قیصرو کسریٰ قسط(53)

368

میں اُس سے تمہادی عداوت کی وجہ نہیں سمجھ سکا تاہم تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ عاصم اب تمہارے ماتحت نہیں رہے گا اور اُس کا طرزِ عمل ان افسروں کو پریشان نہیں کرے گا، جو اپنے سپاہیوں میں عزت نفس کے معمولی احساس کو بھی نظم و ضبط کے تقاضوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ حابس اپنے قبیلے کے جانبازوں کی قیادت کے لیے اُس کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب تک میں تذبذب میں تھا، میرا خیال تھا کہ میں واپس جا کر کسی اہم عہدے کے لیے شہنشاہ سے اُس کی سفارش کروں گا لیکن اُسے میری سرپرستی کی ضرورت نہیں، آئندہ اگر میرے کسی افسر کو عاصم کے خلاف کوئی شکایت ہو تو اُسے حابس کے پاس جانا چاہیے، میں اُسے ایرانی نہیں بنا سکتا لیکن میں وہ دن دیکھ رہا ہوں، جب تم لوگ اُس سے مصافحہ کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرو گے‘‘۔
ایرج نے کھسیانا ہو کر کہا۔ ’’جناب! میں اُس کا دشمن نہیں بلکہ اُس کی جرأت و ہمت کا معترف ہوں میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اُسے ذرا احتیاط سے کام لینا چاہیے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’ایرج! جائو، اب آرام کرو۔ عاصم کو تمہارے مشوروں کی ضرورت نہیں۔ اُس کی دنیا تمہاری دنیا سے مختلف ہے‘‘۔
ایرج انتہائی پریشانی کی حالت میں خیمے سے باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد اپنے خیمے سے کچھ فاصلے پر اُسے عاصم اور اُس کے ساتھیوں کے قہقہے سنائی دے رہے تھے اور وہ ایسا محسوس کررہا تھا جیسے وہ لوگ اُس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
پرویز کا لشکریروشلم کا محاصرہ کرچکا تھا۔ چاروں طرف سے رسدوکمک کے راستے بند ہوچکے تھے تاہم شہرکے محافظ جس عزم و ثبات کا مظاہرہ کررہے تھے وہ اِس سے قبل شام کے کسی اور شہر میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ گرجوں اور خانقاہوں میں دعائیں مانگی جارہی تھیں، فدا رسیدہ راہبوں کی ہڈیوں سے برکات حاصل کی جارہی تھیں اور معجزات کا انتظار ہورہا تھا۔ فریقین کے منجنیق ایک دوسرے پر پتھر برسارہے تھے۔ ایرانیوں نے کئی بار دبابوں اور سیڑھیوں کی مدد سے فصیل پر حملہ کیا لیکن اوپر سے پتھروں، آتشیں تیروں اور کھولتے ہوئے تیل کے آگے اُن کی پیش نہ گئی۔ یروشلم کے محاذ پر پرویز کی موجودگی اُن کے حوصلے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔ ہر دستے کا سالار اور ہر قبیلے کا سردار شہنشاہِ ایران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بیتاب نظر آتا تھا۔
فرزندان صلیب کے لیے یروشلم کی حفاظت موت و حیات کا مسئلہ بن چکا تھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ شکست کی صورت میں انہیں مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن رسد و کمک کے تمام راستے مسدود ہوجانے سے اُن کے حوصلے بتدریج پست ہورہے تھے۔ پھر ایک دن ایرانی فوجیں پوری قوت کے ساتھ چاروں طرف سے یروشلم پر ٹوٹ پڑیں اور انہوں نے فصیل کے ایک حصے پر قبضہ جمانے کے بعد وہ آہنی دروازہ کھول دیا جو ہلاکت و بربادی کے ایک سیل عظیم کو روکے ہوئے تھا۔ تھوڑی دیر بعد فصیل کے ہر بُرج پر صلیب کے جھنڈے سرنگوں ہوچکے تھے اور ایرانی فوجیں مختلف دروازوں سے شہر کے اندر داخل ہورہی تھیں۔ وحشت اور بربریت کے عفریت انسانیت کے وجود سے تہذیب و اخلاق کا پیرہن نوچ رہے تھے۔ یہودی رضا کار جنہیں مدت کے بعد اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کا موقع ملا تھا، لوگوں کے گھروں، گرجوں اور خانقاہوں میں داخل ہوگئے تھے۔ یعقوبی اور فسطوری فرقوں کے عیسائی جو کلیسا کے باغی خیال کیے جاتے تھے۔ اب ایرانیوں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر اُن راہبوں اور پادریوں سے صدیوں کے مظالم کا انتقام لے رہے تھے جن کی قبائیں کبھی ان کے خون سے داغدار تھیں۔ یروشلم میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ گلیوں اور بازاروں میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ اُن مقدس گرجوں اور خانقاہوں کو لوٹنے کے بعد مسمار کیا جارہا تھا جہاں صدیوں سے مشرق و مغرب کی دولت جمع ہورہی تھی۔ راہب اور پادری انہی آہنی شکنجوں میں کسے جارہے تھے جنہیں وہ بدعقیدہ لوگوں کی اصلاح کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ یروشلم میں دین مسیحؑ کا سب سے بڑا پیشوا ذکریا گرفتار ہوچکا تھا۔ وہ مقدس صلیب جس پر عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیؑ نے جان دی تھی مجوسیوں کے قبضے میں آچکی تھی۔
O
یروشلم فتح ہونے تک عاصم صرف ایک سپاہی کے ذہن سے سوچتا تھا۔ محاصرے کے دوران میں وہ اپنی غیر معمولی جرأت کے باعث ایران کے سورمائوں سے خراج تحسین حاصل کرچکا تھا۔ آخری حلے کے وقت وہ اُن جانبازوں کے ساتھ تھا جنہیں سب سے پہلے فصیل کے ایک حصے پر قبضہ کرنے میں کامیابی ہوئی تھی۔ لیکن اب وہ معرکہ جس میں اُس کے سپاہیانہ جوہر پوری طرح بیدار تھے ختم ہوچکا تھا اور ہار ماننے ولے انسانوں کی مطلومیت اور بے بسی اُسے پریشان کررہی تھی۔
شہر میں داخل ہونے کے بعد فاتح لشکر کے سپاہی بے بس انسانوں کے ساتھ وہی سلوک کررہے تھے جو عرب کے وحشی قبائل اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن عاصم کا دل انتقام کے جذبات سے خالی تھا اور وہ اپنے ساتھیوں کی ترغیب کے باوجود وحشت و بربریت کے گھنائونے کھیل میں حصہ لینے کے لیے تیار نہ ہوا۔
قتل عام کی پہلی رات وہ چند گھنٹے شہر کی گلیوں اور بازاروں میں پھرتا رہا۔ اور پھر آدھی رات کے قریب جب اُس کی قوتِ برداشت جواب دینے لگی تو شہر کے ایک دروازے سے باہر نکلا اور پڑائو کی طرف چل دیا۔
راستے میں اُسے اُن سپاہیوں کی ٹولیاں دکھائی دیں جو چیختی چلاتی عورتوں کو گھروں سے نکال کر پڑائو کی طرف ہانک رہے تھے۔ عاصم کو یہ چیخیں تلواروں کی جھنکار سے زیادہ خوفناک محسوس ہورہی تھیں۔ پڑائو میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا اپنے خیمے کی طرف بڑھا، چند آدمی جو عرب رضا کاروں کے خیموں اور گھوڑوں کی حفاظت پر متعین تھے اُس کے گرد جمع ہوگئے۔ یہ لوگ کبھی اپنے ساتھیوں کے متعلق پوچھتے اور کبھی عاصم کے خالی ہاتھ واپس آنے پر حیرت کا اظہار کرتے۔ عاصم کا کوئی جواب انہیں مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ اچانک پاس ہی ایک خیمے سے حابس کی آواز سنائی دی۔ ’’عاصم آگیا ہے؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔ ایک سپاہی نے جواب دیا۔
’’عاصم یہاں آئو‘‘، وہ بلند آواز میں چلایا۔
عاصم خیمے کے اندر داخل ہوا۔ وہاں ایک مشعل جل رہی تھی اور حابس ٹانگیں پھیلائے ایک چٹائی پر بیٹھا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’میں تمہارا انتظار کررہا تھا۔ لخمی اور تمیمی رئیس اپنے خیموں میں دادِ عیش دے رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے فراموش کردیا ہے۔ کم از کم شراب کا ایک مشکیزہ ہی تم نے بھیج دیا ہوتا میں نے آج اُن سے مانگ کر پی ہے۔ وہ سب تمہاری بہادری کی تعریف کرتے تھے۔ اور مجھے یقین تھا کہ تم میرے لیے بہترین تحائف لائو گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں آپ کے لیے یروشلم کی فتح کی خوشخبری کے سوا اور کچھ نہیں لایا‘‘۔
حابس چند ثانیے حیرت زدہ ہو کر عاصم کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’تم مذاق کررہے ہو۔ میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ تم یروشلم کی فتح کے بعد خالی ہاتھ واپس آئے ہو‘‘۔
’’میں مذاق نہیں کرتا۔ فتح کے بعد وہاں خون، آنسوئوں اور چیخوں کے سوا کچھ نہ تھا‘‘۔
’میرے آدمی کہاں ہیں؟ کیا وہ بھی تمہاری طرح خالی ہاتھ واپس آگئے ہیں؟‘‘۔
’’نہیں! وہ ابھی تک وہیں ہیں اور جب وہ واپس آئیں گے تو آپ کو یہ شکایت نہیں رہے گی کہ وہ درندگی کا مظاہرہ کرنے میں کسی سے پیچھے رہ گئے ہیں، لشکر کے شہر میں داخل ہوتے ہی وہ میرے حکم سے آزاد ہوگئے تھے‘‘۔
’’تم میرے لیے ایک معّما ہو۔ کبھی کبھی مجھے تہارے عرب ہونے پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔ بیٹھ جائو! تمہیں اس وقت شراب کی ضرورت ہے۔ اور میرے مشکیزے میں ابھی چند گھونٹ باقی ہیں یہ لو‘‘۔
حابس نے یہ کہہ کر چھوٹا سا مشکیزہ اُٹھایا اور عاصم کو پیش کردیا۔ عاصم کچھ دیر تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا پھر اُس نے ایک گہری سانس لی اور مشکیزہ پکڑ کر حابس کے قریب بیٹھ گیا۔ تھوری دیر بعد جب وہ مشکیزہ خالی کرکے ایک طرف پھینک چکا تھا تو حابس نے کہا۔ ’’سین کہتا تھا کہ تم شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے لیکن میں یہ محسوس کیا کرتا تھا کہ تم صرف ایک سالار کی ذمہ داریوںکا لحاظ کرتے ہوئے احتیاط برتتے ہو۔ آج میرا خیال تھا کہ تم یروشلم کے کسی عالیشان مکان پر قابض ہوگئے۔ تمہارے سامنے شراب کے مٹکے کھلے ہوں گے اور تمہارے پہلو میں وہ دوشیزائیں ہوں گی جن کے جسم دودھ کی طرح سفید ہوتے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’سین درست کہتا تھا، میں نے مدت کے بعد شراب کو ہاتھ لگایا ہے۔ جب میں گھر سے نکلا تھا تو میں نے باقی زندگی شراب نہ پینے کا عہد کیا تھا پھر جب میں شام کی حدود میں داخل ہوا تو میں نے یہ عہد کیا تھا کہ تلوار کو بھی ہاتھ نہیں لگائوں گا لیکن میری تمام قسمیں ٹوٹ چکی ہیں اب مجھے اپنی کسی بات پر یقین نہیں رہا‘‘۔
حابس نے کہا۔ ’’تم تنہائی محسوس کررہے ہو اور تمہارا علاج یہ ہے کہ تمہیں دوبارہ شہر میں بھیج دیا جائے وہاں ایسی عورتوں کی کمی نہیں جنہیں دیکھ کر تم ماضی کی تلخیاں بھول جائو‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں وہاں بے شمار لاشیں دیکھ آیا ہوں، اُن سب کا خون سمیرا کی طرح سُرخ تھا۔ اور جو زندہ تھیں اُن کی آہیں اور چیخیں مجھے سمیرا کی آہیں اور چیخیں محسوس ہوتی تھیں۔ کاش! شراب کا نشہ ماضی اور حال کی تمام تلخیوں کو میرے ذہن سے فراموش کرسکتا‘‘۔
حابس نے سوال کیا۔ ’’سمیرا کون تھی؟‘‘۔
عاصم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’آپ نے کسی ایسی لڑکی کو دیکھا ہے جس کے چہرے کی روشنی میں آپ کو اپنے بدترین دشمن دوست نظر آنے لگیں۔ جس کی مسکراہٹ آپ کی نفرت کو محبت سے بدل دے۔ جس کے ساتھ آپ کی وفاداری تمام خاندانی اور قبائلی وفاداریوں پر غالب آجائے۔ اور جس کی خاطر آپ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے بزدلی اور غداری کے طعنے سننا گوارا کرلیں‘‘۔
’’نہیں‘‘ حابس نے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’میری رگوں میں ایک عرب کا خون ہے اور کوئی عرب کسی ایسی لڑکی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جس کی محبت اُس کی خاندانی اور قبائلی عصبیت پر غالب آجائے‘‘۔
’’تو پھر میں آپ کو یہ نہیں سمجھا سکوں گا کہ سمیرا کون تھی اور یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آسکے گی کہ میں اِس وقت شہر سے کیوں بھاگ آیا ہوں‘‘۔
حابس نے کہا۔ ’’تم میرے لیے ایک معما ہو۔ لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر تمہیں فتح کی خوشی میں حصہ دار بننے سے نفرت ہے تو تم لڑائی میں کیوں شریک ہوئے تھے؟‘‘۔
’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔
’’لیکن مجھے معلوم ہے۔ میں نے پہلے دن تمہیں لڑائی کے میدان میں دیکھا تھا تو اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ نوجوان ایک عرب کی طرح لڑتا ہے۔ عاصم تم ایک عرب ہو اور مرنا اور مارنا تمہاری سرشت میں ہے تمہاری رگوں میں وہ خون ہے جس کی گردش تلواروں کی روانی سے تیز ہوتی ہے۔ جنگ کے ہنگاموں کے بعد ایک عارضی سکون بعض سپاہیوں کو پریشان کردیتا ہے لیکن تم بہت جلد ان باتوں کے عادی ہوجائو گے۔ آج تم عام لوگوں سے ممتاز رہنے کے شوق میں دشمن کے نیزوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہو، کل تم پرویز کے جرنیلوں پر اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے اِس سے زیادہ جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرو گے۔ ہمارا لشکر یروشلم جیسے کئی اور شہروں پر اپنے جھنڈے نصب کرے گا۔ میں نے یروشلم کے بعد پہلی مرتبہ تمہیں شراب پیتے دیکھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ کسی اور شہر کی فتح کے بعد تمہارے پہلو میں کوئی حسین و جمیل لڑکی بھی دیکھ لوں گا‘‘۔
’’مجھے معلوم نہیں کہ کل میرے احساسات کیا ہوں گے لیکن آج میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں مدہوش ہوجائوں اور اُس وقت تک کسی گوشے میں پڑا رہوں جب تک کوئی مجھے یہ پیغام نہ دے کہ وہ جنگ جس کی ہولناکیوں نے تمہیں شراب سے مدہوش ہونے پر مجبور کردیا تھا، ختم ہوچکی ہے اور اب اس زمین کو بے بس انسانوں کے خون اور آنسوئوں سے سیراب کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب طاقتوروں کے ہاتھ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر نہیں اٹھیں گے‘‘۔ عاصم یہ کہہ کھڑا ہوگیا۔
(جاری ہے)

حصہ