ووٹ کی پرچی

264

رات اکبر بڑبڑاتا ہوا جارہا تھا، میرے پوچھنے پر کہنے لگا:
”یار معلوم نہیں یہ کیا چکر ہے، صوبہ سندھ کے 14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی پی پی نے نہ جانے کیسے میدان مار لیا ہے اور انتخابات میں واضح اکثریت بھی حاصل کرلی ہے، اور تو اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس جیت پر ایسا جشن منایا کہ رہے نام سائیں کا۔ خاص طور پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے جیالوں کی خوشی کے تو انداز ہی وکھرے تھے۔“
اکبر کی باتیں سن کر میں نے کہا: ”اس میں ایسا کیا غلط ہوگیا؟ پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت ہے، اس کی کامیابی پر تمہیں کیا مسئلہ ہے؟“
میری بات سن کر کہنے لگا: ”مجھے کیا مسئلہ ہونا ہے! میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ ایسے کیسے ہوگیا؟“
اس کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو بھانپتے ہوئے میں نے ایک مرتبہ پھر کہا: ”تم کیوں پریشان ہورہے ہو! یہ نئی بات نہیں، اگر سندھ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد پہلے دن سے ہی یہاں کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی بازار نہیں، جب جب انتخابات ہوئے سندھ کے باسیوں نے ہمیشہ ”جیے بھٹو“ اور ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کا ہی نعرہ لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آج تک صرف پی پی پی کا ہی راج ہے اور مستقبل میں بھی یہ جماعت سیاسی طور پر شکست سے دوچار ہوتی دکھائی نہیں دیتی، اور پھر یہ عوام کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں منتخب کریں۔“
میرا جواب سن کر اکبر کی تو جیسے بیٹری چارج ہوگئی، کہنے لگا: ”لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیا ہے جس کی بنیاد پر اندرونِ سندھ بسنے والے ہمیشہ پیپلز پارٹی پر ہی اعتماد کرتے ہیں! میرا مطلب ہے کہ وہ کون سا چراغ ہے جسے گھسنے سے ووٹرز اس جماعت کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں، یا پھر ایسا کون سا کارنامہ ہے، کون سے ایسے متاثر کن ترقیاتی کام ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ جوق در جوق پولنگ اسٹیشنوں کی جانب دوڑ پڑتے ہیں! مجھے تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا آئینہ ہے جس میں سندھ ترقی کرتا نظر آئے تو مجھے بھی دکھا دو۔“
”اکبر! یوں دماغ نہیں کھپاتے۔ اپنے ذہن کو ان سیاسی الجھنوں سے دور رکھو۔“
میرے اس مشورے پر اُس نے تو ساری تاریخ سنا ڈالی۔ میرا مطلب ہے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے وہ کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہنے لگا: ”یہ سب وڈیرہ شاہی ہے۔ لوگوں کو غلام بناکر ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ اندرونِ سندھ کس طرح ووٹ لیے جاتے ہیں یہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، کراچی کے ضلع ملیر کی مثال ہی لے لو جہاں ہمیشہ پی پی کامیاب ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس ضلع کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر تم واقف نہیں تو سنو، یہ ضلع کب اور کیسے وجود میں آیا۔ یہ ضلع پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ اقتدار میں بنایا جانے والا ایک ایسا ضلع ہے جس کی بنیاد لسانیت پر رکھی گئی تھی۔ کورنگی سے دھابیجی تک ساحل کے ساتھ آباد گوٹھوں پر مشتمل یہ ضلع گڈاپ ٹاؤن تک چلا جاتا ہے۔ اگر اس کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انتظامیہ کو کنٹرول کرنے کے علاوہ ایک ایسی سیاسی چال تھی جس سے اُس وقت کی حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں ساحلی پٹی کے ساتھ قائم قدیم گوٹھوں کو ضلع کا درجہ دے کر پیپلز پارٹی نے سیاسی اہداف تو حاصل کرلیے مگر وہاں کے عوام پر کیا گزرتی ہے حکومت کو اس کی خبر تک نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جس بھونڈے انداز میں یہ ضلع بنایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی، یعنی کورنگی کی ساحلی پٹی پر قائم گوٹھوں کی جانب ہی نظر مار لیجیے جہاں صرف ایک سڑک کے فرق سے تمام گوٹھ ملیر ضلع کا حصہ بن گئے جس سے انتظامی امور میں مسائل پیدا ہوئے۔ سب سے زیادہ مسائل مختلف محکموں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حدود کے تعین پر ہونے لگے اور یہ علاقہ میرا اور وہ علاقہ تیرا کی جنگ شروع ہوگئی… اور تو اور ضلع بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ وہ علاقے جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے صرف انہیں ہی ملیر ضلع میں شامل کیا جائے۔ یوں دائیں بائیں بل کھاتی لکیریں کھینچ کر پیپلز پارٹی نے اس ضلع کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس سیاسی چال کے باعث پورا ملیر ضلع پیپلز پارٹی کی جیب کی گھڑی بن گیا۔ کسی بھی صوبے میں نئے اضلاع بنانے کا واحد مقصد لوگوں کے لیے انتظامی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن کراچی میں بنائے جانے والے اس ضلع کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی کھیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نتیجتاً عوام کو وڈیروں کے چنگل میں پھنسا دیا گیا، اور جب غریبوں پر وڈیرہ شاہی مسلط کردی جائے تو آزادی سے حقِ رائے دہی استعمال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بس جس طرح اس ضلع کا کنٹرول پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اسی طرح اندرونِ سندھ غریب ہاریوں پر بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کا تسلط ہے۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر میرا ذہن الجھا ہوا ہے۔“
اکبر تو یہ کہہ کر چلا گیا لیکن میرے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ گیا۔ میں نے سوچا کیوں نا اس گتھی کو سلجھانے کے لیے کہیں دور جانے کے بجائے کسی ایسے علاقے کی جانب سفر کیا جائے جو قریب ہو، اور پھر ووٹر کا سیاسی مزاج سمجھنے کے لیے دور جانے سے کہیں بہتر ہے کہ کسی بھی ایسے علاقے کا انتخاب کرلیا جائے جہاں جیالوں کی اکثریت ہو۔ لہٰذا اگلے ہی دن میں اکبر کی جانب سے نشاندہی کیے جانے والے ضلع ملیر کے قومی اسمبلی کے اس حلقے کی جانب چل پڑا جہاں سے ہمیشہ پیپلز پارٹی کا امیدوار ہی کامیاب ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ لوگ مجھے وہ حقائق بتا سکتے ہیں جن کی بنیاد پر یہاں کے عوام ہمیشہ ایک ہی سیاسی جماعت کے امیدوار کو کامیاب کرواتے چلے آرہے ہیں۔ میرا پہلا پڑاؤ گوٹھ ابراہیم حیدری میں پڑا، جہاں پہنچتے ہی بات سمجھ میں آنے لگی، میرا مطلب ہے کہ جس شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہوں وہاں کے مضافات کس طرح صاف ہوسکتے ہیں؟ ابراہیم حیدری گوٹھ میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیر اور ابلتے ہوئے گٹر انتظامیہ کی عدم توجہی کی داستان سنا رہے تھے۔ یہاں سہولت نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ علاقے کی دیواروں پر پیپلزپارٹی کی جانب سے کی جانے والی چاکنگ سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ علاقہ جیالوں کا گڑھ ہے، لیکن عملی طور پر مجھے وہاں کوئی حکومتی یا پارٹی رہنما دکھائی نہ دیا۔ لوگ مجھ سے اپنی پریشانیاں بیان کرتے رہے۔ قاسم جو پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر تھا، اپنی روداد سناتے ہوئے کہہ رہا تھا:
”یہاں سے لے کر علی محمد خاصخیلی گوٹھ تک آباد لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے، لوگ کے الیکٹرک کی وجہ سے انتہائی اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماضی میں ہمارے گوٹھ کے ساحل پر بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ایک جہاز لنگرانداز ہوا تھا، لیکن کچھ نہ ہوا، وہ ایک میگا واٹ بجلی بھی نہ دے سکا۔ سب پیسہ کمانے کا دھندا ہے، غریب کو آٹے دال کے بھاؤ میں الجھا رکھا ہے۔ گوٹھ کے سیکڑوں گھروں میں بجلی نہیں۔ غریب کا کوئی والی وارث نہیں۔ گیس کی صورت حال بھی بہت خراب ہے، حکومت نے گھروں میں گیس کا کنکشن برائے نام دے رکھا ہے۔ کم پریشر کے باعث روٹی نہیں پکا سکتے، اس کے لیے لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ہماری قوم والے لکیر کے فقیر ہیں، ہر مرتبہ ووٹ دینے چلے جاتے ہیں، سب نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، ان کو اپنے حقوق کی خبر نہیں، جس دن ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا اُس دن اچھے لوگ اقتدار میں آجائیں گے۔ یہاں بہت غربت ہے۔ خدا ہماری بھی ضرور سنے گا۔ باقی یہ سیاست دان تو صرف ووٹ مانگنے آتے ہیں، بعد میں پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔“
قاسم کی باتوں کے دوران مجھے خواتین کی اکثریت سروں پر مٹکے رکھے پانی لاتے ہوئے دکھائی دی۔ تھرپارکر میں پانی لاتی خواتین کی طرح ان کا ماحول دیکھ کر مجھے خاصی حیرت ہوئی، جس پر قاسم نے بتایا:
”ہمارے گوٹھ کے مرد دن بھر مزدوری کرتے ہیں، اس لیے یہاں کی خواتین پانی بھر کر لاتی ہیں۔ یہاں لوگ خرید کر پانی پیتے ہیں۔ دن میں ڈیڑھ سو سے دو سو روپے تک کا پانی خریدا جاتا ہے۔ لوگ گاڑیوں اور ٹھیلوں پر پانی فروخت کرتے ہیں۔ یہاں کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ حیدری گوٹھ، علی گوٹھ، چشمہ گوٹھ اور ریڑھی گوٹھ میں قائم جیٹی سے یہاں کے لوگ مچھلیاں پکڑنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ جون جولائی کے مہینوں میں حکومت کی طرف سے مچھلی پکڑنے پر پابندی ہوتی ہے اس لیے ان دنوں ہم بے روزگار ہوتے ہیں۔ میں لانچ چلاتا ہوں، دوسرا کوئی اور کام نہیں جانتا اس لیے ان دو ماہ میں کسی مستری کے ساتھ مزدوری کرکے بچوں کی روٹی کا بندوبست کرتا ہوں۔ زیادہ تر کام نہیں ملتا اس لیے فاقے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ حکومت ہمارے کاروبار سے کروڑوں روپے کماتی ہے لیکن ہمارے اوپر کچھ نہیں لگاتی، کوئی سہولت نہیں۔ اس ناانصافی کی خبر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کو بھی ہے لیکن سب مال بنانے میں مصروف ہیں۔ حکومت غریبوں کا پیسہ کھا کر بہت بڑا ظلم کررہی ہے۔ ہم اپنی فریاد کس سے کریں! کوئی سننے والا نہیں۔“
”تمہاری باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ انتہائی پریشان ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کسی دوسری جماعت کو منتخب کیوں نہیں کرلیتے؟ ہمیشہ ایک جماعت کو ہی ووٹ کیوں ڈالتے ہیں؟ پیپلز پارٹی میں کچھ تو ایسا ہوگا جس کی بنیاد پر وہ برسوں سے کامیاب ہوتی چلی آرہی ہے“۔ میں نے قاسم سے کہا۔
”میں پہلے بتا چکا ہوں کہ لوگ نفسیاتی مریض ہوچکے ہیں۔ میں کسی کو ووٹ نہیں ڈالتا اس لیے یہ باتیں کررہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ مجھ جیسے شخص کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہاں اکثریت پیپلز پارٹی کے چاہنے والوں کی ہے، میرا مطلب ہے یہ جیالوں کا گڑھ ہے، لوگ جیے بھٹو کا نعرہ لگا کر ووٹ ڈال آتے ہیں، انہیں اپنے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں، بس محبت اور شخصیت پرستی میں مرے جارہے ہیں۔ انہیں اپنے مسائل اور اپنے بچوں کے مستقبل سے زیادہ چند خاندانوں کی عزت پیاری ہے۔ جب تک انہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہوگا یونہی رسوا ہوتے رہیں گے۔“
قاسم کی ایک ایک بات حقیقت پر مبنی تھی، وہ سچا انسان تھا۔ اس سے کی جانے والی گفتگو کے دوران میرے ذہن میں اٹھنے والے تمام سوالات کے جواب مجھے مل گئے۔ اس کی باتوں سے جو کچھ میں نے اخذ کیا وہ یہ کہ ہمیں اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ نہیں ہے، ہم ووٹ کی پرچی کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہوئے پھینک دیتے ہیں۔ قاسم نے سچ کہا کہ جس دن ہماری قوم کو اس پرچی کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا اُس دن یہ نظام لپیٹ دیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کیا جائے، کیوں کہ یہ صرف کسی ایک ضلع یا علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کی یہی صورتِ حال ہے۔ ہم جس دن سیاسی شعور اجاگر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یقین کیجیے اُس دن سے ہی پاکستان ترقی و خوش حالی کی حقیقی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔

حصہ