بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کراچی کا عید ملن مشاعرہ

212

بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کراچی کے زیر اہتمام بیچ ویو کلب کلفٹن میں عید ملن تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی مجلس صدارت میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اور صبیحہ صبا شامل تھیں۔ اشرف شاد‘ شہلا رضا‘ علی زریون اور عمیر نجمی مہمانان خصوصی تھے جب ہ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ صغیر احمد جعفری‘ ریحانہ احسان اور وقار زیدی‘ مہمانان اعزازی تھے۔ ثبین سیف نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے کا آغاز تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ سے ہوا۔ جن شعرا نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ صبیحہ صبا‘ راشد نور‘ صغیر احمد جعفری‘ ریحانہ احسان‘ وقار زیدی‘ اشرف شاد‘ علی زریون‘ عمیر نجمی‘ محمد علی گوہر‘ ثبین سیف‘ آفتاب عالم قریشی‘ منصور ساحر‘ عباس ممتاز‘ شاہدہ عروج‘ یاسر سعید صدیقی‘ عاشق شوکی‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ فرحانہ اشرف‘ علی کوثر‘ کشور عروج‘ تاجور شکیل‘ شہناز رضوی‘ ڈاکٹر شاہد صدیقی‘ ہدایت سائر‘ عائشہ خان‘ مہر حسین‘ نکہت عائشہ‘ سدرہ کریم اور نازیہ غوث شامل ہیں۔ سامعین میں ڈاکٹر ہمامیر‘ حامد اسلام‘ اقبال لطیف‘ انیلا نجمی‘ سیدہ صفات ایڈووکیٹ‘ وسیم فاروقی‘ سلمیٰ خانم‘ فہیم برنی‘ شہلا سعید‘ فاروق عرشی‘ قمر جہاں قمر‘ رخشی عامر‘ حمیرا ناز‘ لالہ رخ شامل تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کراچی کے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت بنا رہی ہے اس کے کریڈٹ پر بہت سی شاندار تقریبات ہیں ان کے پروگراموں میں شریک ہو کر طمانیت اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں سینئر شعرا کے علاوہ جونیئر اور متبدی شعرا بھی شامل ہیں ان کے کلام سے زندگی کے مختلف گوشے نمایاں ہوئے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ شاعری کا غیر تحریری منشور یہ ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے مظلوم کا ساتھ دیا جائے اور ظالموں کی بیخ کنی کی جائے اس حوالے سے مزاحمتی شاعری منظر عام پر آئی ہے ہم اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل اٹھائیں تاکہ معاشرے میں بہتری کے امکان روشن ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی بیانیہ ہمارے عہد کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ صبیحہ صبا نے کہا کہ مشاعرہ بھی مشرقی روایات کا حصہ ہے‘ ہر زمانے میں یہ ادارہ موجود ہوتا ہے لیکن وقت و حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میںیہ ادارہ کبھی کبھی غیر فعال بھی ہو جاتا ہے خدا کا شکر ہے کہ اب ادبی فضا بہتر ہے۔ امید ہے کہ ہمارا ادبی ماحول زندہ رہے گا۔ شہلا رضا نے کہا کہ وہ حکومت سندھ کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں تاہم ’’ادب‘‘ میرا پسندیدہ شعبہ ہے لہٰذا میں وقت نکال کر مشاعرے میں شرکت کرتی ہوں۔ اشرف شاد‘ عمیر نجمی اور علی زریون نے بھی اپنی گفتگو میں اس بات کا اقرار کیا کہ مشاعرہ بہت شان دار تھا ہر شاعر نے خوب داد و تحسین حاصل کی۔ اس قسم کی تقریبات کا سلسلہ اردو ادب کو زندہ رکھے گا۔ ثبین سیف نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ مشاعرہ کرانا بہت دشوار عمل ہے اس سلسلے میں میرے شوہر سیف اللہ خان نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں اپنی انتظامیہ ٹیم کے تعاون سے آج کا مشاعرہ ترتیب دینے میں کامیاب ہوئی یہ کیسا پروگرام ہے اس کا فیصلہ آپ نے کہا ہے۔ آفتاب عالم قریشی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ خواتین و حضرات کی شرکت سے محفل میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ ہر شاعر نے بہترین کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کو گلدستے اور دیگر تحائف پیش کیے گئے۔

حصہ