ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

1087

ہمارا حلقہ احباب بھی خوب ہے کوئی قومی دن آئے یا مذہبی تہوار ملکی سیاسی صورت حال ہو یا ادبی محافل پانی و بجلی کا مسئلہ ہو یا پھر سائنس و ٹیکنالوجی جیسے موضوعات‘ سب دل کھول کر اپنا اپنا موقف پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی کامران عرف کامی تو اس قدر فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ ہر میدان میں بے غم بولنے لگتے ہیں۔ آج کل چونکہ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے ایسے میں بھلا وہ کیسے چپ رہ سکتے ہیں‘ کل کیفے ریحان سے متصل عمارت کی دیوار کے ساتھ کرسی لگائے اپنا مفصل درس دیتے ہوئے فرما رہے تھے:
’’ویسے تو رمضان المبارک کے پورے مہینے کی بڑی فضیلت ہے یعنی پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔ دو عشرے گزارنے کے بعد ہم تیسرے عشرے میں آن پہنچے ہیں میں آپ تمام دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ رمضان المبارک کی آخری تہائی کے نو، دس دن مسلمانوں کے لیے خصوصی جدوجہد‘ عمل اور توجہ و انہماک کے دن ہیں، بیس روز گزر جانے کے بعد یہ ماہِ مبارک پا بہ رکابِ مہمان کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، اس ماہ کا گزرنے والا ایک ایک لمحہ اس کی روانگی و رخصت کی اطلاع دینا شروع کر دیتا ہے،چونکہ یہ مہینہ برکتوں کا ایک وسیع سمندر ہے اور انعامات و سعادت کا کبھی خشک نہ ہونے والا سرچشمہ ہے اس لیے اس کی عظمتوں سے کماحقہ آگاہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے شایان شان طریقے سے الوداع کہنے کے طریقے تعلیم کیے گئے ہیں، جیسا کہ اس ماہِ مبارک کے استقبال کے آداب سکھائے گیے ہیں، ویسے ہی اسے رخصت کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں تاکہ ناواقف و غافل بھی اس کی برکات سے محروم نہ رہے اور رمضان میں کی گئی عبادات و صدقات کے باعث اس کا بیڑا پار ہو جائے۔،،
اپنے واعظ کو آگے بڑھاتے ہوئے یعنی اس ماہِ مبارک کے آخری عشرے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کچھ یوں فرمانے لگے ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پہلے سے زیادہ پُر شوق، تازہ دَم اور سرگرم ہو جاتے تھے، اس عشرے میں خوب ذوق و انہماک سے عبادت کرنے کے لیے پہلے ہی سے تیاری شروع فرما دیتے تھے اور جب یہ دن آجاتے تو آپ کی عبادت کے اعمال و اشغال میں نمایاں اضافہ ہو جاتا تھا۔‘‘
تیسرے عشرے کی بے شمار خصوصیات بیان کرتے ہوئے کامران نے بتایا ’’رمضان کے آخری عشرے کا ایک ممتاز وصف یہ بھی ہے کہ اس میں اعتکاف کیا جاتا ہے، اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے اور دولت مندوں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ کمر بستہ ہو جاتے تھے ساری رات جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے فرمان سے ظاہر ہے کہ اعتکاف اللہ کے لیے ضبطِ نفس، گوشہ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام ہے۔ یہاں میں واضح کرتا چلوں چونکہ سبھی انسان اس مزاج و فطرت کے مالک نہیں ہوتے کہ سب سے ناتا توڑ کر تنہا کسی کونے میں مالکِ حقیقی سے لو لگانے کا خیال ان کے دماغ میں آئے اس لیے سب پر اعتکاف فرض نہیں کیا گیا، ایسے لوگ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں روزہ اور نماز کے ترتیب مکمل کر کے بھی فضیلتیں حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
اسی عشرے پر مزید گفتگو کرتے ہوئے لیلتہ القدر کا مفہوم کچھ یوں بیان کرنے لگے ’’شب قدر کی ایک رات کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے، اس رات میں طلوع فجر تک انوار و ملائک کا نزول ہوتا رہتا ہے، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کے بارے میں بتایا تو اس خوش خبری کو سن کر اہلِ ایمان کی رگوں میں مسرت کی لہر کے ساتھ جذبہ عمل کی بجلیاں دوڑنے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کی تعین کے بارے میں استفسار فرمایا اگر محنت و مشقت پر ابھارنا اور ان کی قوتِ عمل کو بیدار کرنا مقصود نہ ہوتا تو بتا دیا جاتا، فلاں تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے لیکن جذبہ عمل کو مہمیز لگانے کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا جس میں مایوسی بھی نہیں اور ہر طبقہ کا شوق بھی برابر رہتا ہے یعنی اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ سارا سال عبادت کرکے شب قدر تلاش کرو تو اکثریت کی ہمتیں پست ہو جاتیں، اس لیے اس پست ہمتی اور مایوسی سے بچانے کے لیے اللہ کے رسولؐ نے بتا دیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور پانچ راتیں مخصوص فرما دیں کہ وہ آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں، یہی نہیں بلکہ ہم جیسے کچھ لوگ پانچ راتیں جاگنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرسکتے تھے،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیسویں شب کو جاگنے کا مشورہ دیا۔
اس پردہ پوشی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ہر طبقہ کے افراد کو ان کے درجہ کے مطابق عمل و فعل پر ابھارنا مقصود ہے کہ جتنا ہوسکے ضرور جاگ کر اپنے مالک کی رحمت سے جھولیاں بھرنے کی کوشش کی جائے اور عمل سے دست کش ہوکر نہ بیٹھ جائیں۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں‘ اپنے روزوں کی گنتی پوری کریں‘ خصوصاً آخری عشرے میں زیادہ وقت مساجد میں گزاریں‘ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر رحمت،مغفرت اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگیں اسی میں کامیابی ہے ورنہ خسارے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔‘‘
کامران عرف کامی کی جانب سے دیے جانے والے درس کے دوران سب خاموش تھے لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ شمیم المعروف گلو چپ رہے‘ ابھی ہم اس کی خاموشی پر حیرت کا اظہار بھی نہ کر پائے تھے کہ گلو بادشاہ خاموشی توڑتے ہوئے اپنا فلسفہ جھاڑنے لگا یعنی اس موقع پر بھی وہ پیچھے نہ رہ سکا بلکہ کامران سے مخاطب ہوکر اپنی منطق پیش کرنے لگا۔
’’یہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادت تو دین کا حصہ ہیں اس میں کون سی نئی بات ہے۔ بچپن سے یہی کچھ کرتے اور سنتے آئے ہیں‘ یہ سب انفرادی عمل ہیں‘ رمضان کی فضیلت سب جانتے ہیں اور آخری عشرے کی عبادت اعتکاف اور طاق راتوں میں کی جانے والی عبادات کے ثمرات سے بھی ہر شخص واقف ہے‘ یہ ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہیں تم نے جو کچھ بھی کہا اس میں کیا نیا ہے‘ یہ سب کچھ تو مسجد کے منبر سے ہمیشہ بیان ہوتا رہتا ہے بات سیدھی سی ہے وہ عمل جس کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہم پر لازم ہے کہ اسے ہر صورت بجا لانے کی کوشش کریں بصورت دیگر خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ میرا ماننا تو یہ کہ اگر آپ نے قرآن پڑھا تو اپنے لیے، نماز اور روزے کے پابند ہوئے یہ بھی اپنے لیے، حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی یہ بھی اپنی ذات کے لیے، تسبیحات کے ورد بھی اپنے دل کے سکون کے لیے، سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی مخلوق کے لیے کیا کیا؟ انسانیت کی مدد کے لیے کون سے اقدامات کیے؟ اپنی ذات سے باہر نکل کر کسی ضرورت مند کی کس حد تک مدد کی؟ شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا ہے:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اگر اس شعر کو غور سے پڑھا اور سنا جائے تو ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد ہی دوسروں کے کام آنا ہے جس کا عملی مظاہرہ دو روز قبل اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک عمر رسیدہ شخص ننگے پیروں‘ سر جھکائے اپنی پشاوری چپل فروخت کرتا نظر آیا اس باریش شخص اور اس کے ساتھ آٹھ سال کے معصوم بچے کی وضع قطع کو دیکھ کر کوئی بھی شخص کا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اس وقت یہی ہوا یعنی اس کو اس طرح اپنی چپل فروخت کرتے دیکھ کر نہال شیخ سے نہ رہا گیا اور وہ اس سے چپل فروخت کرنے کا سبب معلوم کرنے اس کے پاس جا پہنچے بقول نہال شیخ اس سے پہلے کہ کوئی سوال کیا جاتا اس بزرگ نے روتے ہوئے ساری بات کھول کر رکھ دی اس کا کہنا تھا کہ دو روز سے گھر میں فاقہ چل رہا ہے میرا گھر یہاں سے خاصی دور ہے اس علاقے میں آنے کا واحد مقصد اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا ہے اپنے محلے میں کسی سے فریاد نہیں کرسکتا ایسی صورت میں عزت نفس مجروح ہوگی یہاں آکر اپنی پریشانی بتانے سے بہتر یہی تھا کہ اپنی چپل فروخت کر دوں تاکہ کھانے کا بندوست کر سکوں گھر میں ہیپاٹائیٹس سی کے مرض میں مبتلا بیمار بیوی اور دو بچے ہیں‘ علاج کے لیے پیسے نہیں‘ میری بیوی کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے نہ جانے کب اللہ کو پیاری ہو جائے‘ ایک بیٹا میرے ساتھ ہے مجھے ایک ہزار روپے کی ضرورت ہے کوئی میرے بیٹے کو اپنے پاس گروی رکھ کر دو وقت کے کھانے کے لیے پیسے دے دے میں ایک دو روز میں لی گئی رقم واپس کر کے اپنا بچہ لے جاؤں گا۔ وہ شخص اپنی گھریلو زندگی کا ذکر کرتے ہوئے مستقبل آنسو بہا رہا تھا اس کی داستان سن کر نہال شیخ پر رقت طاری ہو رہی تھی‘ اس کی روداد انتہائی دل خراش تھی۔ نہال شیخ کی جانب سے اس وقت فوری طور پر نہ صرف پورے مہینے کے راشن کا بندوست کیا گیا بلکہ سفری بندوست کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی فراہم کر دی گئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس شخص کے گھریلو حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد اس کی بیوی کے علاج سمیت مستقل طور پر ہر ماہ راشن فراہم کرنے کے بھی اقدامات کیے گیے۔ میرے نزدیک یہی دین اور حکم خداوندی ہے اور یہی سچائی بھی ہے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، یعنی تمام مخلوقات سے افضل اور اعلیٰ ، انسان تمام مخلوقات سے اس لیے افضل ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام آتا ہے، اس کے دل میں ایثار و قربانی کے جذبات پائے جاتے ہیں، اپنے لیے جینا کوئی مشکل نہیں معاشرے میں حُسن تب ہی پیدا ہوتا ہے جب سفید پوش لوگ عزت اور بھرم کو قائم رکھ پائیں اور ضروریاتِ زندگی بھی پورا کر سکیں، اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں‘ بلکہ زندگی گزارنے کے تمام پہلوئوں کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے، ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا، یک جہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا، اخوت، محبت، رواداری اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے، ہم سب اس اجتماعی برائی میں برابر کے شریک ہیں، میرے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کی بروقت مدد کرے، اللہ اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، پھر بھلا وہ کیسے اپنے بندے کو مشکل میں تنہا چھوڑ سکتا ہے، اس لیے یہ بات طے ہے کہ مدد یا ہمدردی کرنے سے اللہ بھی راضی ہو گا اور معاشرہ بھی خوش حال ہو گا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم باوجود آسائشوں کے اس رحمن کے بندوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ جب انسان کو کسی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ ان تمام لوگوں کو بھی آزمائش میں ڈالتا ہے جو اس رحمن کے بندے کا خیال نہیں کرتے۔ جو اس آزمائش میں کامیاب ہو گیا وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہو گیا، اس کے لیے دینا اور آخرت دونوں میں کامیابیاں ہیں۔ نہال شیخ کی جانب سے کیے جانے والے اقدام سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی دردِ دل رکھنے والے ایسے افراد موجود ہیں جن کی کاوشوں‘ خلوص و ہمدردی اور پیار و محبت سے یہ معاشرہ آباد ہے، ایسے درد مند لوگوں کے تعاون سے ہی معاشرے میں تنہا رہ جانے والوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ یقین جانیے انسانیت کی مدد کے عوض ملنے والے اجر کی کوئی حد نہیں، اللہ کی راہ میں آپ ایک دیں گے تو اللہ آپ کو اس کا دس گنا واپس لوٹائے گا۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی دوسروں کی مدد کرنے کے لیے دی ہے، حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قربانی اور ایثار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔‘‘
کامران عرف کامی اور شمیم المعروف گلو بادشاہ کے درمیان ہونے والی تکرار اپنی اپنی جگہ درست ہے اور خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی یہی ہے مجھے ان دونوں کی باتوں میں مماثلت نظر آتی ہے اور پھر مومن کی خصوصیات بھی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے یعنی انسانیت کی مالی و اخلاقی مدد اور فرض عبادات کی ادائیگی کی صورت میں ہی اس دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

حصہ