شعرو شاعری

279

اکبر الٰہ آبادی
ادھر وہی طبع کی نزاکت، اُدھر زمانہ کی آنکھ بدلی
بڑی مصیبت شریف کو ہے، امیر ہوکر غریب ہونا
عطا ہوئی ہے اگر بصیرت تو ہے یہ حالت مقامِ حیرت
خدا سے اتنا بعید رہنا، خودی سے اتنا قریب ہونا
رسول اکرمؐ کی ہسٹری کو پڑھو تو اول سے تابہ آخر
وہ آپ ثابت کرے گی اپنا عظیم ہونا عجیب ہونا
جو دل پہ گزری کروں گزارش بغیر پیچیدگی وسازش
فقیہہ ہونے کی ہے نہ خواہش، نہ چاہتا ہوں ادیب ہونا

عندلیب شادانی
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہر انگیز تبسم، مدنظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجام اگر اس دھوکے میں آجائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا! میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بےبس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو​

چراغ حسن حسرتؔ
یا ربِ غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہوجاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

بہزادؔ لکھنوی
فغاں شکارِ اثر ہو گئی تو کیا ہوگا
جو بات اِدھر ہے اُدھر ہو گئی تو کیا ہوگا
رُکو رُکو میری آہو ، تھمو تھمو اشکو
جو بے خبر کو خبر ہو گئی تو کیا ہوگا
بڑی امید لگائے ہوں شامِ غم سے مگر
جو شامِ غم بھی بسر ہو گئی تو کیا ہوگا
شبِ فراق دعائے سحر میں کیوں مانگوں
تڑپ رہے گی سحر ہو گئی تو کیا ہوگا
ابھی تو آنکھ پہ قابو ہے مجھ کو ائے بہزادؔ
جو ان کے سامنے تر ہو گئی تو کیا ہوگا

مخمور دہلوی
کسی سے میری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا
جہاں میں ہوں فرشتوں سے وہاں جایا نہیں جاتا
مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے در سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا
چمن تم سے عبارت ہے بہاریں تم سے زندہ ہیں
تمہارے سامنے پھولوں سے مرجھایا نہیں جاتا
ہر اک داغِ تمنا کو کلیجے سے لگاتا ہوں
کہ گھر آئی ہوئی دولت کو ٹھکرایا نہیں جاتا
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا

عبداللطیف تپشؔ
جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
اچھی دیدار کی حسرت تھی کہ مرنے نہ دیا
مدتوں کش مکش یاس و تمنا میں رہے
غم نے جینے نہ دیا، شوق نے مرنے نہ دیا
ناخدانے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا، پار اُترنے نہ دیا
کوئی تو بات ہے جو غیر کے آگے اس نے
شکوہ کیسا کہ مجھے شکر بھی کرنے نہ دیا

پنڈت آنند نارائن ملا
تڑپ شیشے کے ٹکڑے بھی اڑا لیتے ہیں ہیرے کی
محبت کی نظر جلدی سے پہچانی نہیں جاتی
کسی کے لطف بے پایاں نے کچھ یوں سوئے دل دیکھا
کہ اب ناکردہ جرموں کی پشیمانی نہیں جاتی
وہ بزم دیر و کعبہ ہے نہیں کچھ صحن میخانہ
ذرا آواز گونجی اور پہچانی نہیں جاتی
نظر جھوٹی، شباب اندھا وہ حسن اک نقش فانی ہے
حقیقت ہے تو ہو لیکن ابھی مانی نہیں جاتی
نظر جس کی طرف کرکے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کو پریشانی نہیں جاتی

شاہد صدیقی
یہ کیا ستم ہے کہ احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے
یہ کیسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفان تشنگی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے غمِ جستجو کبھی کم ہے
تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے
نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلائو کہ روشنی کم ہے

عرش ملسیانی
اِک فقط مظلُوم کا نالہ رَسا ہوتا نہیں
اے خُدا دُنیا میں تیری ورنہ کیا ہوتا نہیں
عاشقی میں جوہَرِ فِطرت فنا ہوتا نہیں
رنگِ گُل سے نغمۂ بُلبُل جُدا ہوتا نہیں
کیوں مِرے ذَوقِ تَصوّر پر تُمھیں شک ہوگیا
تُم ہی تُم ہوتے ہو کوئی دُوسرا ہوتا نہیں
ہم کو راہِ زندگی میں اِس قدر رَہزن مِلے
رہنُما پر بھی، گُمانِ رہنُما ہوتا نہیں
سجدہ کرتے بھی ہیں خُود اِنساں دَرِ اِنساں پہ رَوز !
اور پھر کہتے بھی ہیں ، بندہ خُدا ہوتا نہیں
ناخُدا کو ڈُھونڈ جا کر حلقۂ گرداب میں
بندۂ ساحِل نَشِیں تو نا خُدا ہوتا نہیں
ترکِ اُلفت بھی مُصِیبت ہے اب اِس کا کیا علاج
وہ جُدا ہو کر بھی تو دِل سے جُدا ہو تا نہیں
عرشؔ پہلے یہ شِکایت تھی خفا ہوتا ہے وہ
اب یہ شِکوہ ہے، کہ وہ ظالم خفا ہوتا نہیں

حصہ