تصور کریں ۔۔مکہ کی چلچلاتی دھوپ،اونٹوں پر مہنیوں کی سفر کی تھکن سے چور قافلے حرم میں داخل ہورہے ہیں۔گرد آلود لباس،بکھرے بالوں میں دھول مٹی،ایسے میں کوئی میزبان حرم لپک کر ٹھنڈا پانی پیش کردے تو رواں رواں دعا دیتا ہوگا۔حاجیوں کو پانی پلانے کے لیے بھی انھیں دکان،مکان اور کھیت چھوڑنا ہی پڑتے ہونگے۔مگریہ اسلام ہے جو ترجیحات کا تعین سکھاتا ہے۔
سیفٹی زون سے باہر نکالتا ہے۔ببانگ دہل عرش سے کہا جاتا ہے کہ “حاجیوں کو پانی پلانا اللہ کی راہ میں مجاہدے کے برابر نہیں ہے۔”یعنی جب جنت الفردوس کا سوال کرتے ہو تو کم درجے کی نیکی پر قناعت مت کرو۔تمہیں وژن تو دیا گیا اس دعا کے ذریعہ۔۔وجعلنا للمتقین اماما۔دعا بھی مانگو تو متقین کی امامت کی۔جنت کے سب سے اونچے باغ الفردوس سے کم مت مانگنا۔ذی الحجہ کے بڑے دن ہیں ذرا بے لاگ جائزہ لیجیے گا۔ہم میں سے کتنے حاجیوں کو پانی پلانے سے آگے سوچ پر بند باندھے بیٹھے ہیں۔چند مخصوص اعمال و عبادات کو نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔
ہمیں خبر ہی نہیں پڑوس میں کون رہتا ہے۔۔پچھلے بیس برس میں ہم گلی محلے سے بھی تعارف نہ لے سکے۔ہمارے کتنے رشتہ دار ایسے ہیں جن کے بچے ہمارے بچوں کے ناموں تک سے واقف نہیں جب کہ ہماری فرینڈز لسٹ طول و عرض میں وسعت اختیار کررہی ہے۔جب ہم کسی سے میل جول رکھنے کے روادار ہی نہیں تو کوئی مشکل وقت میں ہماری طرف کیوں دیکھے گا۔کراچی شہر کے باسی رات بھر جاگ رہے ہیں۔اب سارے شہر میں نصف شب کے بعد لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔رات گاڑی میں تسبیح پڑھتے پڑھتے بائیں جانب دیکھا۔ایک گھر کے باہر کرسیوں پر آٹھ دس خواتین براجمان ،ہاتھوں سے پنکھے جھلتے ہوئے بوجھل وقت کے بوجھل پن کو مل بانٹ کر ہلکا کررہی تھیں۔پوچھنے پر پتا چلا کہ ہر دو گھنٹے بعد دو گھنٹے بجلی جاتی ہے۔رات کو دو سے چار بھی جاتی ہے۔مجھے وہ خاندان کے بزرگ یاد آئے جو پسینے میں شرابور بیٹھے تھے۔۔میں نے استفسار کیا کہ جنریٹر تو ہے گھر میں پھر چلایا کیوں نہیں؟ بولے بہو گھر میں نہ ہو تو نہیں چلاتے ہم میاں بیوی کو عادت ہے گرم وسرد کی۔
کل جب میں نے ڈرائیور سے کہا کہ آپ کب سے ڈیوٹی پر ہیں۔بولے باجی سال ہورہا ہے آپ کے ساتھ آج ڈیوٹی لگی۔انتہائی مہذب گفتگو نے تجسس سا پیدا کردیا۔ پوچھا بھائی پہلے آپ کہاں ملازمت کرتے تھے؟بولے دوعشرے سے مدرسہ میں مہتمم تھا۔میں نے دس سالہ علوم شرعیہ کا کورس کیا ہوا ہے۔
خطیب بھی ہیں اور افتاء بھی کیا ہوا ہے۔۔انکی گفتگو بھی انکے علم کا مظہر تھی۔بولے صبح آٹھ سے رات نو تک میری ڈیوٹی ہوتی تھی ادہر آٹھ ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔اب وہ چھوڑ کر ڈرائیوری کر لی ہے۔
بیٹے کو بھی عالم بنا رہا ہوں ،بیٹی بھی علوم شریعہ کے آخری سال میں ہے۔
میں سوچنے لگی پچھلے ماہ مدارس کا نتیجہ آیا جس میں پچیس لاکھ طلباء وطالبات نے شرکت کی۔کیا ہے ان بچوں کا مستقبل؟کل سہ پہر ایک پروگرام میں ملیں۔
دیار غیر سے والدین کی محبت کھینچ لائی۔میاں تین برس سے بے روزگار۔۔جمع پونجی سب ختم ہوگئی۔ ملازمت ملی نہ کاروبار پنپ سکا۔۔منڈی بیٹھی ہوئی۔بولیں واپس جانے کا سوچ کر ہول آرہا ہے مگر دیس چھوڑنا ہی شائد مقدر ٹہرا۔پچھلے روز ماسی بے چاری صحن میں سرف ڈال کر تیزی سے وائپر کی جانب بڑھی تو پھسل گئی۔۔بری طرح چیخنے لگی۔۔قریبی ہسپتال لے جاکر ایکسرے نکلوائے ھڈی کئی جگہ سے ٹوٹی۔۔اس کی حالت قابلِ رحم۔۔
ہسپتال نے کہا ایمرجنسی ٹریٹمنٹ ہوگی مگر پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کرانے ہونگے۔منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مرنے کے لیے چھوڑ دو یا ڈیڑھ لاکھ کا ابتدائی بندوبست!!خیالات کو جھٹک کر زور زور سے تسبیح کرنے لگی۔بڑے دن، کبریائی بیان کرنے کے دن۔گاڑی گلی کی طرف مڑی تو روڈ بلاک۔۔پچیس تیس لوگ بینر ہاتھ میں لیے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے کہ لوڈ شیڈنگ بند کرو۔
ٹینکر مافیا کے ہاتھوں ستائے لوگ العطش کا نوحہ کر رہے تھے۔کوئی کہے کہ اٹھیں نظام کو بدلیں ۔۔ہم کندھا جھٹک کر کہیں گے ہم سیاست سے دور ہی اچھے۔یہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں کوئی پاکستان سے مخلص نہیں سب کی اپنی مفاداتی سیاست ہے۔اگر ایسا ہے ! تو آپ کھڑے ہوں۔۔اپنی جدوجہد کا آغاز کریں۔۔لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلائیں۔اللہ کی خلق کے نصیب میں یہ دکھ کس نے لکھے؟
صدقہ،خیرات،نوافل،تلاوت۔۔یہ سب عمل قرون اولیٰ کے اسلاف ہم سے زیادہ تندہی سے کرتے تھے۔مگر وہ سمجھ گئے تھے حاجیوں کو پانی پلانے والی آیات کا مفہوم…مدنی زندگی کے دس برس کے غزوات وسرایہ کی تعداد دیکھ کر اندازہ کرلیں۔آج وہ لوگ جو خم ٹھونک کر کہتے ہیں ہم نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا!
کیا دیا ہے ہمیں حکمرانوں نے؟ بلاشبہ اس بدبودار نظام کے اصل مجرم وہی ہیں۔”ایک میرے ووٹ سے کیا ہوگا؟”تو ایک میرے بھوکا رہ جانے سے کیا ہوگا؟آج کا دن بھوکا رہ کر دیکھ لیں۔ایک میرے بچے کے جاہل رہ جانے سے کیا ہوگا۔یہاں زندگی بھر کی جمع پونجی بچوں کی تعلیم پر لگا دیتے ہیں۔۔
میرے بچے کا بروقت آپریشن نہ ہوسکا تو زمین پر کون سا زلزلہ آجائے گا؟
تب ہمارے پیر زمین پر نہیں ٹکتے کہ بچے کو بروقت طبی امداد ملے۔۔
جان رکھیے!آپ بہت اہم ہیں۔۔
اللہ کی دنیا کاٹھ کباڑ سے نہیں بھری ہوئی۔۔
آپ کی ضرورت ہے اس روئے زمین پر۔۔اس لیے “آپ” موجود ہیں۔جو حکیم الامت نے کہا ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔اب وقت ہے خود شناسی کا۔یہ مہینہ ہے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی خود شناسی سے سبق لینے کا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے نہیں چلتے ہوئے نظام سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔اگر حضرت ابراہیم کا پاکیزہ نفس بتوں کے آگے سر جھکانے پر تیار نہ تھا تو وہ کسی خانقاہ میں جاکر عبادت کرلیتے۔اصحاب کہف کا راستہ بھی ایمان کی بقا کا راستہ تھا۔۔۔لیکن ان کی ٹکر نظام سے تھی،جاری رسوم و رواج سے تھی۔وقت کے خداؤں سے تھی۔۔اپنی ہی نہیں سماج کی بھلائی کی فکر۔قدرت نے زندہ دل دیا تھا جس نے نظام کائنات میں تفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ لا احب الافلین۔(میں ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں کرتا)ان عظیم باپ بیٹے کی قربانی کی یاد تو تازہ کی جاتی ہے مگر دین ابراہیمیؑ کی بات کوئی نہیں کرتا۔ آپﷺ نے جان لیا تھا کہ دین ابراہیمیؑ درحقیقت انسانوں کوظلم اور بے چارگی سے نکالنا ہے۔
دین ابراہیمیؑ نظام عدل ہے تو آپ ﷺ نے کمر کس لی کہ اس دین کو قائم کرکے رھیں گے۔ قرآن نے اسوہ ابراہیمیؑ یونہی تو نہیں کھول کھول کر بیان کیا کہ قرآن کی منزلوں پر منزلیں پڑھتے جائیں، پڑھ پڑھ کر مردوں کے درجات بلند کرنے کی فکر کریں۔جب ابراہیم ؑ کی ذات وصفات آشکارا ہوگئیں تو کیا آپﷺ نے “یا ابراہیمؑ یا ابراہیمؑ” کی تسبیح شروع کردی، یا فرشتوں اور ابابیلوں کا انتظار کیا کہ اللہ اپنے دین کے نفاذ کے لیے آسمانی لشکر اتارے فرشتوں کے یا ابابیلوں کے جھنڈ۔اجتماعی وظیفے کیے ہوں کہ تیرے کمزور بندے کیسے یہ کام کرسکتے ہیں تو غیبی مدد ارسال کر.آپ ﷺ نے اپنے اصحابؓ کو حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت پرستی پر نہیں لگا دیا کہ ہزار دانے تسبیح پر درود ابراہیمیؑ پڑھو اس کی برکت سے دنیا کی خلافت نصیب ہو جائیگی!!آپﷺ نے انکا مشن اپنا لیا اور اپنےاصحابؓ کے ساتھ سینہ سپر ہوگئے۔
دنیا نے دیکھا کہ 23 برس کی ان تھک ،مسلسل جدوجہد، جس میں طائف کی گھاٹیاں بھی تھیں اور شعب ابی طالب بھی اور بالآخر دین ابراہیمیؑ قائم ہوگیا۔۔درجن بھر سے زیادہ غزوات اس سے دوگنا سرایا۔ہم جانور قربان کرکے فارغ اور یہ کرپٹ نظام ہمارے گلے پر چھری پھیر رہا ہے۔ اگر جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت نہ سوچا کہ یہ کوئی منتر نہیں بلکہ قرآن کا زندہ پیغام ہے کہ (میں نے اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جو زمین وآسمان کی مالک ہے۔)اور اس کے بندوں کو ظلم سے نظام سے آزاد کرانے کے لیے ہم وہاں تک جائیں گے جہاں تک جاسکتے ہیں۔