قطب مینار اُن چند عمارتوں میں سے ہے جو دنیا بھر میں اپنی ایک واضح شناخت رکھتی ہیں
یونائٹیڈ ہندو فرنٹ نے دہلی میں واقعی قطب مینار کا نام بدل کر وشنو استمبھ (سُتون) رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونائٹیڈ ہندو فرنٹ کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار دراصل وشنو استمبھ ہی ہے اور یہ کہ اس مینار کی تعمیر 27 جین اور ہندو مندروں کو توڑ کر کی گئی ہے۔ یونائٹیڈ ہندو فرنٹ کے رہنماؤں نے قطب مینار کمپلیکس میں موجود ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو باضابطہ مندر کی شکل دینے اور وہاں پوجا کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے تحریک چلائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں دہلی سمیت کئی شہروں کے ماحول میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ قطب مینار اُن چند عمارتوں میں سے ہے جو دنیا بھر میں اپنی ایک واضح شناخت رکھتی ہیں۔
بھارت میں ایک زمانے سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ملک کا یہ بلند ترین مینار کس نے تعمیر کرایا۔ تلے میں اس مینار کا محیط 14.32 میر اور انتہائی بلندی پر 2.75 میٹر ہے۔ مینار کے بلند ترین مقام تک پہنچنے کے لیے 379 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ اس مینار کے بلند ترین مقام سے، جب ماحول صاف ہو تب، 60 کلو میٹر تک دیکھا جاسکتا ہے۔ کم و بیش ہر طرف سے ندیوں (دریاؤں) سے گِھرے ہوئے علاقے میں یکے بعد دیگر سات شہر بسائے گئے۔ ان میں اندر پرستھ اور ہستناپور زیادہ معروف ہیں۔ ایک صدی قبل مسیح میں دِلو نامی راجا نے یہاں ایک شہر بسایا جو اُس کے نام کی مناسبت سے ’’دِلی‘‘ کہلایا۔ قطب مینار اُس مقام پر واقع ہے جہاں سے دِلی کی ابتدا ہوتی ہے۔
دِلی سے کم و بیش 6 میل دور تومار خاندان کے راجپوت راجا اننگ پال نے 1020 عیسوی میں سُورج کُنڈ نامی شہر بسایا۔ اُس شہر میں ایک خوب صورت لال قلعہ بھی تعمیر کیا گیا۔ اس قلعے میں ایک وسیع تالاب بھی تھا جسے اننگ پال تالاب کہا جاتا تھا۔ اننگ پال نے کئی مندر تعمیر کرائے۔ اس بستی (سُورج کُنڈ) کی یاد میں ایک سُتون بھی تعمیر کیا گیا جو قطب مینار کے پہلو میں واقع ہے۔ تومار خاندان کے بعد چوہان راجاؤں کا دور شروع ہوا۔ دِلی کا آخری چوہان راجا پرتھوی راج تھا جو 1170 میں تخت نشین ہوا۔ اُس کے عہد میں دِلی چار گنا پھیل گیا۔ پرتھوی راج چوہان نے بھی شہر کو ایک قلعے کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی۔ اس قلعے کو روئے پتھورا کا نام ملا۔ اُس نے ایک بلند مینار تعمیر کرایا۔ بعض مورخین کا متنازع دعویٰ ہے کہ یہی قطب مینار ہے۔
1191ء میں محمد غوری نے دِلی پر چڑھائی کی تاہم شکست کھاکر چلا گیا۔ وہ دو سال بعد پھر آیا اور اِس بار فتح پائی تاہم اُس نے پرتھوی راج چوہان کو زندہ رہنے نہ دیا۔ فتح کے بعد محمد غوری واپس گیا اور غلام خاندان کے قطب الدین ایبک کو صوبیدار مقرر کرکے دِلی سونپ گیا۔ 1206ء میں قطب الدین ایبک خود دِلی کا بادشاہ بن بیٹھا۔ اُس نے 27 مندروں میں سے چند ایک میں اسلامی تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا۔ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی جسے ’’مسجدِ قوت الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ پرتھوی راج چوہان نے جو مینار تعمیر کرایا تھا اُس میں چند تبدیلیاں کرکے اُسے قطب مینار کا نام دیا گیا۔ قطب مینار خالص بھارتی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ اس میں قرآنی آیات بھی کندہ ہیں۔ جس علاقے میں قطب مینار واقع ہے وہاں کی زمین غیر معمولی نمی والی اور قدرے پلپلی ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ قطب مینار کی بنیاد کتنی گہرائی تک ڈالی گئی ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ قریب ہی واقع دیگر عمارتوں اور سُتونوں کی طرح قطب مینار بھی دھاتوں سے متعلق بھارت کے قدیم علم اور فنِ تعمیر کا ایک انوکھا نمونہ ہے۔ اُسے مسلم یا ہندو عمارت کے بجائے بھارت کے فنِ تعمیر کے ایک اعلیٰ نمونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس علاقے میں کئی بار زلزلے آئے مگر قطب مینار اور دیگر سُتون جوں کے توں کھڑے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قطب مینار کم و بیش 25 انچ ٹیڑھا ہے۔ کجی کے باوجود زلزلے کے جھٹکے برداشت کرنے سے وہ فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ٹھہرتا ہے۔
آج جو سُتون قطب مینار کی بنیاد کے طور پر ملتا ہے اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دراصل اُسے ہندو راجا سمدر گپت نے رصد گاہ کے طور پر تعمیر کرایا تھا۔ بہار یونیورسٹی کے پروفیسر ڈی تری ویدی کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار دراصل وشتو استمبھ ہے۔ پروفیسر ڈی تری ویدی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سمدر گپت کے بیٹے چندر گپت نے اپنے والد کے ادھورے کام کو مکمل کراتے ہوئے یہ مینار مکمل کرایا تھا اور اِس پر نقش و نگار بھی کُھدوائے تھے۔ چندر گپت ہی نے اس مینار کے ارد گرد سیاروں یا بُرجوں کی نشاندہی کرتے ہوئے 27 مندر تعمیر کرائے تھے۔ ڈاکٹر ڈی تری ویدی کہتے ہیں کہ شمالی نصف کرّے میں سب سے بڑا دن 22 جون کا ہوتا ہے۔ پانچ ڈگری جھکتا ہوا تعمیر کیے جانے پر اس مینار کا سایا بھری دوپہر میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مینار اوپر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی پہلی منزل پر 24 اطراف اور 12 زاویے ہیں۔ دوسری اور تیسری منزل پر بھی اِسی قسم کندہ کاری کی گئی ہے۔ اس میں دو ہفتوں کی مدت اور مہینوں کا فہم سمویا گیا ہے۔
قطب مینار پر 27 جھروکے، 108 معلق کمل اور 7 منزلیں ہیں۔ علم نجوم کے حوالے سے اس مینار میں سیاروں اور بُرجوں کے بارے میں خاصی بلیغ معلومات دی گئی ہیں۔ تب علم ہیئت کے بارے میں اِتنا گہرا فہم بھارتیوں کے سوا کسی کو نہ تھا۔ بارہویں صدی عیسوی میں قطب الدین ایبک نے جس مینار کی تعمیر شروع کروائی تھی اُس کا ادھورا کام التتمش نے پورا کروایا۔ دو زلزلوں میں اِس مینار کے چند حصوں کو نقصان پہنچ چکا ہے جب کہ کم از کم تین بار اس مینار پر بجلی بھی گری ہے۔
کچھ عرصے قبل جب قطب مینار کی مرمت کی جارہی تھی‘ اس وقت مزدوروں کو اس مینار کی دیواروں میں کُھدی ہوئی ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں دکھائی دی تھیں۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھی تسلیم کیا ہے کہ کم و بیش 30 فٹ کی اونچائی پر ملنے والی یہ مورتیاں پتھر کی دیواروں میں ایک اہم عامل کے طور پر بروئے کار لائی گئی تھیں۔ آٹھویں یا نویں صدی میں پتھر کی دیوار میں کھودی جانے والی یہ مورتیاں خود قطب مینار سے کم و بیش تین سو سال پرانی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ مرمت کا کام جاری رکھنے پر ایسی مزید مورتیاں بھی برآمد ہوں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قطب مینار کا پورا کمپلیکس دراصل قدیم ہندو رصد گاہ ہے۔ لفظ قطب بھی قطب الدین ایبک سے نہیں بلکہ علم ہیئت کا لفظ قطب ہے۔ قطب اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور سات ستارے اُس کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ کئی ہندو مورخین کا دعویٰ ہے کہ خوشامدی مورخین نے رصد گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے قطب مینار کو خاندانِ غلاماں کے بادشاہ قطب الدین ایبک سے جوڑ دیا۔
بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سلطان التتمش نے اپنے عہد کے ایک بڑے صوفی بزرگ خواجہ قطب الدین کاکی چشتی سے موسوم یہ مینار تعمیر کروایا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ کے ریکارڈ میں درج ہے کہ اُجّین کے بادشاہ وکرمادتیہ (دوم) نے دِلی میں مہرولی کے مقام پر رصد گاہ کی حیثیت سے 84 گز اونچا مینار تعمیر کروایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس رصد گاہ کا نظم و نسق معروف ہیئت دان وراہ مِہِر کو سونپا گیا تھا۔ اُس نے حساب لگاکر بتایا تھا کہ ہر سال ایک خاص مہینے کے ایک خاص دن (جُولین کیلینڈر کے مطابق 22 جون) سورج اِس مینار کی چوٹی پر سے گزرتا ہے۔ اس (قطب) مینار کے نزدیک ترین علاقے کو ’’مہرولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ’’مِہِر۔اولی‘‘ (سُورج کا راستہ) ہے۔ اس بستی میں اس رصد گاہ کے ماہرین اور ملازمین رہا کرتے تھے۔ یہیں 27 نکشتروں (بُرجوں) کی نشاندہی کرنے والے 27 مندر تعمیر کرائے گئے تھے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ جہاں قطب مینار واقع ہے وہاں اِس سے قبل ایک عظیم رصد گاہ ہوا کرتی تھی۔ بعد میں عربی عبارات بھی پتھروں میں کُھدے ہوئے کنول کے پھولوں کے پہلو میں کندہ کرائی گئیں۔ قطب مینار کے دونوں طرف پہاڑیوں کے درمیان طلوع و غروبِ آفتاب ہوا کرتا ہے۔ اس عظیم مینار کی تعمیر میں ریاضی کے اصولوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ آچاریہ پربھاکر نے تحقیق کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ اس مینار کے گرد 27 مندر رصد گاہ کا حصہ تھے اور اُس دور کے جدید ترین آلات سے لیس ہونے کے باعث ان کی تعمیر پر کم و بیش پانچ کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ یہ رقم وکرمادتیہ نے فراہم کی تھی۔ 21 مارچ اور 21 ستمبر کو طلوعِ آفتاب تغلق آباد پر اور غروبِ آفتاب ملک پور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قطب مینار کا دروازہ شمال میں اس لیے رکھا گیا کہ قطبی ستارے کا مشاہدہ کیا جاسکے۔
قطب مینار دِلی کے آخری چوہان راجا پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں بھی تھا۔ تاریخ میں درج ہے کہ پرتھوی راج کی بیٹی نے یہ ورت لے رکھا تھا کہ وہ یمونا (دریائے جمنا) کے درشن کرکے ہی کھایا پیا کرے گی۔ وہ روزانہ قطب مینار پر چڑھ کر دریائے جمنا کے درشن کرنے کے بعد کچھ کھاتی پیتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا پرتھوی راج چوہان کے اجداد میں راجا بلدیو وِگرہ راج نے میدانِ جنگ میں راجا تومار اننگ پال کو ہراکر دِلی پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل کیا تھا۔ اور پھر اس فتح کی خوشی میں وہ سُتون تعمیر کروایا تھا جو بعد میں ’’وشنو استمبھ‘‘ کہلایا۔ جب قطب الدین ایبک دِلی کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا تب اُس نے اس سُتون کے بعض ٹوٹے ہوئے اور شکستہ حال حصوں کی مرمت کروائی تھی۔ اور یہ کہ اُس نے مینار سے اپنا نام جوڑ دیا۔ قطب مینار کی پہلی منزل پر خالص ہندو تہذیب و ثقافت کی علامات والے نقش و نگار ہیں۔
جنرل کننگم نامی انگریز ماہرِ آثارِ قدیمہ نے دِلی کی قدیم عمارتوں کی تاریخ مرتب کرنے کا کام اپنے ایک معاون برگیل کو سونپا تھا۔ اُس نے تحقیق کے بعد بتایا کہ جسے قطب مینار کہا جاتا ہے وہ خاصے قدیم زمانے کا ہے اور در اصل رصد گاہ تھا۔ اس مینار سے متعلق ریکارڈ میں جس زمانے کا ذکر ہے وہ قطب الدین ایبک سے بہت پہلے کا ہے۔ بہت سے مورخین اس بات سے متفق ہیں کہ قطب الدین ایبک نے اس مینار کی مرمت ضرور کروائی ہوگی تاہم اُس نے بنوایا نہیں۔
ویشالی وِدیا پیٹھ کے عالم پروفیسر ڈاکٹر دیو سہائے تری ویدی کا خیال ہے کہ قطب مینار دراصل ایک رصد گاہ ہے جو گپت خاندان کے ایک راجا نے تعمیر کروائی تھی۔ اُس عظیم رصد گاہ کے بیچوں بیچ یہ مینار واقع تھا۔ اس مینار کی بارہ اطراف بارہ ستاروں (بُرجوں) کی علامت ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ رصد گاہ وکرما دتیہ ہی نے تعمیر کروائی ہوگی۔ قطب مینار کی مختلف منزلوں میں مختلف پتھر بھی ملتے ہیں اور کہیں کہیں لال پتھر کے ساتھ ساتھ سنگِ مرمر بھی دکھائی دیتا ہے۔
قطب مینار کا معاملہ اب عدالت میں ہے۔ اور دِلی کی جس عدالت میں یہ معاملہ پہنچایا گیا ہے اُس نے خاصی معقول اور متوازن رائے دی ہے۔ ایڈیشنل کورٹ کے جج نکھل چوپڑا کہتے ہیں کہ ’’یہاں 800 سال سے کسی بھی فریق کو عبادت کا حق نہیں دیا گیا ہے تو اب رہنے ہی دیا جائے۔‘‘
عدالت قطب مینار کا نام بدلنے سے متعلق انتہا پسند ہندوؤں کی درخواست کا مطالبے پر اپنا فیصلہ 9 جون کو سُنائے گی تاہم اُس نے ابھی سے کہنا شروع کردیا ہے کہ جب ایک معاملہ صدیوں سے دبا ہوا ہے تو دبا ہی رہنے دیا جائے۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ قطب مینار کو ہندو یا مسلم عمارت قرار دینے کے بجائے بھارت کی ایک ایسی تاریخ عمارت قرار دیا جانا چاہیے جو دنیا بھر میں اِس کے پُرشِکوہ فنِ تعمیر کی تابندہ علامت ہے۔ جج نکھل چوپڑا کا یہ بھی مؤقف ہے کہ بحالی کا جو کام 800 سال قبل کیا گیا تھا اُس کے حوالے سے اب کسی کو کیسے کوئی اختیار دے دیا جائے۔ اے ایس آئی کے مطابق کسی بھی فریق کو عبادت یا پوجا کی اجازت نہیں دی گئی۔ قطب مینار کے پہلو میں واقع مسجدِ قوت الاسلام میں بھی کسی کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ یہ سائٹ چونکہ تاریخی نوعیت کی ہے اس لیے اِسے مذہب کے دائرۂ کار و اختیار سے باہر رکھا جائے۔
عدالت کا منہ توڑ جواب
دِلی کی ایک زیریں عدالت نے قطب مینار کمپلیکس میں پُوجا کی اجازت دینے سے متعلق درخواست خاصی گرما گرم بحث کے بعد مسترد کردی تھی۔ یہ درخواست ہندو دیوتا وشنو اور جین دیوتا تیرتھنکر رِشبھ دیو کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ 29 نومبر 2021 کو دِلی کی زیریں عدالت نے پُوجا کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے درخواست مسترد کی تھی۔ سول جج نے کہا تھا کہ ماضی کی کسی بھی غلطی کو درست کرنے کے نام پر زمانۂ حال اور مستقل کا سُکون غارت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے وکیل سبھاش گپتا نے کہا تھا کہ زیریں عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی گنجائش نہیں۔ دِلی ہائی کورٹ بھی رولنگ دے چکی ہے کہ اینشنٹ مونیومینٹس اینڈ آرکیالوجیکل سائٹس اینڈ ریمینز ایکٹ مجریہ 1958 کے تحت تاریخی اور قومی ورثہ قرار دی جانے والی کسی بھی عمارت کی نوعیت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ جب زیریں عدالت میں درخواست گزاروں کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ دیوتاؤں کے لیے مختص زمین پر کچھ اور بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیوں کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں تو سول جج نے کہا کہ جو دیوتا قطب مینار کمپلیکس میں 800 سال سے پُوجا کے بغیر بھی قائم ہیں اُنہیں چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے! جب بتایا گیا کہ قطب مینار جہاں کھڑا ہے وہاں مندر ہوا کرتے تھے تو عدالت نے کہا کہ یہ ثابت ہو بھی جائے کہ مندروں کے بچے کھچے حصوں پر یہ مینار تعمیر کیا گیا تھا تب بھی یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ مینار تعمیر کرنے کے لیے مندر توڑے گئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ مندروں کے کھنڈر صدیوں سے وہاں ہوں!