سحرتاب رومانی کی شاعری روایتی شاعری سے بہت مختلف ہے ان کی غزلوں سے آسودگی حاصل کی جاسکتی ہے وہ مشاعروں کے شاعر نہیں ہیں‘ ان کی شاعری کتابی شاعری ہے وہ داد و تحسین سے بے نیاز ہو کر شاعری کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار فراست رضوی نے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام سحر تاب رومانی کے شعری مجموعے ’’املاک‘‘ کی تقریب رونمائی کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سحر تاب رومانی پاکستان میں مابعد جدیدیت شعرا کی صف میں شامل ہیں انہوں نے جدید غزل کے تسلسل کو آگے بڑھا ہے‘ مجھے امید ہے کہ سحر تاب رومانی کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ زاہد حسین جوہری نے کہا کہ سحر تاب رومانی کے یہاں چونکا دینے والے اشعار کی کثرت ہے وہ غیر محسوس مناظر کو بھی اپنی شاعری میں پیش کر دیتے ہیں۔ اجمل سراج نے کہا کہ سحر تاب رومانی کا اندازِ سخن بہت جان دار ہے‘ وہ اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان میں نئے الفاظ کا اضافہ کر رہے ہیں تاہم انگریزی الفاظ بھی بہت سلیقے سے استعمال کرنے کا ہنر بھی انہیں آتا ہے‘ میں انہیں اس کتاب کی اشاعت و تقریب پزیرائی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جاوید صبا نے کہا کہ سحر تاب رومانی ایک قادرالکلام شاعر ہیں‘ انہوں نے اپنی پہچان بنائی ہے ان کے یہاں تازہ مضامین ملتے ہیں جدید لفظیات کے استعمال سے ان کی شاعری میں حسن پیدا ہوا ہے‘ ان کے ہاں ابلاغ کا مسئلہ نہیں ہے‘ ہر شعر عوامی زبان کا آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ سحر تاب رومانی شعرا کے ہجوم میں گم نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی شناخت بنائی ہے‘ ان کی غزلوں میں 21 ویں صدی کا انسان بولتا ہے‘ وہ مسائل زمانہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور دنیاوی رویوں کو شاعری میں ڈھال رہے ہیں‘ وہ اپنے لب و لہجے کے اعتبار سے اپنے ہم عصر شعرا میں بلند قد و قامت نظر آتے ہیں۔ علاء الدین خان زادہ نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ تخلیق کاری اللہ کی ودیعت ہوتی ہے‘ ہر شخص فن کار نہیں بن سکتا‘ ہم اپنی ادارے کراچی پریس کلب میں فنون لطیفہ کی پروموشن میں مصروف ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہر قلم کار اپنا پروگرام کراچی پریس کلب میں منعقد کرے اس کے لیے ہم ہر ممکن تعاون کے لیے حاضر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سحر تاب رومانی ادب منظر نامے کا اہم حصہ ہیں‘ وہ طویل عرصے سے شاعری کر رہے ہیں۔ ’’املاک‘‘ ان کا ساتواں شعری مجموعہ ہے ان کی تمام کتب قارئین ادب سے داد وتحسین حاصل رہی ہیں۔ کامران نفیس نے کہا کہ وہ سحر تاب رومانی کے دوست ہیں‘ میرے اور ان کے درمیان بیس سالہ رفاقت ہے‘ یہ کل وقتی شاعر ہیں اور عوامی لب و لہجے میں اشعار کہہ رہے ہیں چھوٹی بحروں اور سہل ممتنع میں بھی بہت شان دار اشعار کہہ رہے ہیں‘ یہ ہمارے دور کے اہم شعرا میں شامل ہیں۔ خالد معین نے ا پروگرام کی نطامت کے علاوہ سحر تاب رومانی کے بارے میں کہا کہ وہ غزل گوئی میں انتہائی جرأت مندانہ انداز میں زمینی حقائق پیش کر رہے ہیں وہ اپنی ذات سے ہٹ کر معاشرتی مسائل اجاگر کر رہے ہیں۔ وہ غزل کے مروجہ مضامین کے ساتھ ساتھ جدید استعاروں کو بھی اپنی شاعری میں شامل کرکے نیا انداز پیدا کر رہے ہیں جو بہت کامیاب ہو رہا ہے۔ سحر تاب رومانی نے اپنا کلام پیش کرکے خوب داد و تحسین حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ محفل سجائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں غزل کی روایتی شاعری سے تنگ آچکا ہوں لہٰذا میں نے اپنے اسلوبِ بیان میں روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ استعمال کیے اس کے علاوہ بہت سے پامال مضامین سے صرفِ نظر کیا ان کے بجائے معاشرے میں بکھرے ہوئے مسائل نظم کیے ہیں۔ اس تجربے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ قارئین ادب کریں گے۔