پہلا سفر
خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور با رونق تھے۔ شہر میں امیر اور غریب، بہادر اور شہہ سوار، عالم اور فاضل، ہنرمنداور کاریگر ہر طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہر روز دور دراز سے کئی قافلے آتے اور کئی کارواں کوچ کرتے۔ صبح سے شام تک ہر بازار اور ہر منڈی میں میلے کا سا سماں نظر آتا تھا۔
اس شان دار شہر کے ایک خوبصورت مکان میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ اس کا نام تھا سندباد جہازی۔ وہ بڑا مہمان نواز، سخی اور دوستوں کا دوست تھا۔ وہ زندگی کے سرد گرم جھیل چکا تھا۔ گرمی کے موسم میں ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے باغ میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میدان مارنے، سخت مشکلات کو سر کرنے اور مہم جیتنے کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا، “دوستو! میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہر طرح کے مال و متاع سے نوازا ہے، لیکن میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں بھی غریب و نادار تھا۔ میری زندگی خوشیوں سے خالی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی منزل میں قدم رکھا تھا۔ میرے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔ وقت مشکل سے گزرتا تھا۔ ایک دن جب کہ میں بہت تنگ دست تھا میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے شیخ چلّی کی طرح خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے اپنا مکان اور گھر کا سارا سامان بیچ دیا۔ مجھے کل تین ہزار درہم ملے۔ اس رقم سے میں نے تجارت کا سامان خریدا۔ اسے بصرہ لے گیا۔ جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں کو مال تجارت لے کر جاتے تھے۔
بصرہ میں جا کر میں نے معلوم کیا کہ کون سا جہاز سفر کے لیے تیار ہے۔ ایک عرب جہاز کے کپتان سے میں نے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ چھے تاجر اپنا مال تجارت اس کے جہاز پر لے جا رہے ہیں۔ یہ جہاز مشرقی جزیروں کو جائے گا۔ تاجر وہاں اپنا مال بیچ کر ہیرے اور جواہرات خرید کر پھر اسی جہاز سے بصرہ واپس آئیں گے۔ میں نے بھی اسی جہاز پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاملہ طے ہو گیا اور میں نے بھی اپنا اسباب اس میں لاد دیا۔
اگلے ہفتے جہاز کا لنگر اٹھا اور ہم دعائیں مانگتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جہاز نے مشرق کا رخ کیا۔ ہم کھلے سمندر میں سفر کرنے لگے۔ کئی دن اور کئی راتیں یونہی گزر گئیں۔ آخر ایک بندر گاہ آئی۔ ہم نے کچھ سامان اور خریدا اور آگے چل پڑے۔ اس طرح ایک دو اور بندرگاہیں آئیں اور مزید خرید و فروخت ہوئی۔
ایک دن ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچے۔ بحری سفر میں چند باتیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو وقفے وقفے سے پینے کا پانی ملتا رہے۔ دوسرے ہوا موافق ہو اور تیسرے یہ کہ الله تعالی طوفان سے بچائے رکھے۔ جہاز کے کپتان نے کہا، “حیرت ہے۔ یہ جزیرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھاس پھوس بتاتی ہے کہ یہاں تازہ پانی بھی ہو گا۔ چنانچہ وہ جہاز کو ساحل کے قریب لے گیا۔ ہم میں سے کئی آدمی برتن لے کر اترے کہ پانی تلاش کریں۔ کچھ محض سیر کے لیے اترے۔ انہی کے ساتھ میں بھی کنارے پر گیا۔ سوچا کہ ذرا آگے جا کر جزیرے کی زمین دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا اپنے ساتھیوں سے کچھ دور چلا گیا۔
(جاری ہے)