وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اس شعر میں علامہ اقبال نے ہمیں عورت کے حقیقی مرتبے اور مقام سے آگاہ کیا۔ عورت کا وجود دنیا کے لیے خوب صورتی کا باعث ہے‘ اگر اس کا ساز زندگی میں شامل نہ ہو تو ہمارے اندر سوز پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس کی پاکیزگی اور شرافت ثریا سے بھی اونچی ہے جہاں شرافت پائی جاتی ہے اس کا مبلغ عورت کی ذات ہے لیکن کیا ہم عورت کو معاشرے میں وہ مقام دیتے ہیں جس کی وہ حق دار ہے۔
ہم مرد اور عورت میں جو فرق سمجھتے ہیں وہ رکھتے بھی ہیں؟ معاملہ خوراک کا ہو،جائداد کا ہو یا تعلیم کا‘ ہم ہر جگہ عورت کو بے کار تصور کرتے ہیں۔ عورت کو بھی خوراک کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ مرد کو۔ اکثر خواتین کو جائداد میں اس کے جائز حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
تعلیم کے لیے زیادہ توجہ لڑکوں پر دی جاتی ہے یہ سوچ کر کہ لڑکیوں کو تعلیم کی ضرورت ہی نہیںہے۔ پھر یہی کم تعلیم یافتہ عورت کسی مرد کے گھر کی زینت بنتی ہے تو بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ عورت تو ایک نسل کی تربیت کرتی ہے اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ ہوگی تو نسل کی تربیت کیسے کرے گی؟
بیٹا میٹرک پاس کرتا ہے تو باپ کا سینہ فخر سے تن جاتا ہے۔ لڑکی اگر میٹرک میں ٹاپ بھی کر لے تو یہ کہہ کر تعلیم کی ڈگری پرے رکھ دی جاتی ہے کہ اس نے کون سی نوکری کرنی ہے۔حالانکہ تعلیم عورت کا بنیادی حق ہے۔ عورت کو تعلیم کے زیور سے بہرہ ور کرنا اپنی نسل کو بہرہ ورکرنا ہے۔
ضرورت ہے ہر عورت تعلیم یافتہ ہو تاکہ آنے والی نسلوں کی پرورش صحیح طریقے سے انجام دی جا سکے۔ باشعور اور تعلیم یافتہ عورت ہی معاشرے کا اصل حسن اور خوبصورتی ہے۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں تاکہ گھروں کے حالات اور نئی نسل کے اطوار کو بدلا جائے