قیصروکسریٰ قسط(54)

263

’’تم کہاں جارہے ہو؟‘‘ حابس نے سوال کیا۔
’’میں کہیں شراب تلاش کرنے جارہا ہوں۔ آپ کے مشکیزے سے چند گھونٹ پینے کے بعد میری پیاس میں اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر خیمے سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر پڑائو میں گھومنے کے بعد وہ سین کے خیمے میں داخل ہوا۔ سین بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اُس نے جلدی سے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے متعلق ہی سوچ رہا تھا۔ میں ابھی شہنشاہ سے مل کر آیا ہوں۔ میں نے اُن سے تمہاری کارگزاری کا ذکر کیا تھا وہ بہت خوش تھے، آج اُن کے سامنے میرے بعض دوستوں نے بھی تمہاری تعریف کی تھی۔ تم اُن خوش قسمت نوجوانوں میں سے ہو جنہیں انعام کے قابل سمجھا گیا ہے۔ اب تمہیں دوچار دن کے اندر اندر شہنشاہ کی قدم بوسی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں شراب کے چند گھونٹ پینا چاہتا ہوں‘‘۔
سین نے متعجب ہو کر عاصم کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’وہ صراحی بھری ہوئی ہے۔ جتنی چاہو پی سکتے ہو۔ قسم توڑنے کے لیے اس سے بہترین موقع کون سا ہوسکتا ہے؟‘‘۔
عاصم نے سین کے سامنے بیٹھ کر پاس ہی سونے کی صراحی سے ایک پیالہ بھرا اور اُسے ایک ہی سانس میں پی گیا۔ جب وہ دوسری بار پیالہ بھرنے لگا تو سین نے کہا۔ ’’عاصم! یہ شراب بہت تیز ہے اور تم مدت کے بعد پی رہے ہو‘‘۔
’’میں مدہوش ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر آن کی آن میں دوسرا پیالہ بھی خالی کردیا۔ سین اب قدرے مضطرب ہو کر اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عاصم نے تیسری بار صراحی اُٹھانے کی کوشش کی توسین نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں۔ نہیں۔ تم اتنی شراب برداشت نہیں کرسکو گے‘‘۔
’’بہت اچھا‘‘۔ عاصم نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’تمہاری ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم اِس سے پہلے بھی پی چکے ہو‘‘۔
’’حابس کے مشکیزے میں صرف چند گھونٹ تھے ورنہ میں آپ کو پریشان نہ کرتا‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا لیکن چند قدم اُٹھانے کے بعد گرپڑا۔
سین نے تالی بجائی اور دو پہریدار بھاگتے ہوئے خیمے کے اندر داخل ہوئے۔ سین نے کہا۔ ’’اسے اُٹھاکر اس کے خیمے میں لے جائو۔ لیکن نہیں اسے یہیں ایک طرف لٹادو‘‘۔ پہریداروں نے حکم کی تعمیل کی اور سین انہیں رخصت کرکے عاصم کے قریب بیٹھ گیا۔
وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بڑبڑا رہا تھا۔ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں بے ہوش نہیں ہوں، اگر یروشلم کی گلیوں کا خون شراب بن جاتا اور میں اُس کے اندر غوطے لگاتا تو بھی میں مدہوش نہ ہوتا‘‘۔
اگلے دن عاصم گہری نیند سے بیدار ہوا تو سین وہاں نہ تھا۔ وہ اُٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا خیمے سے باہر نکلا اور پہریدار نے ادب سے اُسے سلام کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بہت دیر سوئے ہیں۔ آقا کا حکم تھا کہ آپ کو بیدار نہ کیا جائے‘‘۔
’’وہ کہاں ہیں؟‘‘۔
’’وہ علی الصباح شہر چلے گئے تھے۔ اگر حکم ہو تو آپ کے لیے کھانا منگوالیا جائے‘‘۔
’’نہیں! اس وقت مجھے بھوک نہیں۔ میں ذرا گھومنے پھرنے جارہا ہوں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر ایک طرف چل دیا۔
O
یروشلم میں تین دن قتل عام جاری رہا۔ اور تیسرے دن شہر میں بکھری ہوئی نوے ہزار لاشوں کے تعفن نے فاتح لشکر کو پڑائو میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ اس عرصے میں مال غنیمت کے علاوہ ہزاروں قیدی عورتیں جنہیں غلام بنانے کے قابل سمجھا گیا تھا پڑائو میں منتقل کی جاچکی تھیں۔
اس کے بعد ایک ہفتہ فتح کا جشن منایا گیا، سرکردہ یہودی نذرانے پیش کرنے اور ایرانی اور عرب قبائل کے جانباز اپنی کارگزاری کے انعامات حاصل کرنے باری باری کسریٰ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ عاصم کا نام ایک خوبصورت تلوار تھی جس کا دستہ قیمتی جواہرات سے مرصع تھا۔
جشن کے اختتام پر جنگی قیدیوں اور مالِ غنیمت سے لدے ہوئے اونٹوں کا ایک قافلہ مسلح دستوں کی حفاظت میں ایران کی طرف روانہ کردیا گیا۔ اور باقی لشکر نئے محاذوں کی طرف کوچ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ وہ طوفان، جس کی شدت نے عاصم کو نڈھال کردیا تھا، گزر چکا تھا اور اُس کی طبیعت آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔ ایک رات وہ حابس کے خیمے میں چند عرب سرداروں کے درمیان بیٹھا تھا۔ یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے مشہور شعرا کا کلام سنا رہے تھے۔ ایک ایرانی نوجوان خیمے میں داخل ہوا اور اُس نے عاصم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’سین آپ کو بلاتے ہیں‘‘۔
عاصم اُٹھ کے ساتھ چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سین کے خیمے میں داخل ہوا۔
سین نے اُسے اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! میں نے تمہیں ایک اہم خبر سنانے کے لیے بلایا ہے مجھے ایشیائے کوچک کے محاذ پر بھیجا جارہا ہے‘‘۔
’’ہم کب جارہے ہیں؟‘‘ عاصم نے سوال کیا۔
’’میں پرسوں روانہ ہوجائوں گا لیکن تم میرے ساتھ نہیں جائو گے۔ اب کچھ عرصے کے لیے ہمارے راستے ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے‘‘۔ عاصم کا دل بیٹھ گیا اور کوشش کے باوجود اُس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ سین نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں موجودہ حالات میں تمہارے لیے مصر کی طرف پیش قدمی کرنے والے لشکر کے ساتھ رہنا زیادہ سود مند ہے۔ آج شہنشاہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تھا کہ عرب قبائل کے رضا کار عام طور پر فوجی ضبط و نظم کی پروا نہیں کرتے۔ وہ جس قدر بہادر ہیں اُسی قدر خود سر بھی ہیں اور افریقہ میں ہمیں ایسے حالات پیش آسکتے ہیں جن میں اُن لوگوں کو قابو رکھنے کے لیے کسی ہوشیار اور معاملہ فہم آدمی کی ضرورت پڑے۔ مہران جسے افریقہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کی قیادت سونپی گئی ہے۔ تمہیں اپنے ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ مجھے یثرب کے اِس نوجوان کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا جسے عرب رئوسا متفقہ طور پر اپنا سالار تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اُن کے درمیان اگر کوئی اختلافات پیدا ہوں تو تمہاری آواز فوج کے ایرانی عہدہ داروں سے زیادہ موثر ثابت ہوسکے گی۔

عاصم! مجھے یقین ہے کہ اب تمہیں اپنے جوہر دکھانے کے بہترین مواقعے ملیں گے۔ اگر میں تمہیں ساتھ لے جائوں تو ایشیائے کوچک میں تمہیں صرف ایرانی عہدہ داروں یا اُن ترک قبائل کے سرداروں سے سابقہ پڑے گا جو ہمارے حلیف ہیں لیکن یہ لوگ تمہاری سپاہیانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے تمہارے حاسد بن جائیں گے۔ تم وہاں ایک اجنبی سمجھے جائو گے لیکن افریقہ کے محاذ پر لڑنے والے عربوں کے رہنما بن کر تم ایرانیوں سے بھی خراج تحسین حاصل کرسکو گے۔ کم از کم ہمارے جرنیلوں میں تمہیں کوئی اپنا رقیب خیال نہیں کرے گا۔
صبح مہران عرب رئوسا کو بلا کر یہ کہے گا کہ تمہیں متفق ہو کر کسی ایک کو اپنا سالار اعلیٰ بنالینا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ جب وہ کسی غیر جانبدار عرب کو تلاش کریں گے تو اُن کی نگاہیں لامحالہ تمہی پر مرکوز ہوں گی۔ اس کے بعد تمہیں میرے سہارے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ عزت شہرت اور کامیابی کا کوئی راستہ نہ ہوگا جسے تم اپنی تلوار کی نوک سے نہیں کھول سکو گے‘‘۔
عاصم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’لیکن مجھے شہرت اور کامیابی کی ضرورت نہیں۔ میں صرف آپ کی وجہ سے یہاں آیا تھا۔ اور حابس کے آدمیوں کی راہنمائی بھی میں نے صرف اِس لیے قبول کی تھی کہ آپ یہ چاہتے تھے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ہمارے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو میں گزشتہ جنگوں میں بہادری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بزدل کہلانا زیادہ پسند کرتا‘‘۔
’’عاصم! ہمارے راستے ہمیشہ کے لیے جُدا نہیں ہوئے، مجھے یقین ہے کہ میں کسی دن قسطنطنیہ کے آس پاس تمہارا استقبال کروں گا۔ اور اس وقت جب تم افریقہ سے فتح کے پرچم اڑاتے،میرے پاس آئو گے تو تمہیں یہ شکایت نہ ہوگی کہ میں نے تمہیں کوئی غلط راستہ بتایا تھا۔ میں کسی دن تمہیں کسریٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھنے الوں کی صف میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب تم جا کر آرام کرو‘‘۔
عاصم کچھ کہے بغیر اُٹھا اور خیمے سے باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ تنہا اپنے خیمے میں لیٹا ہوا تھا اور طرح طرح کے خیالات اُسے پریشان کررہے تھے‘‘۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ سین مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو؟۔
کاش! میں اسے یہ سمجھا سکتا کہ مجھے کسریٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھنے کی تمنا نہیں۔ گر تم یہاں نہ ہوتے تو مجھے روم اور ایران کی جنگوں سے کوئی سروکار نہ ہوتا۔ اس ویرانے میں مجھے اپنے لیے کسی راستے یا منزل کی تلاش نہ تھی۔ مجھے صرف تمہاری رفاقت کی ضرورت تھی۔ لیکن یہ سب ایک خود فریبی تھی، میں سین کے اشارے پر جان دے سکتا ہوں، لیکن اُس کا رفیق یا دوست نہیں بن سکتا۔ میں یہ سوچا کرتا تھا کہ جب جنگ ختم ہوجائے گی تو میں سین کے ساتھ دمشق جائوں گا۔ اور فسطینہ دلفریب مسکراہٹوں کے ساتھ میرا استقبال کرے گی لیکن اب شاید میں اُسے دوبارہ دیکھ بھی نہ سکوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں افریقہ کے محاذ سے زندہ واپس نہ آئوں۔ پھر چند سال بعد شاید اُسے میرا نام بھی یاد نہ رہے جب وہ بڑی ہوجائے گی تو وہ حادثات جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آئے تھے اُسے ایک خواب محسوس ہوں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں کسی دن اُس کے پاس جائوں اور اُسے یہ کہتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس ہو کہ میں اسے جانتی ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سین اپنی بیٹی کے مستقبل کے متعلق سوچتے ہوئے یہ ضروری سمجھتا ہو کہ ہمارے راستے آج ہی ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔ جب وہ میرے متعلق پوچھے گی تو وہ یہ کہے گا: بیٹی! اب تمہیں اُس کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہم میں سے نہیں تھا۔
اُس نے تمہارے ساتھ ایک نیکی کی تھی اور میں اُس کا بدلہ دے چکا ہوں اب وہ اس قابل ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکے۔‘‘ پھر وہ ایک ڈوبتے ہوئے انسان کی طرح تنکوں کا سہارا لینے کی کوشش کررہا تھا۔ ’’کیا یہ ممکن نہیں کہ جب میں افریقہ کے محاذ پر سین کی بلند ترین توقعات پوری کرنے کے بعد واپس آئوں تو اُس کے گھر کا دروازہ میرے لیے کھلا ہو۔ اور جب میں فسطینہ سے یہ کہوں کہ میری جنگیں، میری فتوحات اور کامیابیاں سب تمہارے لیے تھیں تو وہ شرم و ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے فخر سے سراٹھا کر میری طرف دیکھے‘‘۔
دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد عاسم کو نیند آگئی۔
تیسرے روز علی الصباح دس ہزار سوار ایشیائے کوچک کی طرف کوچ کرنے کو تیار کھڑے تھے۔ سین اپنے خیمے سے نکلا اور اُس کے دوست، جو اُسے الوداع کہنے کے لیے باہر جمع تھے، یکے بعد دیگرے اُس سے مصافحہ کرنے لگے۔ جب عاصم کی باری آئی تو اُس نے مصافحہ کرنے کے بجائے دونوں ہاتھ اُس کے کندھوں پر رکھ دیے اور کہا۔ ’’میں رستے میں دو دن کے لیے ٹھہروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ فسطینہ کا پہلا سوال تمہارے متعلق ہوگا۔ تم اُسے کوئی پیغام دینا چاہتے ہو؟‘‘۔
عاصم کے ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا۔ ’’میں اُسے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میں کسریٰ کا سپاہی بن چکا ہوں اور اب مجھے کسی کی چیخیں پریشان نہیں کرتیں‘‘۔
سین نے اچانک گفتگو کا موضوع بدلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر حالات نے اجازت دی تو ممکن ہے کہ میں کچھ عرصہ تک فسطینہ اور اُس کی والدہ کو اپنے پاس بلالوں ورنہ انہیں مدائن بھجوانے کا انتظام کرنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے کہ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد تم ہمیں تلاش کرسکو گے۔ میں خود بھی تمہارے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کروں گا۔ یہ بھی ممکن ہے مصر کی مہم جلد ختم ہوجائے اور میں تمہیں ایشیائے کوچک کے محاذ پر بلالوں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ