جون کی ڈھلتی دوپہر میں ادبی انجمن حریم ادب کراچی نے قلم کاروں کے لیے ایک شاندار شام اور مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مقام وہی جانا پہچانا یعنی ادارہ نور حق، جہاں جوق در جوق شرکا کی آمد کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے تو چہار سو گلاب کی خوشبو مہک رہی تھی۔ اس مذاکرے کا مقصد قلم کاروں کے قلم کی نوک کو مزید نکھارنا اور تراشنا تھا تاکہ لکھنے والے اپنا سفر ثابت قدمی سے طے کرسکیں۔میزبانی کے فرائض سمیرا غزل نے انجام دیے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ،کرن وسیم نے سورۃ الرحمن کی آیات اور ترجمہ تلاوت کی‘ ماریہ فاروق نے خوب صورت حمدیہ کلام پیش کیا اور سماں باندھ دیا ۔
بعدازاں مذاکرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس کا عنوان ’’تحریر کو معیاری کیسے بنائیں؟‘‘ تھا۔ مذاکرے کی نظامت فائزہ مشتاق کے ذمہ تھی۔ مذاکرے میں ادبی شخصیات کی بہار تھی۔ مختلف رسائل و جرائد کی مدیرات کو مدعو کیا گیا تھا جن میں جسارت کی غزالہ عزیز ،ماہنامہ دوشیزہ اور سچی کہانناں منزہ سہام ، صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ راحت عائشہ ، ماہنامہ پاکیزہ کی نزہت اصغر و آمنہ حماد ، روزنامہ جنگ سنڈے میگزین کی شفق رفیع اور ڈراما و اسکرپٹ رائٹر نزہت سمن شامل تھیں۔
فائزہ مشتاق نے منزہ سہام سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہ معیاری ادب کیا ہے اور تحریر ادبی کیسے بنتی ہے؟ منزہ سہام نے کہا کہ معیاری تحریر وہ ہے جسے ہر عمر کے افراد یکساں پڑھ سکیں، جو مسئلہ اجاگر کر رہی ہو اور ہر دور کے لیے ہو ، وہی ادبی بن جاتی ہے۔ برسہا برس تک موجود ہوتی ہے لہٰذا صاف ستھری شائستہ زبان استعمال کی جائے۔ سخت اور کڑوی بات کو اچھے پیرائے میں قاری تک پہنچانے سے ہی قلم کار بنتا ہے۔
گفتگو کو بڑھاتے ہوئے غزالہ عزیز نے کہا کہ ڈائجسٹ ادب کا وہ میڈیم ہے جو دور دراز رہنے والے اردو دان طبقے اور ہر طرح کے لوگوں تک پہنچتا ہے۔ غیر معیاری ڈائجسٹ وہ ہیں جو زندگی کی حقیقتوں کو حدود و قیود کے بغیر کھلے الفاظ میں بیان کرے، جو بچیوں اور لڑکیوں کے لیے مناسب نہ ہو۔ معیاری ادب کی حیثیت ہمارے معاشرے میں آکسیجن کی طرح ہے۔ آکسیجن نہ ہو تو کیا ہو گا؟ معیاری ادب لکھنے کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ وسیع ہو۔ پڑھنے کی عادت کو اپنائیے، سرہانے ہمیشہ دو سے تین کتابیں ہونی چاہئیں جو زیر مطالعہ رہیں۔ مگر افسوس آج ہمارا وقت اسکرین نے لے لیا ہے حالانکہ پہلے کتاب پھر اسکرین ٹائم ہونا چاہیے۔
اس موقع پر ادبِ اطفال پہ بھی گفتگو کی گئی راحت عائشہ نے اس حوالے سے بتایا کہ بچوں کا ادب بڑوں کے ادب سے یکسر مختلف ہے۔ عمر کے تعین کے بعد الگ الگ انداز میں لکھا جاتا ہے۔ کم عمر بچوں کے لیے آسان الفاظ اور مختصر جملے ہوں۔ قدرے بڑے بچوں کے لیے کہانی ایسی ہو کہ جس میں شروع سے آخر تک دل چسپی کا عنصر شامل رہے، نصیحت غیر محسوس پیرائے میں ہو۔ بچوں کی کہانی کا اختتام کرنا بہت ضروری ہے۔ لکھنے سے پہلے بچوں کے مسائل کے بارے میں سوچیں پھر طبع آزمائی کریں۔
نزہت سمن صاحبہ نے شرکا کو اچھی تحریر کے گُر بتاتے ہوئے کہا کہ اچھی تحریر کے لیے اچھا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ہر تحریر میں آخر تک اصلاح کی گنجائش رہتی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے کے مطابق لکھیں۔
نزہت سمن نے اس نقطے پر بھی زور دیا کہ تحریر اشاعت سے قبل کسی ماہرِ قلم کار سے اصلاح بھی کروائی جائے ۔ اگر تحریر رد ہوجائے تو اس سے بھی نکھار آتا ہے۔ مطالعے کی اہمیت پہ زور ڈالا‘ ان کہنا تھا کہ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لیے اچھا ادب پڑھنا ضروری ہے۔ منجھے ہوئے رائٹرز کو پڑھ کر سمجھیں، پھر لکھیں۔ فوری لکھنے سے گریز کیجیے یہ سوچیں کہ تحریر اور اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے۔ تحریر میں اگر اصلاحی پہلو نہیں تو وہ بے کار ہے۔
تحریر کو قبول و رد کس بنیاد پر کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شفق رفیق کا کہنا تھا کہ بولڈ تحریریں شائع نہیں کی جاتیں، ایسی تحاریر بھی نہیں شائع ہوتیں جو بیک وقت دیگر رسائل و جرائد میں ارسال کردی جاتی ہیں۔ تحریریں میرٹ پر ہی منتخب ہوتی ہیں اور وقت آنے پر شائع کی جاتی ہے۔ شفق رفیق نے مزید کہا کہ تحریر شائع ہو جانے کے بعد بھی قلم کار کا کام ختم نہیں ہوتا ، شائع شدہ تحریر کو بھی بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ کن تبدیلیوں کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئی، اس طرح تحریر مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ کوشش کریں کہ جو کہنا ہے وہ واضح اور مکمل ہو۔
ماہ نامہ پاکیزہ کی مدیرہ نزہت اصغر نے مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے ایک خاتون کی جو ذمے داری ہے وہ خود بھی سیکھیں اور آگے آنے والوں کو بھی سکھائیں۔ یہی معیار کی جیت ہے کہ تحریرمیں اصلاحی پہلو ہو، اخلاقیات کا خیال رکھا جائے۔ مرکزی خیال خوب صورت، مطالعہ وسیع اور مشاہدہ مضبوط ہو۔ ہر موضوع پر پڑھیں۔ محاوروں کا درست استعمال کریں‘ سوچ اور ماحول واضح ہو۔
نائب مدیرہ ، آمنہ حماد نے تجربہ بیان کیا کہ مطالعے کی عادت ہوتی ہے تو تحریر دیکھ کر پتا چلتا ہے۔ عموماً کچھ کلاسک ادب اور کچھ اِدھر اُدھر سے پڑھ لیا جاتا ہے اور دوسروں کی تحریر ملا جلا کر اپنے نام کرلینا عام ہے‘ جسے ادبی اصطلاح میں ’’ادبی سرقہ‘‘ کہا حاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاپی پیسٹ کرنے والا قلم کار نہیں ہو سکتا۔
مذاکرہ اختتام کی جانب گامزن تھا۔ آخر میں غزالہ عزیز نے کہا کہ اپنی لکھی ہوئی تحریر کو کم از کم تین بار ضرور پڑھیں۔ مطالعے کے لیے الطاف فاطمہ، ممتاز مفتی، سلمی یاسمین نجمی جیسے رائٹرز کو ضرور پڑھیں۔
تحریر کی اشاعت کے بارے میں کافی گفتگو ہوئی ۔ تمام مدیرات اس نقطے پہ متفق نظر آئیں کہ قلم کار کا رویہ بہت اہم ہے۔ تحریر بھیجنے کے بعد صبر سے کام لیں۔ جلد بازی سوائے نقصان کے کچھ نہیں۔ مدیر کو بار بار فون کر کے اپنی تحریر کے بارے میں پوچھنا درست نہیں، آہستہ آہستہ چلیں۔ اگر تحریر معیاری اور رسالے کے مزاج کے مطابق ہے تو اپنی جگہ خود بناتی ہے۔تحاریر بالخصوص افسانوں میں مشکل ناموں اور انگریزی زبان کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔
مذاکرے کے بعد حریم ادب کراچی کے تحت مقابلہ افسانہ و مضمون نگاری اور تقریب اسناد بھی ہوئی جس کی مہمان خصوصی حریم ادب پاکستان عالیہ شمیم تھیں۔ انعام یافتگان کو تحائف سے نوازا گیا۔ عالیہ شمیم کا مختصر خطاب میں کہنا تھا کہ حریم ادب کا پودا بارآور ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے قلم کاروں کو سیکھنے، مشاہدہ اور جذب کرنے کی عادت کی تلقین کی۔
آخر میں لذت کام و دہن کے ساتھ ہی تمام معزز مہمانوں کو تحائف اور گل دستے پیش کیے گئے۔ نگران حریم ادب کراچی عشرت زاہد کی مختصر دعا کے ساتھ یادگار شام لکھاریوں کے دامن میں ڈھیروں اصلاحی اور تربیتی نکات ڈال کر رخصت ہوئی۔