اپنے بچوں کی معصومیت کے لئے کھڑے ہوں،مغرب کے والدین بھی چیخ پڑے ہندوستان میں سوشل میڈیا پر حجاب اور گوشت کی گونج
’’والٹ ڈزنی‘‘ کا نام سوشل میڈیا پر اس ہفتہ سوشل میڈیا پر عالمی توجہ لینے میں کامیاب ہوا۔ یہ مت سوچیے گا کہ شاید کسی کارٹون کردار کو متعارف کرایا ہوگا یا کسی نئی کارٹون سیریز یا بچوں کے لیے کوئی منفرد فلم بنائی ہوگی، تو اس کی پروموشن کے سلسلے میں ایسا ہوا ہو…نہیں‘ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ والٹ ڈزنی کے کیلی فورنیا ہیڈ کوارٹر کے باہر سیکڑوں افراد نے کام کاج چھوڑ کر احتجاجی مظاہرہ کیا، بائیکاٹ ڈزنی کے نعرے بلند کیے، یہ سلسلہ وقفوں وقفوں سے اب بھی جاری ہے۔ مظاہرے کا انعقاد ’’کرسچن ایکٹیوسٹ گروپ‘‘ کی جانب سے کیا گیا اور ان کا سلوگن یہ تھاکہ ’’اپنے بچوں کی معصومیت کے لیے کھڑے ہوں۔‘‘ رائج الوقت غالب لبرل تہذیب کے فروغ میں ’’والٹ ڈزنی‘‘ ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ہوا یہ کہ اُن کے انتہائی اعلیٰ عہدیداروں کی کوئی آن لائن میٹنگ چل رہی تھی۔ اِس میٹنگ کا ایک ایسا حصہ وہیں کے کسی باضمیر ملازم نے لیک کردیا، کیوں کہ اس میں گفتگو ایسی ہوئی کہ وہ وہاں کے مغرب زدہ ماحول کے فرد کو بھی پسند نہیں آیا۔ گفتگو کے لیک شدہ حصہ کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ہمیں اپنے 50 فیصد کرداروں کو ایل جی بی ٹی کیو میں ڈھالنا ہے۔‘‘ اس وقت امریکا میں بھی 5 فیصد لوگ ہی اس تحریک سے وابستہ ہیں جو جمہوری اقدار کے مطابق نہ ہونے والی تعداد ہے۔ اب ڈزنی جب اس تحریک کو اپنا ایجنڈا بنائے گا اور اپنے ٹارگٹ عمر کے بچوں میں ایسی ذہن سازی کرے گا تو آپ اندازہ کر لیں کہ کیا منظر نامہ بنے گا۔ مطلب امریکا کے عوام (میں اس وقت کسی اسلامی ملک یا مسلمانوںکی بات نہیں کر رہا۔) اس کے خلاف شدید رد عمل آیا ہے خود عیسائی امریکیوں کی جانب سے BoycottDisney کے نام سے ٹرینڈ مستقل اپنا دائرہ کار بڑھاتا نظر آیا۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ یہ نان ایشو ہے، ہمیں اس کو ایشو نہیں بنانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ امریکا میں بھی نہیں ہے وہاں صرف5% ہیں، مگر 95 فیصد عوام پر مستقل مسلط کیا جا رہا ہے۔ صرف 95 فیصد امریکی نہیں بلکہ دنیا کے اربوں انسانوں، تہذیبوں میں سرایت کرایا جا رہا ہے۔ والٹ ڈزنی امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں اپنا تعارف اور سرایت بچوں کی بلکہ فیملی فرینڈلی تفریح کے عنوان سے جڑا ہوا ہے۔ یہی نہیں اربوں ڈالر لانے والا ادارہ ہے جس میں لاکھوں ملازمین کام کرتے ہیں۔ تھوڑا سا مزید جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ منصوبہ والٹ ڈزنی نے ریاستی قانون سازی کے رد عمل میں کیا۔ میں نے گزشتہ کئی بار متوجہ کیا ہے کہ لبرل اَزم کی اقدار کسی اخلاقی بنیاد پر نہیں کھڑا، اس کی عدم اخلاقیت کے اِظہار کی کئی شکلیں آئے دن ہمیں نظر آتی ہیں۔ لبرل ازم میں آزادی کا جو آئیڈیل ہے اس کو ’’انفرادی آزادی‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی فرد کے حقوق کا یہ تصور جس میں جو فرد چاہے‘ جو فرد مانگے، جو فرد کہے وہ اس کو دیا جائے یا ملنا چاہیے۔ یہ کام یا حقوق کی فراہمی لبرل اَزم قانون سازی سے کرتا ہے۔ اب اس کیس میں دیکھیں یہ کیسے ہوا۔ ریاست فلوریڈا کے گورنر نے ’’تعلیمی بل میں والدین کے حقوق‘‘ کے عنوان سے قانون منظور کیا۔ اس کے بعد وہاں کے ذرائع ابلاغ نے فلوریڈا ریاست کو ’’کنزرویٹیو‘‘ قدامت پسند لکھنا شروع کر دیا۔ یہ قانون سازی گویا والدین کی چاہت کے مطابق ان کو حقوق دینے کے لیے کی گئی۔ قانون کی تفصیل یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں تیسری جماعت تک کسی قسم کی جنسی فرق کی تعلیم نہیں دی جائے گی کیوں کہ وہاں کے تعلیمی اداروں میں ابتدا ہی سے بچوں میں جنس کے حوالے سے مرد، عورت کے علاوہ ہم جنس پرستی کو بھی بطور جنس متعارف کرایا جا رہا تھا جس کے منفی اثرات آ رہے تھے۔ چنانچہ ریاستی گورنر نے قانون سازی کر کے والدین کے حقوق کا تحفظ کیا۔ اب دوسری جانب دیکھیں کہ والٹ ڈزنی کو لگا کہ ایسا کرنے سے آپ کسی ہم جنس پرست کو ہم جنس پرست نہیں کہہ سکو گے تو اس نے منصوبہ بنایا کہ اگر اسکول بچوں کو نہیں سیکھنے دیں گے تو وہ یہ کام اپنے کارٹون سے کریں گے اور اپنے کرداروں کو ویسا کر دیں گے۔
Most adults in the U.S. believe kids age 8 & younger should NOT be taught sexual orientation in school.Those of us who once visited the Mouse House will do so no longer. Sincerely,The Ladies & Gentlemen of America۔
یہ اور اس جیسی کئی دھمکی آمیز ٹوئیٹس امریکی شہریوں کی جانب سے ڈزنی کے اس اقدا م کے لیک ہونے پر سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے زبانی نہیں‘ نظری نہیں بلکہ عملی طور پر سیاحتی دوروں کو ترک کرنے کا فیصلہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری جانب ڈزنی نے بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو فنڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف نکلیں، والدین کے مظاہروں کے جواب میں ڈزنی نے بھی اپنے ملازمین کو نکالا۔ میں نے اس دوران ایک اور بات محسوس کی کہ والٹ ڈزنی کے خلاف مظاہروں کی خبروں کو جامع انداز سے بلاک کیا گیا تاکہ صرف ایک ہی مؤقف جا سکے۔ کچھ ویب سائٹس نے تو اس صورت حال کو تہذیبی جنگ کا عنوان بھی دیا۔ اس ضمن میں ایک جانب فلوریڈا کی حکومت ہے تو دوسری جانب والٹ ڈزنی۔ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یہاں تک تنقید کی گئی کہ ڈزنی کو ہم جنس پرستوں کے حقوق تو یاد آرہے ہیں مگر چینی کمیونسٹ پارٹی کے مظالم پر خاموشی بدترین ہے۔ ریاست فلوریڈا کی ترجمان نے حکومتی بل کی حمایت جاری رکھتے ہوئے ڈزنی کی جانب دارانہ انسانی حقوق پالیسی پر شدید تنقید میں یہ تک کہاکہ ’’حالیہ دنوں ڈزنی نے چین کے صوبے زنجیانگ ہی میں اپنی فلم ’’مولان‘‘ کی شوٹنگ کی، جہاں مذہبی اقلیت کی بنیاد پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرٹنمنٹ کیمپس موجود ہیں جہاں کروڑوں یغور (مسلمانو) انسانوں پر غیر انسانی تشدد اور نسل کشی جاری ہے اور یہ شوٹنگ ان کیمپوں کے اتنا قریب ہوئی کہ وڈیو سے ان کیمپوں کے مناظر کو نکالا گیا۔ بہرحال لبرل ازم کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ مفادات کی سودے بازی کی صورت میں صرف پیسہ و طاقت کے مفادات کو ہی نافذ ہونے کا موقع ملتاہے۔
اس ہفتہ بھارت سے دو ٹرینڈ چلتے چلتے پاکستان پہنچے، مطلب یہ کہ دونوں ممالک میں اتنی مقبولیت ملی۔ ایک تو بھارتی اداکار کی ایک اداکارہ سے شادی کا تھا۔ بالی ووڈ کے یہ مسائل دونوں ممالک میں کسی نہ کسی شرم ناک صورت آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ بھارت میں تو روزانہ دو سے تین ٹرینڈ لازمی فلموں، ڈراموں، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی خوب پیسہ خرچ کر کے یہ کوششیں جار ی ہیں، مگر پاکستانی سیاست میں جب سے پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنی جگہ بنائی اس کے پیچھے باقی پارٹیاں بھی آگئیں اس لیے پاکستان کے موضوعات میں آپ کو سیاست اوّل نمبر پر ملے گی۔ اس کے بعد کھیل وہ بھی کرکٹ، پھر سماجی موضوعات ملتے ہیں۔ خیر شادی کے ٹرینڈ کے بعد جو دوسرا ٹرینڈ تھا وہ #IndianMuslimsUnderAttack تھا۔ جی ویسے تو یہ بھی کوئی نیا ٹرینڈ نہیں، مگر اس کی تفصیل آپ تک پہنچانا شادی والے مسئلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
بھارتی ریاست کرناٹک ، حجاب کے موضوع پر خاصا زیر بحث رہی ، جہاں کی ہائی کورٹ نے کلاس روم میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ دیا تھا۔ اب رمضان المبارک کے ایام میں نیا معاملہ سامنے آیا جب ہندوئوں کے ایک بھگوان کے یوم پیدائش کی 9 روزہ تقریبات بعنوان ’’نواراتری‘‘ بھی انہی دنوں آگئیں۔ اب ہندوئوں کے جلسے جلوس، بی جے پی حکومت تو دوسری جانب رمضان، تراویح، لاوڈ اسپیکر، اذانیں، گوشت۔ بس اس سے آپ خود سمجھ جائیں۔ بھارت بھر میں خصوصا ً4 ریاستوں گجرات، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں ایسے پُرتشدد واقعات کی تعداد 200 کے قریب بتائی گئی ہے۔ اِن حملوں میں ہندوتوا کے بلوائیوں نے مسلمانوں پر منصوبہ بند حملے کیے، حکومتی سرپرستی اس حد تک شامل رہی کہ مسلمانوںکی املاک کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک شخص ہلاک، درجنوں زخمی ہوئے جب کہ درجنوں گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ہندوئو ں کا مؤقف یہ تھا کہ ان کے جلوسوں پر مسلمانوں کی جانب سے پتھرائو کیا گیا جس کے بعد لازمی تھا کہ ہندو بھی اپنا اس طرح کا دفاع کرتے۔ اسی طرح جلسوں سے بات کینٹین تک بھی گئی کہ نئی دلّی کی مشہور جواہر لال یونیورسٹی میں نواراتری کے موقع پر نان ویج یا گوشت والے کھانے دیے جانے پر اسٹوڈنٹس یونین جے این ایس یو اور بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے درمیان جھگڑا 16 طلبہ کو زخمی کر گیا۔ ایشو بڑھا توجنوبی دلی کے میئر نے گوشت فروخت پر پابندی لگا ڈالی۔ مشہور بھارتی صحافی نے جنوبی دہلی کے میئر کی جانب سے ہر قسم کے گوشت کی فروخت کو مذہبی جذبات مجروح ہونے سے جوڑنے پر ٹوئیٹ کیا کہ ’’اگر نواراتری کے دوران گوشت فروخت ہونے کی وجہ سے ’مذہبی جذبات‘ مجروح ہوتے ہیں تو کیا رمضان کے دوران تمام ریستوران بند کر دیے جائیں کیوں کہ مسلمان روزہ رکھتے ہیں؟ کیا جنوبی دہلی کے میئر مہربانی کرکے اس پر روشنی ڈالیں گے؟‘‘ کئی ہندو اپنے طور سے اِن دنوں میں پیاز‘ لہسن اور گوشت کھانے سے گریز کرتے ہیں اس لیے یہ منطق لائی گئی۔ اس پر ایک بنیادی ردِعمل کمرشل اپروچ کے تناظر میں رہا۔امیر لوگ ڈیلیوری سروسز سے گوشت منگوا لیں گے اس لیے یہ صرف قصاب کی چھوٹی دکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔گوشت پر پوری طرح پابندی مقامی چھوٹے تاجروں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔ وہ تباہ ہو جائیں گے۔ اس کا مذہبی جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ لکھنؤ میں بہت سے دکان دار خود سے اپنی دکانیں منگل اور نواراتری کے دوران بند کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور مسلم ٹوئٹر صارف نے ٹوئیٹ کی کہ ’’رمضان کے دوران ہم تقریباً 13 گھنٹے پانی بھی نہیں پیتے! تو وہ (میئر) کیا تجویز کر رہے ہیں؟‘‘ ایک ہندو صارف لکھتے ہیں کہ ’’پھر تو لہسن اور پیاز پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے؟ اور آپ کے خیال میں ہمارے کھانے کے انتخاب کو (دوسروں پر) مسلط کرنا اور گوشت کے تاجروں کو متاثر کرنا کیسے ٹھیک ہے؟ میں ایک ہندو ہوں اور میرا خاندان بھی نواراتری کے دوران نان ویج نہیں کھاتا (میرے علاوہ) لیکن وہ اپنے کھانے کا انتخاب مسلط نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ مسلمانوں پر پولیس اور بلوائیوں کے بدترین تشدد کی کئی نئی پرانی وڈیوز وائرل رہیں، اس دوران بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کرناٹک میں بجرنگ دَل کے ایک کارکن ہرشا کی موت کی ابتدائی تحقیقات مرتب کر تے ہوئے کہا ہے کہ 20 فروری کو ’’ہرشا‘‘ کا قتل کرناٹک میں جاری ’’حجاب‘‘ والے معاملے کی بنیاد پر فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہی بات مقامی پولیس کی تحقیقات میں بھی سامنے آئی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام کڑیاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب باتیں تو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈنگ کے تناظر میں آپ تک پہنچانا ضروری محسوس کی اس لیے ان کو اہمیت دی۔
پاکستان کی سیاسی صورت حال نئے وزیر اعظم کی آمد کے ساتھ انتہائی گرم نظر آئی۔ پاک فوج کے ساتھ گزشتہ حکومت جس طرح ایک پیج پر ہونے کا مسلسل دعویٰ اِسی سوشل میڈیا پر کرتے نہ تھکتی تھی ، آج اسی چیف کا بینڈ بجاتی نظر آئی۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا ایسا بے تکا جذباتی رد عمل دیکھ کر حیرت بھی ہوئی، پھر سب نے ہی محسوس کیا کہ یہ سارے ڈھونگی تو بیرون ملک مقیم ہیں، پہلے ہی مزے کر رہے ہیں، صرف عمران خان کے اسٹارڈم کا شکار ہیں اور زمینی حقائق سے ناواقف و نابلد ہیں۔ ان کو تو ایسے ہی آنسو بہانے چاہیے۔ مگر افسوس اس کا ہوا کہ کیا ’’ادارے‘‘ یہ سب چاہتے تھے کیوںکہ ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ کا ہیش ٹیگ کوئی 55 لاکھ ٹوئیٹ کراس کر چکا ہے اب تک۔ یہ خصوصی رعایت کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ کوئی تین دن بعد جا کر جوابی مطلب ’’باجوہ فار پاکستان “کا ہیش ٹیگ نظر آیا۔ اسی طرح شہباز شریف کے لیے ’’خادم پاکستان‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنا، جب نئے وزیر اعظم نے کراچی دورے پر مزار قائد پر حاضری کے بعد مہمانوں کی کتاب میں اپنے نا م کی جگہ ’’خادم پاکستان‘‘ لکھ کر اپنے منصب کا اعادہ کیا۔ ایک مقامی ہوٹل کی وڈیو بھی سیاست دانوں کی اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے خاصا موضوع بنی رہی۔ بہر حال عمران خان حکومت گئی تو نہایت اخلاقی پستی کے ساتھ تھی مگر یہ بات نمایاں تھی کہ انہوں نے عوام میں اپنا بوگس بیانیہ منتقل کر دیا تھا۔ عمران خان کو پڑنے والے تھپڑ کی کہانیاں بھی سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ لکھ لکھ کر شیئر ہوتی رہیں۔اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر تحریک انصاف نے ’’میں نہیں کھیل رہا‘‘ کا نعرہ بلند کیا، بعد ازاں ’’کسی اور کو بھی نہیں کھیلنے دوںگا‘‘ کا نعرہ بھی اپنے احتجاجی جلسوں کی صورت لگا دیا۔ایک اور اہم بات بتانا ضروری ہے کہ ان سب سیاسی دنگل کے درمیان ’’مشال خان‘‘ کے چاہنے والے یکسو نظر آئے اور اس کی یاد میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنا کر ہی چھوڑا۔ یہ کام وہ اس کی موت کے بعد 2017 سے مستقل کر رہے ہیں اور اس کے باپ کو اس ضمن میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کو ایک محب وطن جوان بنا کر پیش کر رہیں جسے مذہبی بنیاد پرستی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ مگر یہ بتانے سے گریز کر رہے ہیں کہ اس کو مارنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے 60 میں سے 27 لوگوں کو رہائی ملنے پر مقامی آبادی نے پھولوں سے استقبال کیا، یہ استقبال رہائی پر نہیں بلکہ ان کی جرأت پر تھا۔ مقامی آبادی کے علما نے الگ کمیٹی بنا کر اس معاملے کی تفصیلی تحقیق کی تھی جس کے مطابق مشال خان کو بالکل درست مارا گیا تھا اور اتفاق سے اُس کو مارنے والوں میں کوئی کسی مذہبی، دینی جماعت کا فرد نہیں تھا۔سیاسی صورتحال یہ بنی ہے کہ حقائق کو محو کرتے ہوئے سلوگن وبیانیہ مرتب کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک سیکولر جماعت پاپولر مذہبی بیانیے کو ہائی جیک کرکے دوسری سیکولر جماعتوں کے مقابلے پر آکھڑا ہے۔