انہوں نے ڈینٹسٹ کی سند حاصل کی۔
1929ء میں قائداعظم کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ قائداعظم کی قانونی اور سیاسی ذمہ داریاں بڑھتی جارہی تھیں۔ ان کی بیٹی وینا اس وقت صرف دس سال کی تھیں۔ بمبئی کے پرشکوہ علاقے مالابارہل میں ان کے خوب صورت گھر کا انتظام اور ان کی نو عمر بیٹی کی پرورش و نگہداشت اہم ذمہ داریاں تھیں جن کو محترمہ فاطمہ جناح نے احسن طریقے سے پورا کیا۔ اس کٹھن وقت میں محترمہ نے اپنے مہربان اور شفیق بھائی کی ذمہ داریوں کو اپنی صلاحیتوں سے بڑے اچھے طریقے سے پورا کیا۔
انہوں نے نہ صرف بھائی کے گھر کو سنبھالا بلکہ برصغیر کی مسلم خواتین کو بیدار کرنے اور تحریک پاکستان کے انصرام میں محترمہ فاطمہ جناح کا کردار بہت اہم رہا۔ مسلم لیگ کے ہر اہم اجلاس میں وہ قائداعظم کے ساتھ شریک رہیں۔ مسلم خواتین میں جوش و ولولہ پیدا کیا۔ پردہ دار خواتین سیاسی جلسوں میں مردوں کے ساتھ شرکت سے گریز کرتی تھیں۔ فاطمہ جناح خود پردہ نہیں کرتی تھیں مگر ان کا لباس اسلامی احکامات کے مطابق تھا۔ وہ مغربی تہذیب کو ناپسند کرتی تھیں اور ان لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا سمجھتی تھیں جو مغربی تہذیب کی فرسودہ روایات کو اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
لاہور میں مسلم لیگ کے 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں فاطمہ جناح قائداعظم کے ساتھ شریک تھیں۔ وہ ہمہ وقت ان کی صحت کا خیال رکھتیں‘ وقت پر ان کو دوا دیتیں۔
1943ء میں قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے۔ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے فاطمہ جناح نے ان کے زخم صاف کرکے مرہم پٹی کی اور اس کے بعد عدالت میں پیش ہو کر مجرم کے خلاف بیان دیا۔ وہ سیاست کے رموز اور طریقِ کار سے پوری طرح واقف تھیں۔
عورت کی بیداری کے ساتھ وہ بچوں کی کردار سازی پر بھی زور دیتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ اچھے تعلیمی ادارے ہی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں یہی بچوں کے بنیادی کردار کا گہوارہ ہیں۔ ان کا فرمان تھا کہ ’’یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں‘ یہی کل قوم کے رہنما بنیں گے۔ چنانچہ وہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی پُر شفقت محبت میں پروان چڑھتے ہیں اور میرا عقیدہ ہے کہ یہی عمر کا وہ دور ہے جب ہمارا کردار بنتا ہے اور یہی وہ عمر ہے جس کے نقوش دیرپا ثابت ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ استاد اپنے فرائض بہ حسن خوبی انجام دیں۔ ان کے ساتھ طلبہ میں اخلاق اور ذہنی بلند پیدا کی جائے اور ان میں زندہ قوموں اور زندہ انسانوں جیسے احساسات کی اہلیت پیدا کی جائے۔ چنانچہ اس احساس کو اجاگر کرنے کے لیے والدین کا اساتذہ کے ساتھ تعاون بہت ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا کام ادھورا رہ جائے گا۔ اساتذہ کا سب سے اہم کام طلبہ کی کردار سازی ہے۔
قیام پاکستان بعد محترمہ فاطمہ جناح نئی مملکت کے انتظام و انصرام میں ہمہ وقت مصروف رہیں۔ انہوں نے لاکھوں مہاجرین کی امداد اور ان کی آباد کاری کے لیے فنڈز اکٹھے کیے۔ مہاجرین کی بحالی کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگی خواتین کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح ان خواتین کی بے انتہا حوصلہ افزائی کرتی تھیں‘ ان سے ملاقات کرتیں۔ انہوں نے شعبہ خواتین کو انتہائی سطح پر منظم کر دیا تھا۔ وہ خواتین کی بہتری کے لیے ہمیشہ پر عزم رہیں اور سوشل ورک کے ذریعے خواتین کے مسائل کی تلافی کرنے کی کوشش کرتیں۔ قائداعظم کی زندگی کے آخری دنوں میں زیارت میں ان کی بہتری نرسنگ کی۔ ان کی وفات کے بعد محترمہ نے اپنا زیادہ وقت سماجی خدمات اور خواتین کی بہترین کے کاموں میں صرف کیا۔ پاکستان میں خواتین کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ انہوں نے ویلفیئر سینٹر قائم کیے۔ جو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیشہ قوم کے اتحاد‘ جمہوریت اور جمہوری عمل کے لیے کوشاں رہیں۔ قوم کا کردار اس کا نصب العین اور زندگی کے مقاصد ان کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے۔ عورتوں کے حقوق اور تعلیم نسواں کی پُرزور حامی تھیں مگر وہ اس بات پر بہت زیادہ زور دیتی تھیں کہ بچے کی اصل تربیت گاہ والدین اور خاص طور پر ماں کا قرب ہوتا ہے کیوں کہ مرد اور عورت زندگی کے ہر شعبے میں خواہ کتنے ہی ترقی پسند اور یکساں حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کریں عورت ہر حال میں اس پہلے گھر اور بچوںکی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خوش حال ملک کے خوش حال گھرانے اور صحت مند عمدہ تربیت یافتہ بچے صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔ اگر مردوں کو اپنے گھروں میں خوشی اور اطمینان کی وہ رمق نظر آجائے تو جو ہمارے اکثر گھروں میں مفقود ہے تو ان کے لیے زندگی کی راہیں کتنی ہموار ہو جاتیں اور وہ قوم و ملک کے لیے بہترین شہری ثابت ہوں۔
محترمہ فاطمہ جناح کے قائداعظم کی وفات کے بعد ہر چیلنج کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے مائوں کی طرح بڑھاپے میں ایک آرام دہ زندگی کا سکون چھوڑ کر اپنے عظیم بھائی کے ورثے کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ مادر ملت ایک عظیم قائد کی عظیم بہن تھیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے اپنی زندگی کا ہر لمحہ وقف کر دیا تھا۔ وہ عزم و ہمت کی پیکر تھیں‘ ان کی جدوجہد اور قربانیوں سے پاکستان کی تاریخ مزین رہے گی۔