دیوبند کاتاریخی آل انڈیا مشاعرہ

301

(تیسری قسط)
ایک گھنٹے کے صدر مشاعرہ لالہ شام ناتھ اور ان کے بعدمشاعرے کی پوری کامنٹری کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح سنانا تو مشکل ہے ویسے بھی میرے حاشیہ خیال تک میں یہ بات نہیں تھی کہ یہ رات کی کہانی دن میں بھی سنانی پڑے گی۔ ورنہ وہیں کاغذ قلم سے کام لیتا۔ اب تو صرف یادداشت سے کام لینا ہو گا۔
مشاعروں کے بارے میں میرا تاثر کچھ ایسا ہے جیسے چھٹانک بھر حلوہ کھانے کے لیے من بھر پتھر چبانے ضروری ہیں۔ دس نکمے شعر سنئے تب کہیں جاکر ایک اچھا شعر پلّے پڑتا ہے۔ وہی تضاد کا فلسفہ۔ مگر کبھی کبھی یہ فلسفہ الٹ بھی جاتا ہے۔ فرض کیجیے مسلسل گھٹیا قسم کے اشعار ہضم کرتے کرتے دماغ سنڈاس میں تبدیل ہو گیا ہو تو کسی اچھے شعر کی بھی گت وہاں جا کر کیا بنے گی کہ:
ہر کہ دوکان نمک رفت نمک شد اے دوست
یہ مشاعرہ اس اعتبار سے ’’قومی‘‘ بھی تھا کہ صدارت تھی از بسکہ جناب لالہ شام ناتھ کی جو ڈپٹی منسٹر ہیں محکمہ اطلاعات و نشریات کے بھارت سرکار اپنی کے۔ موصوف ایک گھنٹے سے زیادہ نہ ٹھہرے ہوں گے گویا تبرک کا مزا دے گئے۔ وہ چلے گئے تو ان کی جگہ ایک بزرگوار سعیدمرتضیٰ صاحب نے لے لی۔ میر حیرت علی اس تبادلہ کے دس منٹ بعد آئے تھے۔ میرے ہی پاس بیٹھے تھے۔ اْنھیں تبادلہ کا علم نہیں تھا۔ مجھ سے بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھنے لگے:
’’اماں لالہ شام ناتھ ایسے ہوتے ہیں؟‘‘۔
’’جی نہیں یہ سعید مرتضیٰ صاحب ہیں‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ انھوں نے آنکھیں نکال کر اس طرح پوچھا جیسے اس تبادلہ کی ذمہ داری مجھی پر رہی ہو۔
’’اللہ کی مرضی یوں‘‘ میں نے طویل سانس لے کر کہا ’’ڈپٹی منسٹر صاحب آئے بھی تھے چلے بھی گئے اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘۔
لاؤڈ اسپیکر اتنے شاندار تھے کہ کم ازکم سلیم کھتولی کی آواز تو پاکستان تک پہنچ گئی ہو گی۔ سلیم بڑے اچھے شاعر ہیں۔ مشیت نے ان کی آنکھیں چھین لیں مگر ان کے داخلی مشاہدات بڑے غضب کے ہیں۔ ہو سکتاہے وہ محبوب کے ایک ایک عضو کو چھو کر شعر کہتے ہوں۔ کاش انھیں کوئی صحیح مشورہ دینے والا مل جاتا۔ ان کی آواز بڑی ہنگامہ خیز قسم کی ہے، مگر وہ اسٹارٹ ہی اتنے بلند سروں میں لے لیتے ہیں کہ انترے کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ انترے کے بغیر نغمہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی بغیر سالن کے۔ اگر کبھی سامعین داد دینے میں کنجوسی کرتے ہیں تو سلیم صاحب انترا بھی اٹھانے کی کوشش فرماتے ہیں مگر اس وقت کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جیسے مصرع ان کے دماغ سے نہیں معدے کی تہہ سے کھنچ کر آ رہا ہو۔ قاری سماعت علی کا تو ایک کان کا پردہ بھی پھٹ گیا۔ وہ شامت کے مارے یایوں کہیے ہجوم شوق کے مارے بالکل مائک کے پاس بیٹھے تھے۔ سلیم صاحب نے جو ایک مرتبہ گردن موڑ کر پنچم کا لیا تو قاری صاحب کاکان مائک بن گیا۔ بس پھرتو ایٹمی دھماکے کا مزا آ گیا۔
مشاعرے کی واحد شاعرہ شبنم اٹاوی
میں اگرسیکرٹری ہوتا تو شاعروں کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے رکھتا۔ گویا سین کے بعدشین۔ سلیم کھتولوی کے بعد شبنم اٹاوی۔ یہ خاصی معنی خیز ترتیب رہتی۔ اندازہ کیجیے سلیم صاحب کی گھن گرج کے۔۔۔۔۔۔ فوراً بعد ہلکا پھلکا شبنمی ترشح۔ توازن اور تضاد دونوں کے تقاضے پورے ہو جاتے۔ ہو سکتا ہے قاری صاحب کی پھٹے ہوئے پردہ سماعت کے لیے بھی شبنم صاحبہ کی مہین اور لوچ دار آواز فرسٹ ایڈ کا کام دیتی۔
ایک دو ایسے بھی شاعروں نے اپنا کلام سنایا جن کا ہیولیٰ دیکھ کر میں نے خیال کیا تھا کہ وہ مثنوی مولانا روم پڑھیں گے مگر جب ان کے شعرسنے تو خیال بدلنا پڑا۔ وہ تو بڑے منچلے قسم کے عاشق نکلے۔ محبوب کی بے وفائی کا شکوہ کرتے کرتے انھوں نے کچھ دھمکیاں بھی دی تھیں،بلکہ ایک مرتبہ تو مجھے اچک کر دیکھنا پڑا کیوں کہ ان کے پڑھنے کاانداز کچھ ایسا ہی تھا جیسے گھونسہ بنا کر کسی پر پل پڑنے والے ہوں۔
خیر صاحب شبنم صاحبہ کا بھی نمبر آیا۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا ایڈیٹر تجلّی کے ماتھے پر تین شکنوں کا اضافہ ہو گیا تھا مگر جملہ حاضرین میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ ذرہ ذرہ چیخ رہا تھا۔
اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی
میرے قریب ہی ایک مشرع قسم کے بزرگ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بڑے آسودہ انداز میں بیٹھے تھے۔ جب شبنم کی مترنم آواز فضا میں کھنکھنائی تو ان بزرگ کے دونوں ہونٹ گول دائرے کی شکل میں کھل گئے۔ ہلکی سی بدر بدر کی آواز بھی میرے کانوں میں آئی۔غالباً وہ ٹھنڈا سانس لے کر کہہ رہے تھے
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
میں نے جھک کر چپکے سے کہا:
’’عمر رفتہ آگے ہے دادے صاحب۔ میری گردن پر سے گزر جایئے‘‘۔
انہوں نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے گھورا ’’کیا فرمایا؟‘‘
میں نے سٹ پٹا کر جواب دیا ’’جی کچھ نہیں ماشاء اللہ آواز بڑی لہک دار ہے‘‘۔
شبنم صاحبہ کا ترنم منجھا ہوا تھا۔ شعر بھی اتنے اچھے ضرور تھے مجھے حیرت ہوئی۔ حیرت یوں کہ انھوں نے بعض ایسے الفاظ بھی رشتہ غزل میں پروئے تھے جن کے بارے میں میرا دعویٰ ہے کہ عورت کو تیس سال سے پہلے ان کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی۔ دعویٰ منہ دیکھتا رہ گیا۔ مجمع پھڑک اٹھا۔ مگر مجموعی طور پر شبنم صاحبہ کی یہ پہلی کوشش کامیاب نہیں رہی۔ طرز انھوں نے کچھ ایسا لیا تھا جو ان سے چلا نہیں۔ طرز نہ چلے تو آج کل کے مشاعرے میں غالب اور میر بھی حقہ بھرتے نظر آئیں گے۔ خدا جانے محترمہ کے دل نازک پر کیا گزر گئی ہو گی۔ جب کہ میں نے بڑے بڑے رستم شاعروں کو اسٹیج پر ناکام ہو جانے کی حالت میں خود کشی کے منصوبے بناتے دیکھا ہے۔
ترتیب تو یاد نہیں۔ نہ سب شاعروں کے نام یاد ہیں۔ شعر بہرحال اچھے اچھے سننے میں آئے۔ خیر سے ایڈیٹر تجلّی بھی نظم کہہ کر لائے تھے۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ ان کا نام فہرست سے اڑا دیا گیا ہے کیوں کہ آدھی رات ہو گئی اور انھیں کسی نے کوڑی کو نہیں پوچھا مگر عین تہجد کا وقت تھا جب نام پکارنے والے نے حاضری بھرنے کے انداز میں پکارا ’’جناب عامر عثمانی صاحب‘‘
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’حاضر جناب‘‘
وہ اپنی مٹھی بھر ہڈیاں سنبھالے مائک پر پہنچے۔ اب سوچ رہا تھا کہ ذرا شروع ہونے دو نہ کبھی کبھی کے بدلے چکائے تو ملا نام نہیں۔ اسکیم یہ ذہن میں تھی کہ ایک دو شعر پڑھ لینے دویک لخت سانپ سانپ کہہ کر چیخ پڑوں گا۔ پھر لوگ بڑبڑا کر اٹھیں گے تو اس ہڑبونگ میں جلا ہوا سگریٹ شبنم کی طرف اچھال دوں گا۔ ان کے نائلون کے دوپٹے نے آگ پکڑ لی تو بس مزا ہی آ جائے گا۔ بعید نہیں بھائی جان کی داڑھی بھی لپیٹ میں آ جائے۔
مگر کچھ نہ ہوا۔ وہ تو مائک پر فرمانے لگے بھائیو میں شعر کہہ تو لیتا ہوں پڑھ نہیں سکتا، میری نظم فلاں صاحب پڑھیں گے۔ استغفراللہ۔ ان سے کوئی پوچھے جب پڑھنا آپ کے بس کا نہیں توشعرکہنا کس حکیم نے نسخے میں لکھا ہے۔ اب جو شخص دوسروں سے پڑھوا سکتا ہے کیا ضمانت ہے کہ وہ دوسروں سے لکھوا نہیں سکتا۔ میرا تو جی چاہا کہ پکار کر کہہ دوں کہ آپ پیچھے لوٹ آئیے، آپ کی نظم سنے بغیر بھی ہر مسلمان کی مغفرت ہو سکتی ہے۔
اتنے میں فلاں صاحب نے ان کے ہاتھ سے پرچہ لے کر نظم شروع بھی کر دی اور وہ وہیں رونمائی کی خاطر بیٹھ گئے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ فلاں صاحب نظم کو کامیاب کر لے جائیں گے، مگر صدقے نیلی چھتری والے کے ان کی آواز کچھ ایسی بھنچی بھنچی نکلی کہ مدیر تجلّی کو شاید رات میں سورج نظر آ گیا ہو۔ پڑھنے کی رفتار چھاپہ مار دستوں جیسی تھی۔ پہلے ہی جب ٹیپ کا یہ بند انھوں نے پڑھا:
جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈتا ہوں میں
تو جہاں تک میرا مطالعہ ہے سامعین کو ایسا لگا جیسے کوئی بھوکا شرابی ڈوبتی ہوئی آواز میں ہانک لگا رہا ہو:
گو اب ڈھونڈتا ہوں میں شراب ڈھونڈتا ہوں میں
لوگ ابھی کان کے کوکر ہی کرید رہے تھے کہ انھوں نے بند شروع کیا:
جو رک سکے تو روک دو یہ سیل رنگ و نور کا
میری نظر کو چاہیے وہی چراغ دور کا
کھٹک رہی ہے ہر کرن نظر میں خار کی طرح
نگاہِ شوق جل اٹھی حجاب ڈھونڈتا ہوں میں
معاذاللہ! اس رجعت پسندی پر کون داد دے سکتا تھا۔ بلکہ سنا ہے محمد حنیف قریشی صاحب تو برا بھی مان گئے تھے۔ برا ماننے کی بات بھی تھی۔ ان بیچاروں نے تو صدہا روپے خرچ کر کے مشاعرہ گاہ سے لے کر اپنی کوٹھی تک ہزاروں بلب لگوائے تھے اور بھائی صاحب فرما رہے ہیں:
مری نظر کو چاہیے وہی چراغ دور کا
چاہیے تو گھر جائیے اور ایک آنے کی موم بتی جلا کر ہاتھ تاپیے۔
گاڑی پھر آگے چلی:
یہ زرد زرد آندھیاںیہ کہکشاں دھواں دھواں
یہ تنگ تنگ سی زمیں یہ گرد گرد آسماں
یہ تابشیں بجھی بجھی یہ داغ داغ کہکشاں
میرا جی چاہا کہ پکار کر کہوں ’عینک کا نمبر بدلوائیے‘ مگر پڑھنے والے صاحب اتنے صبا رفتار تھے کہ پل کی پل میں اگلے بند پر پہنچ گئے:
یہ تلخ تلخ راحتیں، جراحتیں لیے ہوئے
یہ خوں چکاں لطافتیں، کثافتیں لیے ہوئے
یہ خندہ زن صداقتیں، قیامتیں لیے ہوئے
’’ارے بھئی رک کیوں گئے‘‘ میں بڑبڑایا ‘‘ ایک اور مصرعہ لگاؤ نا:
یہ لفظ لفظ نظم کا، حماقتیں لیے ہوئے
مگر کسی صاحب نے پیٹھ میں کہنی مار کر کہا:
’’صاحب چین سے بیٹھیے نا، کروٹیں کیوں بدل رہے ہیں‘‘۔
اتنے میں فلاں صاحب آخری بند پر پہنچ چکے تھے:
خوشا وہ دور بے خودی، کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سرور تھا، تو بے کلی قرار تھی
تڑپ میں بھی سکون تھا، خلش بھی سازگار تھی
وہ لعل و لب کے تذکرے ، وہ زلف و رخ کے زمزمے
وہ کاروبار آرزو، وہ ولولے وہ ہمہمے
مگر حریم ناز تک پہنچ گئے تو کیا ملا؟
بتاؤ کیا صنم ملے؟ بتاؤ کیا خدا ملا؟
جواب چاہیے مجھے جواب ڈھونڈتا ہوں میں
جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
مانا کہ روش صدیقی جیسے بعض نستعلیق حضرات نے داد بھی دی، مگر شاعروں کی داد کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ داد لینے کے لیے بھی داد دیا کرتے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ اب میرا نمبر آئے گا۔ رات کی جوانی ڈھلتی جا رہی تھی لیکن وہاں تو ایک اور صاحب کی حاضری بھری گئی۔ میرے دل کو دھکا سا لگا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ جس قدر بعد میں نمبر آئے گا اتنا ہی بڑا شاعر سمجھا جاؤں گا۔
نشور واحدی خوب شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے نمبرپر فرمایا:
’’حضرات چار پانچ شعر پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ نے دل کھول کر داد دی تو ایک غزل اور پیش کروں گا۔‘‘
پھر انھوں نے تقریباً ہر شعر سے پہلے کچھ اس طرح کی منشور تمہیدیں بھی ارشاد کیں جن کا منشا کم و بیش یہ تھا کہ شعرتو سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں مگر خیر آپ لوگ بھی کوشش کرکے دیکھیے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ چینی میں یا پھر سرکاری ہندی میں نہ پڑھ بیٹھیں۔ مگر نہیں۔ وہ تو سیدھی سادی اردو میں پڑھ رہے تھے۔ پھر شاید یہ تمہیدیں اس افتاد کا نتیجہ ہوں کہ حاضرین میں داڑھیوں کی کثرت تھی۔ انھوں نے سوچا ہو گا کہ یہ داڑھی والے حسن و عشق کے معاملات کیا سمجھیں گے۔ اب معزز مہمان کو کون بتاتا کہ داڑھیاں صرف مردوں ہی کے اگتی ہیں۔ مرد اگر حسن و عشق کے معاملات میں کورے ہوں تو اکیلا حسن تو چڑیا کا بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔
(جاری ہے)

حصہ