’’آپ کی یہ والی خالہ سے تو مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ملاقات ہوئی ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے ہمارے شجرۂ نسب کے چارٹ پر بنی بڑی خالہ کی طرف اشارہ کیا۔
عورتیں تو شجرہ کو یاد رکھنے میں پہلے ہی بہت طاق ہوتی ہیں‘ ہمیں یہ رشتہ وغیرہ نہ ٹھیک سے سمجھ آتے ہیں اور نہ ہی یاد ہوتے ہیں لہٰذا یہ شجرۂ نسب ہم نے اپنے لیے ترتیب دیا تھا اور اسی کی مدد سے نازیہ کو اس کا سسرال سمجھا رہے تھے۔
’’یاد کیوں پڑنے لگا‘ جب کہ یہ خالہ ہماری شادی میں آئی ہی نہیں تھیں۔‘‘ ہم نے وجہ بتائی۔
’’کیا بہت بیمار رہتی ہیں؟ پھر تو ہمیں ان سے ملنے کے لیے چلنا چاہیے۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بول گئیں۔
’’نہیں‘ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ وہ ہم سے ناراض ہیں۔‘‘ ہماری بظاہر سیدھی سادھی سی بات ان پر گویا بم بن کر گری‘ وہ ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئیں اور بولیں ’’اللہ میری توبہ… مگر کیوں؟‘‘
’’امی جان سے اس کی وجہ پوچھو گی تو تین چار گھنٹے کا اسکرپٹ سنا دیں گی‘ ڈرامائی تشکیل کے ساتھ‘ مگر میں تمہیں ایک ہی جملے میں اس کا لب و لباب بتا دیتا ہوں۔‘‘
ہم نے سراہے جانے کی امید پر تمہید باندھی۔ مگرہوا الٹ وہ بے چینی سے بولیں ’’یہ آپ نے وجہ بتائی ہے۔‘‘
’’دراصل خالہ چاہتی تھیں کہ ہماری شادی ان کی بیٹی سے ہو‘ جب انہیں ہماری شادی کے متعلق پتا چلا تو کھٹ پٹ ہوئی اور وہ ناراض ہو گئیں۔‘‘ ہم نے جھٹ پٹ بتایا۔
’’آپ کی سگی خالہ آپ سے ناراض ہیں اور آپ سکون سے بیٹھے ہیں۔‘‘ وہ حیرانی سے بولیں۔
’’ارے بابا توکیا ان کی چوکھٹ پر سر رکھ کر بیٹھ جائوں کہ جب تک راضی نہ ہوں گی ٹلوں گا نہیں؟‘‘ ہم نے اختراع کی۔
’’کرنا تو کچھ ایسا ہی چاہیے۔‘‘ وہ دھیمے سے بولیں۔
’’ارے بہت کچھ کیا ہے‘ آپ کو پتا نہیں۔ امی جان کئی مرتبہ گئیں صلح صفائی کے لیے مگر ہر مرتبہ ان کی دھلائی ہی ہوئی۔ خالہ مزاج کی بہت تیز ہیں۔ کارڈ بھی دیا تھا شادی کا جو انہوں نے پھاڑ دیا۔‘‘ ہم نے خالہ کی شکایت لگائی۔
’’آج ہی شام کو چلتے ہیں خالہ کی طرف۔‘‘ انہوں نے سنی اَن سنی کی۔
’’نا بابا نا… بڑی بے عزتی ہوگی۔‘‘ ہم نے صاف انکار کیا۔
’’فکر کیوں کرتے ہیں‘ میں آپ کے ساتھ برابر کی شریک ہوں گی۔‘‘ انہوں نے ہمت دلائی۔
’’امی منع کر دیں گی۔‘‘ ہم کندھے اچکا کر بولے۔
’’اجازت لینا میری ذمے داری…‘‘ وہ سر خم کرکے بولیں۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ہم نے جان چھڑائی۔
ہمیں ایک فیصد بھی امید نہیں تھی کہ امی مانیں گی‘ مگر نازیہ نے نہ جانے کیا جادو چلایا کہ نہ صرف وہ مان گئیں بلکہ خود بھی جانے کو تیار ہو گئیں۔
…٭…
شام اور رات کی درمیانی دھندلکے میں ہم بڑی خالہ کے دروازے پر کھڑے تھے۔خالہ کی چھوٹی بیٹی نے ہچکچاتے ہوئے دروازہ کھولا‘ مگر سلام کافی گرم جوشی سے کیا‘ پھر اندر دوڑ گئی۔
خالہ کی چار بیٹیاں تھیں‘ بیٹا کوئی نہ تھا‘ خالو کے انتقال کو بھی لگ بھگ پندرہ برس ہو گئے تھے۔
سب سے پہلے امی جان دروازے سے اندر داخل ہوئیں‘ پھر ڈاکٹر صاحبہ اور پھر ہم۔ مگر داخل ہوتے ہی ہم سب ٹھہر گئے۔
یہ وہی گھر تھا جہاںکبھی کبھی بچپن میں ہم دروازہ پھلانگ کر بھی اندر داخل ہو جاتے اور پورے گھر میں دندناتے پھرتے‘ آج کس قدر اجنبیت برت رہاتھا۔
اندرونی دروازے سے خالہ نمودار ہوئیں۔ امی جان کو دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا‘ مگر جیسے ہی انہوں نے ساتھ کھڑی بہو اور بیٹے کو دیکھا تو ان کا پارہ چڑھ گیا۔
’’تم میری بہن ہو‘ تو تمہیں برداشت کرلوں گی‘ مگر ان لوگوں سے کہو کہ یہاں سے چلے جائیں۔‘‘
امی جان واپس دروازے کی طرف پلٹ گئیں اور بولیں ’’چلو بیٹا…!‘‘
نازیہ نے ان کا بازو پکڑ کر انہیں روکا اور بولی’’ ایک منٹ امی جان۔‘‘ پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خالہ کے قریب پہنچ گئی۔
ہم سب اسی تجسس میں تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے خالہ کا ہاتھ تھاما اور دھیمے سے بولیں ’’میرا کیا قصور ہے خالہ؟‘‘
سوال مشکل تھا‘ خالہ پھنس گئیں جب کہ ہم نے دل میں سوچا ’’قصور یہ ہے کہ شادی کرنے سے پہلے اخبار میں اشتہار نہیں دیا کہ میں احمد صاحب سے شادی کر رہی ہوں‘ کسی کو بھی اعتراض ہے تو پندرہ دن کے اندر اندر مطلع کر دے۔‘‘
’’اجنبی سمجھ کر ہی دس منٹ بیٹھا لیجیے‘ پانی پئیں گے اور چلے جائیں گے۔‘‘
نازیہ بولی تو ہم نے سوچا کہ یہ پانی والا چکر ضرور پوچھیں گے بعد میں۔
خالہ کچھ کہے بغیر اندر کو ہو لیں۔ ہم بھی پیچھے پیچھے تھے۔ ہمارے لیے ڈرائنگ روم بھی نہ کھولا گیا‘ سامنے کے کمرے میں دو بستر پڑے تھے‘ ایک پر خالہ بیٹھ گئیں دوسرے پر ہم تینوں۔
کچھ دیر یونہی برف پگھلتی رہی پھر ڈاکٹر صاحبہ اٹھیں اور جا کر خالہ کے برابر میں بیٹھ گئیں۔
’’ہمیں معاف کر دیجیے نا خالہ جان۔‘‘ وہ بڑے پیار سے بولیں۔ ایسا کرتے وقت انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ان کے آگے کر دیے۔
امی جان کو شاید یہ بات بری لگی کہ ان کے خیال میں خالہ غلطی پر تھیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ نازیہ نے وہی جڑے ہوئے ہاتھ امی جان کی طرف کر دیے۔
امی جان ایک گہرا سانس لے کر چپ ہو رہیں۔
’’تمہارے معافی مانگنے سے کیا ہوتا ہے‘ مانگنی ہے تو یہ لوگ مانگیں‘ مگر میں معاف پھر بھی نہیں کروںگی۔‘‘ خالہ نے ہٹ دھرمی دکھائی۔
نازیہ نے بھی جواباً ہتھیار نکالا۔
انہوں نے چلتے وقت ہم سے پوچھا تھا کہ ’’خالہ کے لیے کیا چیز لیں جو وہ بہت پسند کرتی ہیں؟‘‘
’’بھئی انہیں سینڈلز کا شوق ہے‘ عجیب سا شوق ہے مگر سچ یہی ہے۔‘‘
راستے سے جب وہ سینڈل لینے کے لیے رکیں تو امی جان بہت حیران ہوئیں۔
’’کوئی مٹھائی‘ پھل وغیرہ لے لو‘ یہ کیا حماقت کرنے چلی ہو۔‘‘
’’کرنے دیں امی جان! ان کی حماقت میں بھی لیاقت ہے۔‘‘ ہم نے تائید کی۔
نازیہ نے چمڑے کی انتہائی نفیس سینڈلز نکال کر خالہ کی طرف بڑھائی۔ ’’دیکھیں ہم آپ کے لیے کیا لائے ہیں؟‘‘
خالہ نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر سے نظر پھیر لی۔ کچھ دیر تک نازیہ اسی طرح سینڈل ان کی طرف بڑھائے رہی یہاں تک کہ امی جان بولیں ’’چلو نازیہ بیٹی! بہت ہو گیا۔‘‘
نازیہ نے دونوں سینڈل ان کے پائوں کے پاس رکھ دیے۔ امی جان کھڑی ہوگئیں۔ ایسے میں اندرونی دروازے سے خالہ کی ایک بیٹی کچھ لے کر آنے لگی۔
’’خالہ اسے دیکھ کر غرائیں ’’تم اندر چلو۔‘‘
امی جان تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئیں‘ ہم نازیہ کے انتظار میں تھے۔
وہ خالہ کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہی تھیں ’’خالہ مان جایئے ناں… خالہ!‘‘
ہم جذباتی ہو کر بولے ’’ایسا منانے والا آپ کو پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘
خالہ کی منجھلی بیٹی پانی کا جگ اور گلاس لے کر آئی اور بولی ’’پانی…‘‘
خالہ خاموش رہیں۔ شاید اس مرتبہ وہ چاہتی تھیں کہ ہم پانی پی لیں۔
’’کیسے پی سکتے ہیں… جب خالہ ہی نہیں چاہتیں۔‘‘ نازیہ نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا اور دھیرے دھیرے وہ بھی باہر کی طرف بڑھی۔ ہم پیچھے پیچھے تھے اور سوچ رہے تھے کہ خالہ کس قدر پتھر دل ثابت ہوئی ہیں۔
اچانک نازیہ پلٹی دوبارہ اندر کو دوڑ گئی۔ ہم اسے روکتے ہی رہ گئے۔
کچھ ہی دیر میں خالہ نے ایک چیخ ماری اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ ہم گھبرا کر اندر پہنچے تو دیکھا نازیہ ان کے دامن پہ سر رکھے قدموں میں بیٹھی ہے‘ خالہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرے جا رہی ہیں اور روتے روتے کہتی جا رہی ہیں ’’بھاڑ میں جائے سب کچھ‘ نزہت کو بلائو‘ میری بہن کو بلائو‘ انعم ماہم کچھ میٹھا لے کر آئو‘ تمہاری بھابھی آئی ہے‘ میری بہو آئی ہے۔‘‘
…٭…
واپسی پر ڈاکٹر صاحبہ بولیں ’’جو جس سے جتنا زیادہ پیار کرتا ہے نا وہ اتنا ہی زیادہ ناراض ہوتا ہے‘ بڑی خالہ آپ کو اپنے بیٹوںکی طرح چاہتی ہیں۔‘‘
ہم نے ان سے مکمل اتفاق کیا۔ اتنی دیر میں انہوں نے اپنا موبائل نکالا اور کسی کا نمبر ملا کر بولیں’’سمیرا تمہارے سیدھے سادھے بھائی کے لیے ایک لڑکی ڈھونڈی ہے میں نے ہر طرح سے مناسب پایا ہے‘ بس تم لوگ کل ہی مل لو۔‘‘
’’بالکل …قریبی جاننے والی ہے‘ ان کی خالہ زاد بہن ہے…‘‘
وہ بولے جا رہی تھیں اور ہم رب کی پاکی بیان کر رہے تھے۔