کہتے ہیں کہ خالد کا ہے انداز مزاح اور

479

دورِ حاضر میں میدانِ ظرافت کا وہ شہ سوار جس کی ظریفانہ شاعری نے اچھے اچھوں کو پچھاڑ دیا۔۔۔نگہ بلند سخن دل نوازخالد عرفان‘ ایک ایسا نام جس کی شاعری کی مقبولیت اس کی کامیابی کی دلیل ہے موصوف جس محفل میں اپنا کلام سناتے ہیں محفل کو زعفران زار بنا دیتے ہیں ہندوستان ہو یا پاکستان یورپ ہو یا امریکا جہاں جہاں اردو کے شیدائی موجود ہیں وہاں وہاں خالد عرفان بھی موجود ہیں۔ آج سے چند روز قبل خاکسار نے غریب خانے پر ایک شعری نشست کا اہتمام کیا تھا خالد عرفان کی آمد سامعین کے لیے وجہِ بہار ثابت ہوئی۔علامہ اقبال کا ایک شعر حاضرِ خدمت ہے مصرعہء ثانی میں ہلکی سی تحریف کے ساتھ۔
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں ’ان‘ کی
چمن سے میری مراد وہ ادبی دنیا ہے جہاں اردو بولی جاتی ہے لکھی اور پڑھی جاتی ہے خالد عرفان کے لیے یہ بات فخریہ بیان کی جا سکتی ہے کہ جہاں جہاں اردو کا بول بالا ہے وہاں وہاں خالد عرفان کا نام ظریفانہ شاعری کا حوالہ ہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ظریفانہ شاعری اردو ادب کی کوئی علیحدہ صنف نہیں ہے تو پھر اسے ادب کے کس خانے میں رکھا جائے… تو معلوم یہ ہوا کہ اس کا اپنا تو کوئی خانہ نہیں ہے مگر یہ ہر خانے میں اپنا وجود رکھتی ہے کوئی بھی ایسا مصرعہ یا شعر کہہ دیا جائے جس کے پڑھنے یا سننے سے قاری یا سامع کے ہونٹوں پر ہلکی سی بھی مسکراہٹ آ جائے بس اسی فن کا نام ظرافت ہے اور یہی ظریفانہ شاعری ہے۔ بابائے ظرافت اکبر الہٰ آبادی کے بعد بہت سارے مزاح گو شاعر پیدا ہوئے سبھوں نے خوب طبع آزمائی کی مگر ان میں سے چند نے ادب ملحوظِ خاطر رکھا اور ایسے شگفتہ اور نفیس اشعار کہے کہ آج بھی ادب میں ان کا مقام اعلیٰ ہے۔ اشعار میں شگفتگی ہے شائستگی ہے برجستگی بے ساختگی ہے انہوں نے لطیفہ گوئی سے گریز اور اوٹ پٹانگ الفاظ سے پرہیز کیا ہے خالد عرفان فرماتے ہیں۔
مری غزل میں لطیفے تلاش مت کرنا
میں اپنے فن کو شگفتہ خیال دیتا ہوں
جو ضبطِ غم سے چھلک آئیں میری آنکھوں میں
ان آنسوؤں کو ظرافت میں ڈھال دیتا ہوں
آنسوؤں کو ظرافت میں ڈھال دینے کا فن خالد عرفان کا ہی خاصا ہے ان کی نظر معاشرے کی خامیاں، ناہمواریاں ،ہر سو پھیلے ہوئے مسائل کو بڑی باریک بینی سے دیکھتی ہے اور ان پر بے لاگ تبصرہ کیا جاتا ہے جن میں شگفتگی کے ساتھ طنز بھی شامل ہوتا ہے ۔
ہمارے حکمرانِ ذیشان ہاتھ میں لیے کشکول آئی ایم ایف کے سنگِ آستاں پر سجدہ ریزی کرتے ہیں اور وہاں سے حاصل کردہ مالِ غنیمت کس مال خانے میں جمع ہوتا ہے خالد عرفان کے ایک شعر نے سارا راز فاش کر دیا۔
امداد کے پیکج میں شرائط کا ُپلندا
گورے سے ملا ہے کبھی کالے سے ملا ہے
کشکول میں سوراخ ہے سوراخ میں پائپ
پائپ کا سرا گھر کی تجوری سے ملا ہے
دلاور فگار جنہیں شہنشاہِ ظرافت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ظرافت نگاری میں واقعی اپنے دور کے شہنشاہ تھے خالد عرفان اسی عظیم شاعر کے شاگرد ہیں اپنے استاد کے لیے خالد عرفان کے دل میں جو محبت اور عقیدت ہے ان کے ایک شعر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
یہ سایہء افکارِ دلاور کا اثر ہے
ہم باغِ ظرافت میں امربیل رہے ہیں
دلاور فگار نے شعرا حضرات کے لیے کہا تھا۔
’’سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے‘‘
مگر خالد عرفان ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کی قدر الحمدللہ ان کی زندگی ہی میں ہو رہی ہے اب تک ان کے چھ مجموعہء کلام شائع ہوکر منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن کی حلقہء علم وادب نے دل کھول کرپزیرائی کی۔
خالد عرفان نے مشکل اور ثقیل الفاظ سے گریز کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار ہر خاص و عام کی سمجھ میں بآسانی آ جاتے ہیں موصوف جب مائک پر اپنا کلام نظرِ سامعین کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہرے کی سادگی اور لہجے کا پرُکشش انداز قابلِ دید ہوتا ہے خود تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر ان کا کلام سامعین کے لیے قہقہے کا باعث ہوتا ہے۔
قہقہے سیکڑوں مل جائیں گے خالد عرفان
تیرے لہجے کی ظرافت نہیں ملنے والی
انٹرنیٹ کی روز بروز کی ترقّی نے ہماری نوجوان نسل کو ادب سے بہت دور کر دیا ہے کتب بینی کا شوق آہستہ آہستہ کم بلکہ بہت کم ہوتا جارہا ہے ایسے دورِ پُرآشوب میں وہ شاعر اور ادیب مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی کوششوں نے ادب کی لاج رکھی ہوئی ہے۔
’’اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ‘‘
ظریفانہ شاعری کرنا اتنا آسان نہیں ہے یہ سنجیدہ شاعری سے کہیں زیادہ مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی مزاح گو شاعر مقبول ہوئے اولاً انہوں نے سنجیدہ شاعری کی بعدازاں طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھا اور بے انتہا مقبولیت حاصل کی اکبر الٰہ آبادی دلاور فگار عنایت علی خان انور مسعود بہت سارے نام ہیں خالد عرفان کی بھی سنجیدہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ان کی نعت کا ایک ایسا شعر جسے نعت خواں حضرات بھی نعت پڑھنے سے قبل اس لیے پڑھتے ہیں تاکہ نعت کا ماحول بن جائے۔
میں نعتِ احمدِ مختار پڑھنے والا ہوں
تم اپنے ذوقِ سماعت کو باوضو رکھنا
ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں مزاح گو شاعروں کی تعداد اچھی خاصی ہے مگر ان میں زیادہ تر شاعر بے مقصد شاعری یعنی پھکّڑپن ہی کہہ پاتے ہیں۔ کم تعداد ان شعراکی ہے جن کی شاعری میں مقصدیت ہے ۔دلاور فگار نے اپنے بارے میں کہا تھا ۔
مقصدی شاعری کا قائل ہوں
ادبِ نو کی سمت مائل ہوں
خالد عرفان کی شاعری میں بھی مقصدیت ہے ایک پیغام ہے جو وہ لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔
گر شریعت پر عمل ہو جائے اپنے ملک میں
دیکھنا ! اک روز مرجائے گی نانی سود کی
خالد عرفان کی شاعری میں انفرادیت ہے ان کا انداز اوروں سے قدرے مختلف ہے، طنز کے تیر نیم کش ہوتے ہیں جو دلوں میں خلش پیدا کر دیتے ہیں۔
ظرافت میں جدا گانہ ہے طرزِ خالدِ عرفاں
ہم جب دورِ حاضر کے مزاح گو شاعروں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں خالد عرفان جیسا کوئی نظر نہیں آتا لہٰذا میں مرزا غالب کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا مصرعہء ثانی میں تھوڑی سی تحریف کے ساتھ۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ ’ان‘ سا کہیں جسے

حصہ