برسوں کے تجربے کے بعد ہم نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ عورتوں کے لیے شاپنگ کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ ہے۔ چار روپے کیا ان کے ہاتھ آجائیں وہ شاپنگ کے بہانے مارکیٹ سروے پر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور جو کچھ اس میں کرتی ہیں اس کے آگے بڑی بڑی ریسرچ کمپنیاں ہیچ ہیں۔
انہیں ہر نئی کمپنی کا نام معلوم ہوتا ہے۔ اس کے سارے ڈیزائن وہ مختلف دکانوں پر دیکھ لیتی ہیں‘ قیمتوں کا ریکارڈ بھی ساتھ ساتھ بناتی جاتی ہیں۔ نئے فیشن سے آگاہی حاصل کرتی ہیں اور جب یہ ساری معلومات اکٹھی ہوجائیں تو ایک آدھ جوڑا کپڑوں کا یا جوتے‘ چپل کا خرید بھی لیتی ہیں۔
پھر جب اپنے ملنے والوں میں سے کسی کو ان میں سے کوئی چیز پہنا دیکھتی ہیں تو جھٹ اس کی قیمت بتا کر اسے اس کا ’’معیارِ زندگی‘‘ اور اپنی ’’معلومات‘‘ کا احساس کرا دیتی ہیں۔
…٭…
آگے رمضان تھا اور پھر عید۔ چونکہ یہ کاروبار میں تیزی کا زمانہ ہوتا ہے لہٰذا مصروفیات بھی کافی بڑھ گئیں۔
نازیہ نے کہا ’’کسی دن شاپنگ کر لیتے ہیں۔‘‘
ہم نے نکمے ہونے کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے سمجھا کہ ہماری شاپنگ۔ بولے ’’ارے اس کی کوئی ضرورت نہیں‘ ابا سے کہہ دوں گا جب اپنا کپڑا لیں گے تو میرا بھی لے لیں گے۔‘‘
انہوں نے ایک مرتبہ دیدے گھمائے پھر بولیں ’’میرا مطلب تھا کہ میں اور آپ ساتھ چلتے ہیں‘ آپ کی شاپنگ بھی کر لیں گے اور میری بھی۔‘‘
ہم تھوڑی سہلانے لگے پھر بولے ’’میری جان! مجھے آفس سے وقت نکلتا نظر نہیں آتا‘ خدشہ ہے کہ رمضان آجائے گا اور ہم شاپنگ نہیں کر پائیں گے۔‘‘
رمضان کی قیمتی گھڑیوں میں شاپنگ کرنا ہم حماقت سے کم شمار نہ کرتے تھے۔
’’دیکھ لیجیے‘ جس دن بھی وقت مل سکے۔‘‘ وہ امید سے بولیں۔
’’امی کے ساتھ چلی جائو‘ سکون سے اور جی بھر کے شاپنگ کرو‘ میں ساتھ ہوا تو ایک ٹینشن ہی رہے گی۔‘‘ ہم نے بات بنائی۔
’’میری خریداری میں آپ کا انتخاب بھی شامل ہو جائے گا نا۔‘‘ وہ جذباتی ہو گئیں‘ ایک تو عورتیں جذباتی بہت جلد ہو جاتی ہیں اور ایسے میں بے حد خطرناک بھی ہو جاتی ہیں۔
’’کیا خاک انتخاب کروں گا‘ ویسے ہی میری قوتِ انتخاب بہت کمزورہے۔‘‘ ہم نے بات اُڑانے کی کوشش کی۔
’’جی بالکل…! اور میں اس کا چلتا پھرتا ثبوت ہوں۔‘‘ وہ مسکرائیں تو ہماری جان میں جان آئی۔
’’آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے رحمتِ خاصا کے ذریعے نازل کیا تھا ورنہ ہم کو تو عمر بھر ایسی بیوی نہ ملتی۔‘‘ہم نے اپنی قسمت پر رشک کیا۔
…٭…
ڈاکٹر صاحبہ! اگلی چند دن اسی انتظار میں رہیں کہ ہم جلدی آجائیں تو ہمارے ساتھ شاپنگ کے لیے چلیں۔
ہمیں نہ تو خود سے موقع ملا‘ نہ ہی ہم نے نکالنا چاہا۔ عورتوں کے ساتھ شاپنگ ہمارے لیے ’’ذہنی تشدد‘‘ سے کم نہ تھی کہ ہم جب اپنی اماں کے ساتھ جاتے تو ہر دکان پر شورمچاتے کہ ’’یہاں سے تو لے لیں۔‘‘ لیکن اماں چالیسویں دکان سے پہلے پرس کی زپ کو ہاتھ نہ لگاتیں۔ وہ کہتیں ’’تمہارا بس چلے تو پہلی دکان ہی سے خریداری کرو اور واپس ہو جائو۔‘‘
ہم ہاں میں ہاں ملاتے۔
ہم سے مایوس ہو کر نازیہ نے ایک دن اماں کے ساتھ جا کر شاپنگ کر ڈالی۔ رات جب ہم واپس آئے تو بولیں ’’آج ہم شاپنگ کر آئے‘ آپ کو دکھائوں کیا خریدا؟‘‘
ہمیں اس میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ کیا خریدا‘ ہم صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ کتنے کا خریدا؟ کیوں کہ جتنے زیادہ پیسے نازیہ کے ہاتھ سے خرچ ہوتے تھے اتنی ہی زیادہ ہمیں خوشی ہوتی تھی۔
’’تمِ جو چیز خریدتی ہو وہ مجھے ہمیشہ پسند ہی آتی ہے۔ چیز بری بھی ہو تو تمہارے پہن لینے کے بعد اچھی ہو جاتی ہے۔‘‘ ہم نے کھلے دل سے تعریف کی۔
’’لیکن مجھے وہ چیز اتنی اچھی نہیں لگتی جو میں آپ کے بغیر لوں۔‘‘
…٭…
رمضان آگیا اور حسب معمول بہت تیزی سے گزر بھی گیا۔ چاند رات کے دن ہم نے اخلاقاً پوچھا ’’ہاں بھئی کل کی سب تیاریاں پوری ہیں ناں؟‘‘ اماںکا اکثر کوئی نہ کوئی کام اٹکا ہوتا تھا چاند رات تک۔
ڈاکٹر صاحبہ بولیں ’’مجھے میچنگ کی چوڑیاں نہیں ملی تھیں‘ لیکن کوئی بات نہیں دوسرے سیٹ سے کام چل جائے گا۔‘‘
ہم پہلے ہی ضمیر پر کچھ بوجھ محسوس کر رہے تھے‘ جھٹ سے پیشکش کر بیٹھے ’’چلو -چلتے ہیں اور فٹافٹ آپ کو چوڑیاں پہنا کر آتے ہیں۔‘‘
اوّل اوّل تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ ہم نے یہی کہا ہے‘ پھر جب یقین آیا تو اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ سرخ و سفید چہرہ گلابی ہو گیا‘ آنکھوں میں دیے جل اٹھے۔ خوشی میں تو انسان کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے اور صاف دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں نازیہ کے اندر بجلی سے کوندتی دکھائی دی۔
’’بس میں یہ کرلوں‘ بس ذا سا یہ‘ ابھی آئی‘ دو منٹ رک جایئے‘ بس ایک منٹ اور… چلیے۔‘‘
’’بھئی نازو! کہیں تمہیں غلط فہمی تو نہیں ہو گئی‘ میں تمہیں کانچ کی چوڑیاں دلانے جا رہا ہوں‘ سونے کی نہیں۔‘‘
’’اپنے ہاتھ سے اگر آپ مجھے ہتھکڑی بھی پہنائیں گے تو میں اتنا ہی خوش ہوں گی۔‘‘ وہ مسکرائیں‘ ہم نے دل ہی دل میں اپنی خوش نصیبی پر خدا کا شکر ادا کیا۔
’’ایک تو یہ عورتیں چھوٹی چھوٹی باتوںکوکچھ زیادہ ہی اہمیت دے دیتی ہیں۔‘‘ ہم نے عورتوں پر طنز کیا۔
کچھ دیر تو وہ خاموش رہیں۔ عموماً اس کے بعد ہم بہت زوردار جواب کی توقع رکھتے تھے۔ مگر وہ دھیرے سے بولیں ’’تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘
واقعی اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ ہم نے بازار کے باہر لگے اسٹالز پر سے چوڑیاں خریدیں‘ اپنے ہاتھ سے نازیہ کو پہنائیں اور واپس ہوئے۔ انہوں نے ایک مہندی کی کُون بھی خریدی۔
نازیہ کو مسرور دیکھ کر ہمیں خوشی بھی ہو رہی تھی اور افسوس بھی کہ اس کی باقی ماندہ شاپنگ بھی ہمی نے کیوں نہ کروائی۔
…٭…
گھر پہنچ کر ڈاکٹر صاحبہ بولیں ’’امی جان دیکھیے انہوں نے آپ کے لیے مہندی خریدی ہے۔‘‘
ہم گھبرا گئے کہ کیا جھوٹا الزام سر پڑ گیا‘ امی جان کی بھلا یہ عمر کہاں کہ مہندی وہندی کے شوق پالیں‘ لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
وہ تیزی سے آئیں‘ مہندی اپنے ہاتھوں میں لی‘ پھر ہمارا چہرہ ہاتھوں میں لے کر چوما اور دعائوں کی لائن لگا دی۔ ہم نے دل ہی دل میں یہ سب نازیہ کے ساتھ کیا کہ اصل کارنامہ تو انہی کا تھا۔
امی جان نے خود سے ہزاروں کی شاپنگ تو کی ہی ہوگی مگر یہ چند روپوں کی مہندی چاند رات کو مل جانے سے ان کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ پھر کافی دیر تک وہ اور نازیہ ایک دوسرے کو مہندی لگاتی رہیں اور ہنستی بولتی رہیں۔
رات ہم نے نازیہ سے دوبارہ کہا ’’عورتیں چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ضرورت سے زیادہ ہی اہمیت دیتی ہیں۔‘‘
…٭…
کافی روز بعد کی بات ہے‘ ایک روز ہم آفس جانے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تو خیال آیا کہ رومال کچھ میلا ہو گیا ہے۔ نازیہ دوڑ کرایک دھلا رومال لائیں‘ ہمیں دینے سے پہلے انہوں نے اس پر سے صابن کھرچا اور بولیں ’’ایک دن ماسی سے دھلوا لیے تھے کپڑے‘ لگتاہے اس نے صابن سے دھو دیا یہ رومال۔‘‘
’’ارے…!‘‘ ہمیں ایک جھٹکا لگا ’’یہ رومال آپ نے نہیں دھویا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’یہ والا یقینا میرے ہاتھ سے نہیں دھلا۔‘‘
’’جانِ من! دو ایک ماسیاں اور رکھ لو… سارے جہاں کا کام ان سے کرا لیا کرو‘ لیکن بس ہمارے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرو… پلیز۔‘‘ ہم نے پیار بھری التجا کی۔
انہوں نے دھلا رومال ہمیں دے کر میلا رومال لینا چاہا‘ مگر ہم نے اسے نہ چھوڑا اور بولے ’’ اس دھلے رومال سے یہ میلا رومال بہتر ہے کیوں کہ اسے آپ نے دھویا تھا‘ اس میں خوشبو ہے آپ کے ہاتھوں کی۔‘‘ ہم یہ کہہ کر باہرکی طرف مڑے تو وہ پیچھے سے بولیں ’’سنیے…!‘‘
ہم پلٹ کر رکے‘ وہ پاس آئیں اور بولیں ’’کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر دل رکھنے والے کے لیے بہت اہمیت کا درجہ رکھتی ہیں۔‘‘