دہرا قتل: (افسانہ)

293

دوپہر کا وقت تھا۔ آرام کا سوچا ہی تھا کہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نئے محلے میں ابھی کسی سے میری شناسائی نہیں ہوئی تھی۔
’’کون ہو سکتا ہے بھلا؟‘‘ مختلف اندیشوں کے ساتھ میں نے گیٹ کے اندر ہی سے دیکھا۔ کوئی باپردہ خاتون تھیں۔
’’شازیہ! دروازہ کھولو میں صباحت ہوں۔‘‘ یہ تو میرے کالج گروپ کی سب سے شوخ سہیلی صباحت کی آواز تھی، لیکن مختلف سراپا ، پہچان میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ اس نے دوبارہ کہا ’’میں صباحت اسماعیل ہوں۔‘‘ اب شک نہ رہا اور میں نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔ ہم خوب گلے ملے۔
’’تمہیں میرے گھر کا کیسے پتا چلا؟‘‘
’’جس دن تمہاراسامان شفٹ ہو رہا تھا، اُسی دن تمہیں دیکھ لیا تھا۔ مگر پھر مجھے کچھ دنوں کے لیے اپنی بڑی بہن کے گھر جانا پڑا تو ملنے نہیں آسکی۔ یہاں سے تیسرا گھر ہے میرے بھائی کا۔‘‘
’’تو تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اندر نہیں لے جاؤ گی کیا؟ سب کچھ یہیں پوچھ لو گی؟؟‘‘
معذرت کرتے ہوئے میں اُسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ ویسی ہی تھی، سلم اور اسمارٹ اور میں آٹھ، چھ اور چار سال کے تین بچوں کی ماں، جس کی گردن اور پیٹ فربہ اور چہرہ گول ہو چکا تھا اور گھر، شوہر اور بچوں کے سرمائے پر مطمئن اور مسرور۔ پھر ہم باتوں میں مصروف ہو گئے۔
’’تم لوگ تو فائنل کے بعد پیا گھر سدھارگئے، پر میں نے ایم اے کیا، ایڈوانس آئی ٹی کورسز کیے، جابز کیں، زندگی میں قسم قسم کے لوگ ملے پر ایک بات ہے… کہتے ہیں خواتین ہر شعبے میں آگے آئیں۔ لیکن کسی نہ کسی درجہ کے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ مجھے تو جاب کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بھائی کی سپورٹ میں ہوں تو جاب چھوڑ دی۔‘‘
’’تو تم اپنے بھائی کے ساتھ رہتی ہو؟ تم نے شادی نہیں کی؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’لو بھلا کیا میں خود اپنی شادی کر لیتی؟ یہ تو آج کا ہی طریقہ ہے کہ بالا ہی بالا معاملات طے ہو جاتے ہیں اور والدین رسمی طور پر رشتہ لے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا زندہ باد! اب ہمارے گھر کا تو ایسا ماحول نہیں ہے ناں۔‘‘
’’تو تمہاری شادی کیوں نہیں ہوئی؟‘‘ اب تک میری سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’بات یہ ہے کہ میں تمہاری طرح خوب صورت نہیں‘ ہم نہ نکہت ہیں نہ گْل ہیں…‘‘ اُس نے مصرع کی تان اُٹھائی۔
’’پلیز اب پہلے کی طرح بیت بازی نہ شروع کر دینا۔ سیدھے سیدھے بتاؤ مسئلہ کیا تھا؟‘‘
اب وہ سنجیدہ ہو گئی تھی ’’دیکھو! شکل و صورت کی بھی درجے ہوتے ہیں۔ حسین، خوش شکل اور قبول صورت اور میں تمہیں بتاؤں کہ قبول صورت کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔‘‘ اس کا لہجہ اب تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں قبول صورت ہوں، بلکہ شاید بد صورت۔‘‘
’’ایسے نہ کہو، مجھے تو تمہاری شکل میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔‘‘
’’مجھے پتا ہے تمہارا کوئی بھائی نہیں ورنہ…‘‘
میں لاجواب ہو گئی تھی پھر میں نے بات کا رُخ ہی موڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ اب وہ فارغ ہے اور آج کل قرآن کے تلفظ کی درستی اور فہم کے لیے ایک خاتون کے پاس جا رہی ہے اور دین کی حکمتوں کو سیکھ رہی ہے۔
’’تم بھی چلنا کبھی، کلاس میں بہت دل لگتا ہے۔ ویسے لگتا ہے تمہارے ہاں مہمان کو چائے وائے پلانے کا رواج نہیں۔‘‘ اس نے یکدم سنجیدگی سے کہا اور ہم ہنستے ہوئے کچن میں چل دیے۔
باقاعدگی سے تو نہیں مگر کبھی کبھی میں بھی اس کے ساتھ کلاس میں جانے لگی۔ بلاوجہ کی عالمانہ شان سے پاک سلجھی ہوئی گفتگو والی سلمیٰ آپا مجھے بہت اچھی لگی تھیں۔ دین کو حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں یوں سمجھاتیں کہ زندگی آگے بڑھتی محسوس ہوتی۔ اس دن ہم دیر سے کلاس میں پہنچے تھے۔ سلمیٰ آپا اب گفتگو سمیٹ رہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ شادی کے لیے اسلام کا معیار یہ ہے کہ حسب نسب، مال اور حسن و جمال پر دین داری کو ترجیح دی جائے۔ جو لوگ سیدھے راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے بھائی اور بیٹے کی شادی میں انہیں مثال بن کر دنیا والوں کے معیارات کو بدلنا ہوگا۔ صباحت کے پاس بات کرنے کو بہت کچھ تھا مگر لڑکیاں چاہے کتنی ہی عمر کی ہو جائے لڑکی ہی رہتی ہیں، اس مو ضوع پر نہیں بول سکتیں۔ سو صباحت خاموش تھی۔ مگر نشست برخواست ہونے تک خواتین اس موضو ع پر آپس میں بات کرتی رہیں۔
ایک دن مجھے سلمیٰ آپا کی کال موصول ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے دینی سرکل کی ایک خاتون کو اپنے بڑے بیٹے کے لیے فہمِ دین کی حامل لڑکی کی تلاش ہے۔ والد کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کے فرائض میں مصروف رہا۔ اب والدہ اس کا گھر بسانا چاہتی ہیں۔ سلمیٰ آپا نے اس سلسلے میں مجھ سے صباحت کے بارے میں رائے مانگی تھی۔ میں نے لڑکے کے کوائف معلوم کیے اور اطمینان پا کر صباحت کی بھابھی سے ذکر کیا۔ اب مجھے صباحت سے بات کرنی تھی۔ اس نے سنتے ہی کہہ دیا کہ میں نے ایسے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ مگر میں نے اسے سمجھایا۔
’’تم کو تو خود دین کی سمجھ ہے۔ وہ دین دار لڑکی کی تلاش میں ہیں، تو تم کو یہ رشتہ ٹھکرانا نہیں چاہیے۔‘‘
بہر کیف اگلے ہفتے میرے گھر پر ملاقات طے پا گئی۔ وہ دن بھی آگیا۔ سلمیٰ آپا کے ساتھ ایک باپردہ خاتون تھیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ نووارد خاتون گاہے گاہے صباحت پر نظر ڈال لیتیں۔ کچھ دیر بیٹھ کر چائے پی کر رخصت ہو گئیں۔ اب مجھے ان کے جواب کا بے چینی سے انتظار تھا۔ کسی طرح ایک ہفتہ گزار کر میں سلمیٰ آپا کے پاس پہنچی تو انہوں نے بڑی شرمندگی سے بتایا کہ انہیں صباحت پسند نہیں آئی۔ میں بڑی حیران ہوئی۔ انہوں نے صباحت کے بارے میں کچھ پوچھا نہ جانا جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بھی چاند چہرہ ستارہ آنکھوں کی متلاشی تھیں۔ باقی چیزیں تو ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔ میں بہت الجھے خیالات کے ساتھ واپس آئی اور صباحت کو بلا لیا۔ اس کا پرامید چہرہ دیکھ کر مجھے اپنی ہمت کو جمع کرنا پڑا۔ بمشکل بتایا کہ وہاں معاملہ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ سن کر اس کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا اور پھر مسکرائی۔ مگر اس مسکراہٹ میں شیشے کی کرچیاں چُبھی ہوئی تھیں ، میں گھبرا گئی۔ میں نے تسلی دینی چاہی تو وہ آہستہ آہستہ بولی ’’یہ کھیل تو میرے ساتھ بہت دفعہ ہو چکا ہے۔ مگر اس دفعہ اذیت کئی گنا بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کام ان لوگوں نے کیا ہے جو دنیا والوں کو دین کے معیارات بتاتے ہیں۔ پھر اپنے عمل سے بتاتے ہیں کہ یہ معیارات اپنانے کے لیے نہیں بلکہ صرف بیان کرنے کے لیے ہیں۔‘‘
میں نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا ’’مجھے معاف کردو۔ میری وجہ سے تمہیں بہت دکھ پہنچا۔‘‘
’’نہیں! اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ دو ہزار سال پہلے بھی تو لڑکیاں بے گناہ زندہ گاڑ دی جاتی تھیں۔ ان کے جسم قتل ہوتے تھے۔ زمانہ جدید تو اور بھی سفاک ہے۔ جسم رہنے دیتا ہے، روح کو قتل کر دیتا ہے۔‘‘ آنسوؤں کی نمی نے اس کی آواز کو بھگو دیا تھا۔ وہ خاموش ہوگئی اور میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ میرے بھی آنسو رواں ہو گئے۔
میں سوچ رہی تھی کہ یہ تو دہرے قتل کی واردات ہے۔ ایک اس ہنستی بولتی لڑکی کا قتل اور دوسرے اس معیار کا قتل جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا تھا۔ کاش میں نے یہ سلسلہ چھیڑا ہی نہ ہوتا۔

حصہ