امیروں کے مالک یہ غریب لوگ

451

حانیہ: (ماسی زینت سے) ’’زینت کپڑے سلوا لیے عید کے لیے۔‘‘
زینت (خوشی سے): ’’نہیں باجی ابھی نہیں سلوائے‘ چار باجیوں نے مجھے جوڑے دیے ہیں‘ ایک آپ نے اور تین دوسری باجیوں نے بھی۔‘‘
حانیہ: ’’ماشاء اللہ… بھئی عید تو تمہاری زبردست ہوگی‘ اتنے سوٹ تو میں نے بھی نہیں سلوائے (ہنستے ہوئے)‘‘
زینت: نہیں باجی! چاروں میں اپنے لیے تھوڑی سلوائوں گی۔ ایک جوڑا میں نے اپنی ساس کو دیا‘ ایک ہماری رشتے دار جو بہت غریب ہے‘ پنجاب سے آئی ہے‘ اس کو میں نے تحفہ ے دیا‘ اس بے چاری کے حالات بہت خراب ہیں۔‘‘
میں سامنے کام کرتی اس تیس‘ بتیس سالہ کام والی کی بات سن کر چونک پڑی۔ کتنا بڑا دل ہے اس خاتون کا۔ غریب تو یہ خود بھی ہے لیکن دن کی امیر ہے۔
…٭…
نعیمہ (ماسی کام والی): ’’سلام باجی! یہ میں……‘‘
مسز رحمن نے سوالیہ نظروںسے ماسی اور اس کے ساتھ دوسری عورت کو دیکھا۔
ماسی: ’’باجی اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میرے بجائے آپ میری اس خالہ کو اپنے گھر میں کام پر لگا سکتی ہیں۔‘‘
مسز رحمن: ’’کیوں بھئی تم پنجاب جا رہی ہو کیا؟‘‘
ماسی نعیمہ: ’’نہیں باجی! وہ اصل میں یہ میری رشتے دار ہیں یہ پنجاب سے کام کے لیے آئی ہے‘ اس بے چاری کے شوہر کی طبیعت بھی بہت خراب ہے‘ چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ اس کو اگر آپ کام پر لگا دیں…‘‘
مسز رحمن: (ماسی کو نیچے سے اوپر تک دیکھتے ہوئے) ’’اس کو کام کرنا آتا ہے؟‘‘
ماسی نعیمہ (ہچکچاتے ہوئے) وہ باجی یہ سیکھ جائے گی‘ میں ایسا کروں گی ایک ہفتے تک اس کے ساتھ آئوٗں گی‘ اس کو سکھا دوں گی‘ آپ پریشان نہ ہوں۔ اصل میں‘ میں اس کو دوسری باجی کے پاس لے کر گئی تھی لیکن اس نے کہا نہ بابا مجھے متھا نہیں کھپانا… باجی آپ اسے کام پر لگا دیں یہ آپ کو بالکل تنگ نہیں کرے گی۔ بڑی مہربانی ہوگی…میں اپنا ایک دوسرا کام بھی اسے لگوا دوں گی۔‘‘
مسز رحمن: ’’پھر تم کیا کرو گی‘ اپنی چار کاموں میںسے دو اسے دے دوگی اور ایک ایک ہفتہ اس کے ساتھ لگ کر کام بھی کروائو گی‘ اسے کام سکھائو گی اور تم…‘‘
ماسی نعیمہ: ’’باجی مجھے تو سارے قسم کے کام کرنے آتے ہیں‘ مجھے جلدی ہی کام مل جائے گا ویسے بھی کونے والے گھر والی باجی نے پچھلے ہفتے مجھے بلوایا تھا‘ وہاں مجھے تو ایک کام مل ہی جائے گا۔ بس اس کا بندوبست ہو جائے ابھی تو یہ میری اماں کے گھر ہی رہ رہی ہے لیکن باجی آپ کو تو معلوم ہے ہماری بستی میں ایک کمرے کا گھر بھی آٹھ ہزار مہینے سے کم میں نہیں ملتا۔ اماںکو بھی پریشانی ہو رہی ہے ابھی اس کو دو کام بھی مل جائے تو باقی کچھ رقم ہم سب ملا کر اس کو الگ کرایہ پر گھرلے کر دیں گے۔‘‘
مسز رحمن: ’’اور اس کے بچے؟ وہ کس کے پاس ہوں گے؟ بچے چھوٹے ہیں؟‘‘
ماسی نعیمہ: ’’جی باجی! چھوٹا والا ابھی دو سال کاہے… میرا ابا تو رات کو چوکیداری کرتا ہے یہ بچے میرے ابا کے پاس چھوڑ آئے گی… باجی! ہم سب بھی جب شروع میں آئے تھے تو اسی طرح ہمارے گائوں کے لوگ جو یہاں بہت عرصے سے رہ رہے تھے‘ ہماری مدد کی تھی‘ اللہ کا شکر ہے اب تو ہم یہاں ٹھیک ہیں۔
مسز رحمن جو خود بھی ایک حساس دل کی مالک تھیں‘ ماسی نعیمہ کی بات سے بہت متاثر ہوئیں کہ یہ غریب اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی ایثار سے کام لے رہی ہے کیا میں اس نیک کام میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتی۔ لہٰذا اس نے نئی ماسی کے لیے ہامی بھر لی جب کہ مسز رحمن اس محلے میں سب سے زیادہ معاوضہ اپنے کام والی کو دے رہی تھی‘ اس نے اس نئی ماسی کو بھی اتنی ہی اجرت دینے پر ہامی بھر لی۔
…٭…
یہ دو واقعات میرے سامنے پیش آئے‘ جہاں غربت و مفلسی کے باوجود بڑے خوب صورت انداز سے ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مدد کی گئی‘ بے شک یہ غریب ہیں لیکن ان کے دل امیر ہیں‘ ان کے دلوں میں دوسروں کے لیے احساس ہے۔ آج کی اس مادہ پرست معاشرے میں‘ جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے‘ وہاں میں ضرور یہ کہوں گی کہ ’’سب برا نہیں‘‘ کہیں کہیں اب بھی اچھائی نظر آگتی ہے جسے انداز نہیںکرنا چاہیے بلکہ اس سے کچھ اچھائی اپنے دامن میں بھی سمیٹنی چاہیے تاکہ آس پاس کے لوگوں کو بھی کچھ فائدہ ہو جائے اور انسان اپنے دامن میں خود کچھ نیکیاں سمیٹ لے۔ اسی سے حسن معاشرت تشکیل پاتا ہے۔ اللہ رب العزت اور اس کے نبیؐ نے بھی ہمیں یہی تعلیم پہنچائی ہے۔ رب العالمین نے حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے جس میں ہم میں سے اکثر و بیشتر لاپروائی برتتے ہیں‘ تجوریاں بھری ہوتی ہیں لیکن اس میں سے دوسروں کا حصہ نکالنا انہیں مشکل لگتا ہے۔ ایثار تو بعد کی بات ہے‘ کتنے لوگ ہمارے آس پاس ہیں جو ایثار جیسے نایاب موتی سے آراستہ ہیں… بہت کم… اور ان میں سے بھی کچھ لوگ تو ایسے بھی ہوں گے جواحساس جتا کر اپنی اس نیکی کو برباد بھی کر رہے ہوںگے۔ جی ہاں برباد کیوں کہ ایثار کرکے یا احسان کرکے اس کو جتانا اپنے پیر پر کلہاڑا مارنے کے برابر ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے وسائل کے مطابق ضرور آس پاس کے ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے… تھوڑا یا بہت جتنا ممکن ہو سکے۔ میرا رب تو اخلاص کو دیکھتا ہے… وہ اپنے بندے کی کوئی نیکی ضائع نہیں جانے دے گا بلکہ وہ تو اللہ ہے‘ رحمن ہے جو ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا وزن بھی بڑھا کر بخش دے گا۔
میں ان سطور (مضمون) کو ابھی مکمل بھی نہیں کر پائی تو مجھے ایک خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ خود نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے مشکل سے کچھ زکوٰۃ دینا اس پر فرض ہوگی لیکن وہ اپنے آس پاس کسی محتاج‘ غریب‘ یتیم کو دیکھتی ہے تو افسردہ ہو جاتی ہے‘ وہ خود تو ان کی مالی مدد کرنے سے قاصر ہے لیکن اپنے آس پاس صاحبِ حیثیت عزیز و اقارب کو جھنجھوڑتی ہے‘ انہیں توجہ دلاتی ہے کہ آپ ’’چپکے‘‘ سے اس کی مدد کر دیں تاکہ اسے دوسروں کے سامنے ’’سبکی‘‘ (شرمندگی) محسوس نہ ہو۔
مجھے اس خاتون کی اس بات نے بہت متاثر کیا کہ کسی کے لیے وسیلہ بننا یا کسی کو نیکی کی طرف راغب کرنا بھی بڑی نیکی ہے جب کہ آج ہمارے معاشرے اس قدر خود غرضی و نفسا نفسی کی حالت ہے کہ سامنے والے کو تکلیف میں دیکھ کر لوگ کنی کترا جاتے ہیں کہ ہم بے کار میں اپنے آپ کو کیوں پریشان کریں‘ کیوں مصیبت میںڈالیں… ہم اور کچھ نہیں کرسکتے تو ایسے لوگوں کا احساس تو کریں‘ انہیںکوئی محبت مشورہ تو دے سکتے ہیں جب کہ آج میں اپنے آس پاس یہ بھی دیکھتی ہوں کہ ’’چھوڑو ہماری بلا سے جو ہو رہا ہے ہونے دو۔‘‘ میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سامنے والے کی غلطی دیکھ کر مثبت طریقے سے اس کی نشاندہی کر دوں یا چپکے سے اس کا حل گوش گزار کردوں کیوں کہ اکثر سامنے والے انجانے میں اپنی چھوٹی سی غلطی پر بھی بڑی مصیبت میںگرفتار ہو جاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو مثبت سوچ و عمل کا حامی بنائے اور ان غریب ماسیوں کے وسیع و کشادہ دلوں جیسا بنائے جو اپنے آپ کو تکلیف میں رکھ کر فراخ دلی سے دوسروں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ یقینا میرے اللہ کو ان کی یہ ادا پسند آئی ہوگی جس کا اجر انہیں نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی دے گا۔

حصہ