اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جدید شاعری کی جمالیاتی اصول لیکچر و مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت لودھراں سے آئے ہوئے معروف شاعر مبشر وسیم لودھی نے کی۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ جہاں رقص اور موسیقی کو بربنائے اشتراک آہنگ یا شاعری کے زمرے میں شامل کیا ہے وہاںوزن سے عاری کلام کو بھی بربنائے اشتراک تخیل منظوم حزنیوں اور رزمیوں کے ساتھ شاعری کے زمرے میں شریک کرنا چاہیے۔ اس کا بیان مبہم اور لہجہ خفیف ہے اور اس ابہام کا سبب یہ ہے کہ اگر ایک طرف وہ موسیقی کو بربنائے آہنگ ہی نہیں بلکہ تخیل بھی شاعری کے زمرے میں شریک کرتا ہے جیسا کہ اس کے اس جملے سے واضح ہے ’’ایقاع اور مقام میں غصے اور نرمی کی‘ شجاعت اور رواداری اور اس کے مخالف جذبات کی حقیقی نقل ملتی ہے۔‘‘وہ شاعری کو موسیقی سے اس قدر قریب پاتا ہے کہ وہ شاعری کو ’’انبساط گوش کے شے قرار دیتا ہے نہ کہ انبساط چشم کی۔
امریکا سے آئی ہوئی معروف شاعرہ رضیہ حسین کرن نے کہا کہ اگر شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے تو کیا شاعری کا اخلاق مخلیہ کلام منشور پر بھی کیا جاسکتا ہے‘ کولرج اسے تسلیم نہیں کرتا لیکن جناب ورڈزورتھ اس کے حق میں اپنی گردن ہلاتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’نظم اور نثر کی زبان کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے‘ وزنِ نفس شعر سے خارج میں ہے یہ اوپر سے اضافے کی ہوئی ایک شے ہے جس کی روح میں موسیقیت نہیں وہ حقیقی شاعر نہیں۔ عظیم حیدر سید نے کہا کہ اب اس بات کو ارسطو کا زور استدلال امیڈاکلیس کو شاعروںکے جرگے سے خارج کرنے پر ہے نہ کہ سورن‘ زینارکس یا سقراط کو شاعر ثابت کرنے یا وزن کو شاعری کے حق میں غیر ضروری قرار دینے پر ہے اور ایسا اس نے اس لیے کیا کہ وہ شعری کو صرف وزن ہی کی نسبت سے نہیں دیکھتا بلکہ تخیل کی نسبت سے بھی‘ یعنی اس کے نزدیک شاعری بلحاظ معنی تخیل ہے نہ کہ استدرا کی۔ اسی بات کو اس پہلو سے بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ اس کے نزدیک شعری کا فوری مقصد انبساط ہے نہ کہ تعلیم ذہن چنانچہ جب انگلستان کے رومانی شاعر کولرج نے نفسِ شعرا کو ازسر نو متعین کرنے کی کوشش میں شعر کی ضد کونثر کو نہیں بلکہ سائنس کو قرار دیا تو اس کے سامنے بھی یہی مسئلہ یعنی اگر امیڈاکلیس نہیں تو معلم الشعرا یعنی یوپ اور اس کے طرح کے دوسرے شعرا کو شاعروں کے زمرے سے خارج کرنے کا تھا۔ یہاں میں یہ چیز واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ شاعری کا بیر اخلاق سے نہیں بلکہ معلمی سے ہے اوراس کے لیے اس نے وہی منطق اختیار کی جو ارسطو کی تھی کہ شاعری کا فوری مقصد انبساط ہے نہ کہ تعلیم‘ ذہن یا مدرسیت۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ شاعر کا فوری مقصد انبساط ہے اور سائنس کا فوری مقصد ترسیل علم ہے۔
سیف الرحمن سیفی ن کہا کہ مفکر کے اقوال کے آئینے میں انگلستان کے ارسطا طیسی مفکر کولرج نے اپنے زمانے کے امپڈا کلیس کو شاعروں کے جرگے سے خارج کرنے کے لیے شاعری کی ازسر نو تعریف کی تو ورڈز ورتھ کی گمراہی کے باوجود کہ نظم اور نثر کی زبان کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے‘ وہ بھی اس نظریہ پر پہنچا کہ شاعری کا ماخذ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ تخیل‘ آہنگ اور ہارمونی۔ چنانچہ اس نے اس امر کی وضاحت صاف لفظوں میں کی ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ نثر مخیلہ اور نظم مخیلہ کی زبان اور آہنگ کے در میان کوئی بنیادی فرق نہیں بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ حالی نے شاعری کے حق میں قوتِ مخلیہ مقدمِ کروانا کہ ان کے نزدیک بھی شعری کا فوری مقصد انبساط تھا۔ کیا وہ بھی کسی امپڈا کلیس یا پوپ سے برہم تھے۔ جواب ظاہر ہے کہ وہ تو خود ہی ایک بڑے پوپ تھے پھر حالی کو کیا پڑی تھی کہ آہنگ اور ہارمونی کو وزن سے ممیز کیے بغیر‘ وزن کو نفسِ شعر سے خارج کرکے وہ طوسی کے پسِ آئینہ یہ بول اٹھے کہ شعرِ کلام مخلیہ ہے جو شاعری کے فوری اور غایتی مقاصد کے درمیان کوئی فرق نہ کرسکے جو شاعری سے علمِ اخلاق کی معطمی کا کام لینا چاہتا ہو وہ بھلا تخیل کو کیوںکر مقدم گردان سکتا تھا۔ تو معلوم ہوا حالی کا اصل مقصد تخیل کو مقدم کروانے کا نہیں بلکہ نفسِ شاعر سے وزن کو خارج کرنے کا تھا۔ وہ ورڈز ورتھ کے اس خیال کے مارے ہوئے تھے کہ ’’نظم اور نثر کی زبان میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔‘‘ سادہ زبان میں شعر کہو‘ صرف یہ کہنے کے لیے انہوں نے اتنا کھکھڑیا۔ قبل اس کے کہ اس کے بارے میں تفصیل سے کچھ کہوں‘ لفظ سادہ کو سمجھ لیجیے۔ یونانی زبان میں نثر کے لیے جو لفظ ہے اس کے معنی ہیں عریاں لفظ۔ میرامن کے محاورے میں نگا منگا لفظ ننگا منگا کا ہے‘ سے موسیقی ہے۔ اس موقع پر جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں مبشر وسیم لودھی‘ رضیہ حسین کرن عظیم حیدر سید‘ عرفان علی عابدی‘ شہناز رضوی‘ محمد رفیق مغل‘ سیف الرحمن سیفی‘ اقبال سہوانی‘ فرح جعفری‘ باقر عباس فائز‘ نظر فاطمی‘ شجاع الزماں خان‘ صدیق راز ایڈووکیٹ سید رضی حیدر زیدی‘ وحید محسن‘ عبدالستار رستمانی‘ سید علی اوسط جعفری‘ جمیل ادیب سید‘ فرح دیبا‘ ماورا سید‘ مہر جمالی‘ محمد علی زیدہ‘ فرحت اللہ قریشی تھے۔