وہ کورئیر سروس کے دفتر سے باہر نکلی تو اس کے چہرے پر بہت پیاری مسکراہٹ تھی اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباشی دی ’’ویل ڈن افشاں! ویل ڈن، یہ کام کیا نا آپ نے۔‘‘ اور سرشاری کی کیفیت میں گھر کی طرف چل دی۔ گھر آ کر بھی اس کو اپنا کام اتنا اچھے طریقے پر ہو جانے سے خوشی ہورہی تھی اور بار بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔
’’مما! آپ کیوں مسکرا رہی ہیں؟‘‘ چھوٹی سی لائبہ نے دوسری دفعہ پھر پوچھا تو افشاں نے خود کو سرزنش کی ’’اس طرح تو میں خود ہی نعیم کے سامنے اپنا بھانڈا پھوڑ دوں گی،سارا سرپرائز ہی ختم ہو جائے گا،کول افشاں بیگم بس اب بھول جائیں آپ، عید کا سرپرائز عید پر ہی ملنا چاہیے۔‘‘ اس نے لمبا سانس باہر نکالا جیسے واقعی بات ہوا میں اُڑا دی ہو۔
افشاں کی شادی کو چھ سال ہوگئے تھے‘ ہر عید پر وہ نعیم کو انوکھا گفٹ دیتی تھی‘ پہلی عید کا پہلا تحفہ تو لائبہ کی شکل میں دونوں کے درمیان موجود تھی اور کبھی نعیم پوچھتا کہ ’’تم کیا تحفہ لوگی؟‘‘
تو وہ مسکرا کر کہتی ’’بس آپ میرے ہیں، میرے لیے یہ ہی بہت ہے۔‘‘
ایک عید پر اس نے افشاں کے لیے خوب صورت سا عید کارڈ لیا اور نیٹ سے سرچ کرکے اس پر خوب صورت اشعار لکھے۔کارڈ دیکھ کر افشاں کی شرمیلی مسکراہٹ نعیم کو بھلائے نہیں بھولتی تھی اور بقول افشاں یہ خوب صورت الفاظ میرے متاعِِ حیات ہیں۔افشاں نہ صرف شکل صورت کی پیاری تھی بلکہ اس کی ہنستی مسکراتی طبیعت اور سب کے ہر وقت خوش دلی سے کام آنے کی عادت نے سب کو اس کا گرویدہ بنایا ہوا تھا۔ ساس‘ نندیں سب ہی مل جل کر رہتی تھیں۔ بڑی نند تو شادی شدہ تھی اور دوسرے شہر میں رہتی تھی‘ دوسری نند عالیہ کی شادی اس کی شادی کے دوسال بعد ہوئی۔ چھوٹی بیٹی کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ سب کاموں میں پیش پیش رہی‘ ہر کوئی اس کے اخلاق کی تعریف کرتا نظر آتا تھا۔
افشاں ہمیشہ ہی شعبان میں رمضان المبارک اور عید کی تیاری کرلیتی تھی۔ بس اب دس بارہ ہی دن رہ گئے تھے رمضان میں، وہ جلدی جلدی کا نمٹا رہی تھی۔ ساس کے کپڑے‘ اپنے اور بچوں کے نعیم کے‘ سب کے کپڑے جوتے لاکر رکھ دیے اب الماری سیٹ کر رہی تھی۔
اچانک اس کو کچھ چکر سے محسوس ہوئے اس نے ساس کے کپڑے اٹھائے اور ان کے کمرے کی طرف آئی مگر دروازے تک پہنچ کر ایک دم لڑکھڑا گئی۔
’’امی…!‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
شائستہ بیگم جلدی سے اس کی طرف بڑھیں’’افشاں! کیا ہوا بیٹا؟‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لائیں اور اس کو بٹھایا۔
’’پتا نہیں امی!کچھ چکر سا آ گیا تھا۔‘‘
شائستہ بیگم نے اس کو پانی پلایا اور بولیں ’’ہاں تو گھن چکر بنی رہتی ہو کہ رمضان سے پہلے پہلے سارے کام کرلوں، ایک ٹانگ پر ناچ رہی ہو، پورا مہینہ ہوگیا دیکھتے دیکھتے ،چکر تو آئیں گے ہی۔‘‘
’’امی! پھر رمضان میں بے فکری سے عبادت ہوتی ہے ناں۔‘‘
’’اچھا… اچھا،اب آرام سے بیٹھو میں گلوکوز لاتی ہو تمہارے لیے۔‘‘ وہ محبت سے بولیں۔
’’ارے نہیں امی، میں ٹھیک ہوں، میں خود بنا لیتی ہوں۔‘‘
’’بس خاموشی سے لیٹ جاؤ، زیادہ رستم خان بننے کی کوشش نہ کرو، اتنی بوڑھی نہیں ہوں میں ابھی کہ اپنی بیٹی کو ایک گلاس گلوکوز ہی نہ پلا سکوں۔‘‘ انہوں نے محبت سے ڈانٹا۔
’’امی میں…!‘‘ افشاں نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ اس کو آنکھیں دکھا کر کچن میں چلی گئیں۔ اور واقعی اس کے بعد افشاں کی طبیعت سنبھل گئی اور پھر اس ڈر سے کہیں کمزوری نہ ہو جائے سب کام ایک طرف کر دیے اور دو دن صرف ضروری کام کیے تاکہ رمضان المبارک کی برکتیں صحیح معنوں میں حاصل کر سکے مگر پھر بھی اس کو کچھ عجیب سی طبیعت لگ رہی تھی۔
آج آخری عشرے کے روزے تھے اس کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا کچھ متلی سی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ ’’ہائے اللہ کہیں……؟‘‘پھر خود ہی کچھ سوچ کر اس خیال کو رد کریا، گیس ہو رہی ہے شاید، وہی پریشان کر رہی ہوگی۔
’’کیا کھایا تھا آج سحری میں؟‘‘
’’ایسا تو کچھ نہیں لیا۔‘‘
’’امی کو بتاؤں؟‘‘ اس نے خود سے سوال جواب کیے۔
’’کچھ دیر آرام کرلیتی ہوں، ابھی ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘ اس نے سوچا اور کچھ دیر آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔ مگر افطار کے بعد جب وہ بیٹھی امی اور نعیم سے باتیں کر رہی تھی کہ ’’چوڑیاں دلانے لے جائیں بعد میں تو بہت رش ہو جاتا ہے…‘‘ کہ اس کو پھر گھبراہٹ شروع ہو گئی‘ وہ واش روم کی طرف گئی مگر راستے میں ہی اس کے پیروں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔
’’نعیم… نعیم! مجھے اٹھائیں، میرے پیروں سے جان نکل رہی ہے۔‘‘ نعیم گھبرا کر کمرے کی طرف دوڑا۔
’’مم میرے پیر ، میری ٹانگیں ، میری جان نکل۔‘‘
’’کیا ہوگیا ہے افشاں؟کیوں بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو۔‘‘ نعیم نے اس کو سہارا دے کر کھڑا کرنے کی کوشش کی مگر وہ گرتی ہی چلی گئی۔
’’امی…امی…!جلدی آئیں۔‘‘ وہ زور سے چیخا۔
’’اس کو، اس کو دیکھیں، میں ایمبولینس بلواتا ہوں۔‘‘ ایک ہاتھ سے افشاں کا ہاتھ پکڑے دوسرے ہاتھ سے جیب سے موبائل نکال کر جلدی سے ایمبولینس سروس کو فون کیا۔
افشاں اس وقت تک بے سدھ ہو چکی تھی۔ ’’افشاں، افشاں! آنکھیں کھولو افشاں…‘‘ وہ آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔
مگر چوڑیوں کی فرمائش کرتے کرتے وہ نجانے کہاں چل پڑی۔
…٭…
افشاں کو دنیا سے گئے آج ایک ہفتہ ہونے کو تھا۔ نعیم لیٹا چھت کو گھور رہا تھا‘ اس کی اب تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ہوا کیا تھا اس کی نظروں میں جیسے آخری دن کی فلم سی چل رہی تھی جب ڈاکٹر نے اس کی اچانک موت کی تصدیق کردی تھی۔
کیوں کیسے سارے سوال لا حاصل ہوگئے تھے بس اللہ نے بلایا اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر چلدی۔
’’کہاں ہو افشاں؟ ایسے اچانک بھی کوئی جاتا ہے؟‘‘ اس نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو بے دردی سے پونچھا۔
عجیب ہی زندگی ہو گئی تھی سب چیزیں اس کو سیٹ ہوئی مل رہی تھی‘ اس کی ضرورت کا ایک ایک سامان افشاں نے اس طرح رکھا تھا کہ کچھ بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی لیکن نہیں ملتی تھی تو بس افشاں ہی نہیں ملتی تھی۔
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمھاری یاد نے سونے نہ دیا
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی آنسوؤں کی لہر
پلکوں نے کوئی خواب پرونے نہیں دیا
لائبہ اپنی نانی کے پاس تھی گھر جیسے ویران ہوگیا تھا۔ روزے بے کلی میں گزرتے چلے گئے اور آخر عید کا چاند بھی ہو ہی گیا۔
’’میری چوڑیاں رہ گئیں ناں۔‘‘ افشاں کی کھنکتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں گونجی، وہ چونک اٹھا اسے لگا اس کی افشاں اس کے قریب ہی اس کے کان میں سرگوشی کر رہی ہے‘ وہ ایک دم پلٹا مگر اب تو صرف اس کی یادیں تھیں‘ بات کرنی والی تو اب یہاں کہاں تھی اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
’’تم رکتی تو ناں ، جتنی کہتی چوڑیاں دلا دیتا، تم نے تو چاند رات کا بھی انتظار نہ کیا۔‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنے آنسو اندر اتارتے ہوئے اس کے خیال سے باتیں کیں۔
عید کی صبح ابھی وہ نماز پڑھ کر آیا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی
’’اس وقت کون آ گیا؟‘‘ نعیم نے دروازہ کھولا۔
’’سرپرائز، عید مبارک۔‘‘ سامنے کوئی بڑا سا گلدستہ (بوکے) لیے کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس میں سے افشاں کی آواز آ رہی تھی وہ کہہ رہی تھی ’’دیکھا ایک بار پھر دے دیا نا سرپرائز ! کیسا لگا۔‘‘
اور نعیم خالی ذہن سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو بتا رہا تھا کہ’’میڈم نے کافی پہلے ہی آرڈر کردیا تھا اور اپنی آواز میں ریکارڈنگ بھی کروا دی تھی آپ کے لیے۔‘‘