روزہ تازہ کرنے کی اجازت

482

آج میری چھوٹی بیٹی نے روزہ رکھا اور صبح سات بجے کے قریب اپنی والدہ سے کہنے لگی ’’ماما! میں کچن میں ہوں، یہاں کوئی نہ آئے۔‘‘ جب خاصی دیر ہوگئی تو اس کی ماں نے چھپ کر دیکھا کہ آخر وہ کر کیا رہی ہے؟ معلوم ہوا حریم سحری کا بچا ہوا پراٹھا کھانے میں مصروف ہے۔
حریم کو کھاتے دیکھ کر اس کی ماں نے کہا ’’ارے یہ کیا کر رہی ہو! تمہارا تو روزہ ہے؟‘‘
بولی: ’’آپ یہاں سے جائیں، میں روزہ تازہ کر رہی ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا کوئی بات نہیں، میرے سامنے ہی تازہ کرلو، کچھ اور بھی کھانے کو بنادوں؟‘‘ ماں نے کہا۔
’’نہیں نہیں، آپ جائیں،آپ کے سامنے کھائوں گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔‘‘ حریم نے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔ یوں اس کا روزہ افطار تک کئی مرتبہ ’’تازہ‘‘ ہوتا رہا۔
میری بیٹی کی جانب سے دیے جانے والے اس فارمولے کی کسی کے نزدیک اہمیت ہو یا نہ ہو، لیکن روزہ خوروں کے لیے یہ کسی فتوے سے کم نہیں۔ حریم چونکہ ابھی چھوٹی ہے، اس لیے اس کے روزے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اسے روزہ تازہ کرنے کی اجازت ہے۔اس ساری بات میں اگرکچھ ہے تو وہ یہ کہ اس کی باتوں نے مجھے میرے بچپن میں پہنچا دیا۔ یعنی مجھے میرا بچپن یاد آگیا جب میں بھی روزہ رکھنے کی ضد کیا کرتا اور امی ابو کے سمجھانے کے باوجود جب نہ مانتا تو مجھے ’’چڑی‘‘ روزہ رکھوا دیا جاتا۔ مجھے یاد ہے وہ انتہائی گرمیوں کے دن تھے، پہلا چڑی روزہ رکھتے ہی مجھے پیاس ستانے لگی اور میں بار بار گلی کی جانب جانے لگا۔ دھوپ میں گھر سے نکلتے دیکھ کر امی نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’اتنی شدید گرمی میں باہر کیا لینے جا رہے ہو! گھر میں رہو، لُو لگ جائے گی۔‘‘
میں نے امی سے کہا ’’چڑیا تلاش کر رہا ہوں، بہت پیاس لگی ہے، چڑیا نظر آجائے تو میرا روزہ کھل جائے۔‘‘ کیونکہ میرے نزدیک چڑی روزے کا مطلب چڑیا کو دیکھتے ہی روزہ کھولنا تھا۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ شدید گرمی کی وجہ سے تمام پرندے اپنے گھونسلوں میں جا بیٹھے ہیں اور گرمی میں بھلا وہ کیسے باہر نکل سکتے تھے۔
میری بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے امی نے سمجھایا ’’چڑی روزے کا مطلب چڑیا کو دیکھ کر روزہ کھولنا نہیں بلکہ چڑیا کی طرح کھاتے رہنا ہے۔ تم دیکھتے نہیں چڑیا کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ دانا چگنے لگتی ہے۔ تم بھی کھا لو، چڑی روزے میں اسی طرح کھایا پیا جاسکتا ہے۔‘‘ یوں مجھے چڑی روزے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔
اُس زمانے میں تمام دوست ایک دوسرے سے پوچھتے تمہارا روزہ ہے؟ جواب میں شاید ہی کوئی ’’نہیں‘‘ کہتا۔ اگر کوئی دوسرے کوکھاتے پیتے دیکھ بھی لیتا تو کھانے والے کو یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانا پڑتی کہ میرا ایک داڑھ کا روزہ ہے۔ ایک داڑھ کے روزے میں جبڑے کے ایک جانب سے کھانا پینا جائز ہوتا ہے۔
دن بھر اسی طرح کی سرگرمیوں کے بعد شام ہوتے ہی افطار کا وقت قریب آنے لگتا، یعنی عصر کی نماز کے بعد افطار کا سماں بندھنا شروع ہوجاتا۔ افطار کی تیاری کی وجہ سے یہ دن عام دنوں سے مختلف اور دل چسپ ہوتے تھے۔ سحری بھلے ہی نہ کی جائے، لیکن روزہ نہ ہونے کے باوجود افطاری گھر والوں کے ساتھ دستر خوان پر لازمی طور پر کی جاتی۔ خیر، عصر کی نماز کے بعد باورچی خانہ گرم ہونے لگتا، افطار کے لیے ساز و سامان کی تیاری ہوتی، والدہ اور بہنیں طرح طرح کے پکوان چھان کر ایک طرف رکھتیں اور میں چپکے چپکے پیچھے سے کبھی گوشت کے سموسے تو کبھی کچوری اور پکوڑے لے بھاگنے کی تاک میں رہتا اور جیسے ہی موقع ہاتھ آتا عقاب کی طرح جھپٹا مارتا اور جب تک والدہ کی نظر مجھ پر پڑتی اور وہ ’’ارے …ارے… ارے… رک… رک‘‘ کہتیں، میں نو دو گیارہ ہو جاتا۔
وقت ِافطار تھوڑی تھوڑی چیزیں ایک پلیٹ میں کر کے ہمارے سامنے رکھ دی جاتیں۔ بڑوں کے ساتھ ہم بچے بھی اذان کا انتظار کر رہے ہوتے، ہمارے چہرے سے محسوس ہوتا جیسے شدید بھوک اور پیاس سے جان نکل رہی ہو۔ ہم لوگ افطار کے انتظار میں بے چینی سے مسجد سے اٹھنے والی اذان کی آواز پر کان لگائے رہتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اذان کی آواز پر ابو اپنے کان زیادہ کھڑے رکھتے اور جیسے ہی مائیک پر موذن صاحب کے کھرکھرانے کی آواز آتی وہ فوراً کھجور ہاتھ میں اٹھا لیتے، ہم لوگ بھی انہیں دیکھ کر فوراً کھجور ہاتھ میں لے کر ’’مورچہ‘‘ سنبھال لیتے، اور اذان ہوتے ہی ٹوٹ پڑتے۔ اُس وقت ہماری یہی کوشش ہوتی کہ جو عمدہ اور ذائقہ دار سامان ہے اُس پر پہلے ہاتھ صاف کیا جائے۔
اُس زمانے میں ہمارے گھر میں کئی بار افطار ہوتی تھی… نماز مغرب سے پہلے اور نماز کے بعد، یہاں تک کہ تراویح کے بعد بھی کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔تراویح سے یاد آیا ہم تمام دوست عشا کی اذان سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے۔ بعد نمازِ عشاء￿ جب تراویح شروع ہوتی، پہلی رکعت میں رکوع میں جانے سے قبل ہم دوڑتے ہوئے تراویح میں شامل ہوتے۔ محلے کی مساجد کے ساتھ گلیوں میں بھی خاصی رونق ہوتی۔ رمضان کے آخری عشرے میں تو یہ رونق اپنے عروج پر ہوتی۔ طاق راتوں میں اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگی جاتیں۔
رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل ہی اِس مبارک ماہ کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگتے، اس بات پر ایمان و یقین ہوتا کہ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں یعنی جو لوگ اِس ماہ میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں اُن کی عبادت قبولیت کا درجہ پاتی ہیں یہ تو بچپن کی باتیں تھیں اور حقیقت بھی یہی ہے وقت گزرتا گیا جوں جوں عمر بڑھتی گئی ساری باتیں سمجھنے لگے سمجھ گئے کہ رمضان المبارک نہ صرف جنت کے حصول اور خود احتسابی کا مہینہ بلکہ غریبوں ناداروں اور معاشرے میں تنہا رہ جانے والوں کے سر پر دست شفقت رکھنے کا درس بھی دیتا ہے۔ چور بازاری کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کے لیے بھی بدترین عذاب کا اعلان کرتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں رمضان سے قبل ہی کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں جب کہ اللہ رمضان کریم میں نیکیوں کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ ایک عمل کا ثواب ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ جاتا ہے شاید اس انعام سے ہمارے ملک کے تاجر بے خبر ہیں جب کہ یورپ اور امریکا جیسے غیر مسلم معاشرے میں اس ماہ مبارک کی آمد پر تمام اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کر دی جاتی ہے اور تو اور بھارت جیسے متعصب ملک میں بھی اِس مبارک مہینے میں حلال اشیا پر خاصی رعایت دی جاتی ہے جب کہ ہم اہلِ ایمان ہونے کے باوجود دنیاوی دولت کمانے کی دوڑ میں اپنے نماز‘ روزے اور قرآن تک کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ تمام عبادات کرنے کے ساتھ ساتھ جائز و ناجائز یہاں تک کہ اس ماہ مبارک میں بھی حرام ذرائع سے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں ہیں۔ خدا کے لیے ہمیں اس ماہ کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا ہوگا‘ ہمیں خود احتسابی کے عمل کا آغاز اپنے آپ سے کرنا چاہیے اِس لیے شروع رمضان میں ہی نیکی کے رستے پر چلنے کی نیت کرنا چاہیے۔ نیک کام کرنے اور بھلائی کے کاموں کے لیے آگے بڑھ کر اپنے مال کا کچھ حصہ روزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے، خواہ تھوڑا ہی ہو۔ خشوع وخضوع اور غور و فکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کریں اپنی زبان کو غیبت، چغلی، جھوٹ اور فضول باتوں سے بچائیں۔ نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کریں محلے، مساجد اور دفاتر میں اپنا تلخ رویہ بدل کر ایثار محبت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر نی چاہیے یہی رمضان کا پیغام اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ بھی ہے

حصہ