ماہِ رمضان رخصت ہوگیا اور عید آنے کو ہے۔ عیدالفطر مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔ ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کرکے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرلی ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان ہر سال ماہِ رمضان کے اختتام پر عیدالفطر مناتے ہیں۔ یوں تو عید کا تہوار صدیوں پرانا ہے، لیکن اپنے بچپن کی عیدیں مجھے آج بھی نئی سی لگتی ہیں، جن کی حسین یادیں اب بھی میرے دل و دماغ میں پیوست ہیں۔ اُس زمانے کی عید کا مزہ ہی کچھ اور ہوا کرتا تھا، عید کا چاند دیکھنے کے لیے گھر کی چھت پر باقاعدہ ڈیرے جما لیے جاتے، یا یوں کہیے کہ مورچے لگا لیے جاتے۔ اُس وقت خود اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کا رواج تھا، اس لیے بچے بڑے سب چاند کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار رہتے اور اسی کشمکش کے دوران ”چاند نظر آگیا، چاند نظر آگیا“ کی آوازیں سن کر تمام گھر والے گلی کی جانب دوڑ پڑتے۔ ہم ہی نہیں بلکہ سارے محلے والوں کی یہی حالت ہوتی۔ گھر سے نکلتے ہی ہماری نگاہ گلی میں داخل ہوتے جمال بھائی پر پڑتی جنہیں پیار سے ”چاند“ پکارا جاتا تھا۔ اس دوران چاند بھائی ہماری جانب انتہائی حیرت سے تکتے اور ہم سوائے شرمندہ ہونے کے کچھ نہ کرسکتے۔ جمال بھائی خود تو اس وقت دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں ہماری زندگی میں آج بھی موجود ہیں۔ خیر، یوں سب سے پہلے چاند دیکھنے کی حسرت ہمارے دل ہی میں رہتی، بس ایسی موج مستیاں کرتے کرتے ہی آسمان پر نمودار ہونے والے چاند کے درشن کرلیے جاتے۔ ہماری چاند رات اکثر جاگتے ہوئے گزرتی۔ میں اور چھوٹا بھائی تو گلی میں دوستوں کے ساتھ ہلا گلا کرتے رہتے، جبکہ بڑی بہنیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہاتھوں پر مہندی لگوایا کرتیں۔ عید سے ایک دو روز قبل پورے گھر کی اچھی طرح صفائی کی جاتی، جبکہ زیادہ تر گھروں میں رنگ و روغن بھی کیا جاتا۔ عید پر سلوائے جانے والے کپڑے بھی وکھرے ہوا کرتے۔ عید کے سوٹ بنوانے کے لیے کپڑے کا پورا تھان درزی کو دے دیا جاتا، اور درزی سلائی کے بعد کپڑے گھر دے جاتا۔ خاص بات تو تب ہوتی جب ہم ان کپڑوں کو زیب تن کیے عیدگاہ کی جانب روانہ ہوتے۔ اُس وقت ہمیں لگتا جیسے کسی اسکول کا یونیفارم پہن رکھا ہو۔ شاید یہ ہماری سوچ تھی، ورنہ اُس زمانے میں تمام لوگ اسی طرح ایک ہی رنگ کی شلوار قمیص بنوانا پسند کرتے تھے۔ ابوجان عید سے ایک روز قبل کچھ اضافی پھل اور مٹھائیاں بھی لاتے۔ عید کے دن گھروں میں کھیر، سوئیاں اور مختلف قسم کے پکوان بنائے جاتے۔ امی جو کچھ بھی پکایا کرتیں وہ پڑوسیوں اور رشتے داروں کے گھروں میں ضرور بھیجا کرتیں۔ بچوں کے نزدیک اس عید کی زیادہ اہمیت عیدی ملنے کی وجہ سے ہوتی۔ گھر کے بڑے، بچوں کو عیدی دیا کرتے۔ اس دن ہر بچہ اپنے تئیں امیر زادہ ہوتا، اس کی جیب میں آنے والی رقم پر اس کا اختیار ہوتا۔ چونکہ اس روز تقریباً سارے ہی بچے مالامال ہوتے تھے اس لیے سموسے، چھولے، فروٹ چاٹ، کولڈ ڈرنکس جیسے آئٹمز پر خوب ہاتھ صاف کرتے۔ جھولا جھولنے اور اونٹ گاڑی پر سواری کرنے جیسے مشاغل اس تہوار کا حصہ ہوتے۔ اُس زمانے کی حسین یادوں میں ایک یاد عید پر بھیجے جانے والے کارڈ ہوا کرتے تھے جنہیں بھیجنا لازمی تصور کیا جاتا تھا۔ جوں جوں عید قریب آتی، اسٹالوں پر لوگوں کا رش بڑھنے لگتا، رمضان کے آخری عشرے میں تو عید کارڈز کی خریداری اپنے عروج پر ہوتی، ڈاک خانوں پر لوگوں کا رش اپنی انتہا پر ہوتا۔ بازاروں میں مختلف قسم کے عید کارڈ فروخت ہوتے، ان میں اکثر پر خوبصورت پھولوں اور قدرتی مناظر کی دلکش تصاویر ہوتیں، اور کچھ کارڈ ایسے بھی ہوتے جن پر جدائی کے کرب کا اظہار ملتا۔ بہتے ہوئے آنسوؤں کی تصویروں والے کارڈ محبوب سے ناراض عاشقوں کو اپنی طرف کھینچتے۔ کسی سے بچھڑ کر اکیلے میں آنسو بہانے والے لوگوں کو یہ کارڈ اپنی ہی داستانِ غم معلوم ہوتے، اور کچھ پر ایسے دکھی اشعار بھی تحریر ہوتے جنہیں پڑھ کر دل والے دل تھام کے رہ جاتے۔ کچھ کارڈ اعلیٰ کوالٹی کے ہوتے جنہیں کھولنے پر خوشبو محسوس کی جاتی۔ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے والوں میں عمر کی کوئی قید نہ ہوتی۔ بزرگ، جوان، خواتین اور بچے سبھی اس دوڑ میں شامل ہوتے۔ اَن پڑھ اور چھوٹے بچے اپنے بڑوں سے عید کارڈ لکھوا کر اپنے ہم جولیوں کو دیتے، اور یوں عید کارڈ معصوم محبت کا پہلا اظہار ٹھیرتا۔ پھر فلمی دور آیا اور ہمارے ملک میں بھی پڑوسی ملک کی فلموں نے دبنگ انٹری ماری، جس سے ہمارے نوجوان بھی غیر ملکی اداکاروں کے پرستار ہونے لگے۔ یوں ان اداکاروں کی تصویریں عید کارڈ کے نام پر فروخت ہونے لگیں۔ اب ہر عاشق مزاج دوسرے کو اپنی پسندیدہ اداکارہ کی تصویر بطور خاص بھیجنے لگا۔ اسکول اور کالج کے ساتھی بھی ایک دوسرے کو عید کارڈ دیتے، اس بنیاد پر عید کارڈ کو گہری دوستی کی علامت خیال کیا جاتا۔ ایک مشغلہ یہ بھی ہوتا کہ عید کے بعد موصول ہونے والے تمام کارڈز کی گنتی کی جاتی، جن نوجوانوں کو اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ کارڈ آتے اُن کے مزاج نہ ملتے، وہ ایک عجیب فخریہ خوشی محسوس کرتے۔ محبت کے بندھن میں جڑے منچلے عید کارڈ سیاہی کے بجائے اپنے خون سے لکھا کرتے، خونِ جگر سچی محبت کی علامت قرار پاتا، اس طرح لکھے گئے کارڈ گھر والوں سے چھپائے جاتے، بلکہ ذہین لوگ تو ایسی تحریروں کو جلا دیا کرتے تھے، یوں جلتے ہوئے کارڈ کو دیکھ کر محبت میں گرفتار من چلے اپنا دل جلتا ہوا محسوس کرتے۔ عید کارڈ محبت ہی کا نہیں بلکہ مفادات کے حصول کا بھی سبب بنتے۔ کاروباری ادارے اور تجارتی کمپنیاں متعلقہ افراد کو بھی کارڈ ارسال کیا کرتیں۔
بھائی، بہنوں کو عید کارڈ کے ساتھ عیدی بھی بھجوایا کرتے۔ بھائیوں کی جانب سے بھیجا گیا کارڈ پاکر دیارِ غیر میں بیٹھی بہنوں کو بابل کا آنگن یاد آجاتا، میکے میں گزارے ہوئے ماہ و سال ان کی آنکھوں میں گھومنے لگتے۔ بہنیں اپنے بچوں کو ماموں کی طرف سے آیا ہوا عید کارڈ دکھاتیں اور اسے کسی مہنگی ترین جائداد کے کاغذات کی طرح سنبھال کر رکھتیں۔ ان کے نزدیک عید کارڈ کاغذ کے ٹکڑے کے بجائے بھائیوں کی محبت کی نشانی ہوتا۔
کچھ ایسے بھی ہوتے جو اپنے تعلقات اور چاہت کا اظہار یوں کرتے:
عید آئی تم نہ آئے کیا مزہ ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
اور کبھی محبت کے خاص جذبے کے اظہار کے لیے ایسے اشعار کا سہارا لیا جاتا:
اُدھر سے چاند تم دیکھو اِدھر سے چاند ہم دیکھیں
نگاہیں ایسے ٹکرائیں ہماری عید ہو جائے
مگر پڑھنے والے الفاظ پہ کم اور مفہوم پہ زیادہ غور کرتے، اور یوں ایسے اشعار کو بھی آنکھوں سے لگایا جاتا۔ شعروں کے انتخاب سے کبھی کسی کی رسوائی ہوتی، اور بے باکی سے کبھی کوئی زیر عتاب آجاتا۔ بروقت اپنا عید کارڈ پوسٹ کرکے جوابی کارڈ کا انتظار کیا جاتا، دن میں کئی بار ڈاکیے کی راہ دیکھی جاتی اور کارڈ نہ ملنے پر گلے شکوے کیے جاتے۔ دوسری جانب سے کبھی بھول جانے کا عذر پیش کیا جاتا، تو کبھی ڈاک خانے والوں پہ الزام دھر دیا جاتا۔ یہ عام بہانے ہوا کرتے جو شگفتہ معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکیا کبھی جان بوجھ کر عید کے قریب کارڈ لاتا اور عیدی کا مطالبہ کرتا، کارڈ آنے کی خوشی میں ڈاکیے کو کچھ روپے دے کر عید کارڈ موصول کیا جاتا۔ کئی کارڈ عید کے بعد بھی ملا کرتے جس پر بھیجنے والے عزم کرتے کہ وہ آئندہ عید کارڈ ٹھیک وقت پر ارسال کریں گے۔
آہ! وہ کیا زمانے تھے، سیدھے سادے اور سچے لوگ… محبت اور خلوص سے بھرے رشتے… سب ماضی ہوگئے۔ وقت کی رفتار کیا بدلی، سب کچھ بدل گیا۔ آج وہ سب خواب سا لگتا ہے۔ زمانے نے ایسی کروٹ بدلی کہ فارغ رہ کر بھی انسان فارغ نہ رہے، اتنے مصروف کہ گھر کے ایک کمرے میں ایک ساتھ بیٹھنے کے باوجود اجنبی بن گئے، ہر کوئی اپنے اپنے موبائیل میں دیدے لگائے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے درمیان ذہنی فاصلے بڑھ گئے، مہمان نوازی کم ہوگئی، بڑوں سے ادب واحترام کے رشتے زمیں بوس ہوگئے۔ عید پر اپنوں اور غیروں سے بغل گیر ہوکر گلے شکوے دور کرنے اور قومی لباس شلوار قمیص زیب تن کرنے کے بجائے فیشن کے نام پر جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی جینز پہنی جانے لگی، عید پر عزیز واقارب سے خوش گپیاں کرنے کے بجائے سارا دن سوکر گزارنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا گیا، ایسا وقت آیا کہ اب عید کارڈ کی جگہ ایس ایم ایس اور واٹس آیپ میسجز نے لے لی، اسٹیٹس لگا کر وِش کرنے اور لائیک کا نشان لگانے کا دور آگیا، مواصلاتی ترقی کے باوجود اپنوں سے دوریاں بڑھتی گئیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ وقت بدلتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے اور اسے آگے کی طرف جانے سے نہیں روکا جاسکتا، لیکن ہمیں اس کی رفتار کے ساتھ اپنے تہذیب و تمدن اور روایات کو بھی لے جانا ہوگا۔ حالات جیسے بھی ہوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہنا ہوگا، اپنوں کا دکھ بانٹتے ہوئے ماضی کی روایات کے مطابق اپنے تہوار منانے ہوں گے، اور یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ خلوص کے رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں، ان کی قدر کرنے سے ہی معاشرے میں مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔