سادہ دل،عجزو انکسار کا پیکر منظر بھوپالی

1106

بھوپال کا نام کب سنایہ تو یاد نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ علم میں آیا کہ یہ ایک مسلمان ریاست تھی۔ شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’اس بازارمیں‘‘ لکھ گئے ہیں کہ تقسیم سے قبل562 ریاستیں تھیں۔ یہ سب ریاستیں برطانوی راج کے تحت تھیں۔ جزوی طور پر یہ کسی حد تک خود مختار تھیں۔ ریاست کی رعایا راجا مہاراجا اور نوابین کے غلام تو نہیں تھے لیکن ان کے سیاہ وسفیدکے مالک یہی حاکم تھے۔
صرف چندریاستوںکے حاکم مسلمان تھے۔ سب سے بڑی ریاست حیدرآباد (دکن) تھی۔ بھوپال بھی مسلمان حاکم کی ریاست تھی۔ یہ اور بات کہ یہاں چار نسل تک عورتیںحاکم رہیں۔ یہ طریقہ کار اولاد نرینہ کی محرومی کے باعث اختیار کیا گیا۔ چوتھی خاتون حاکم کو اللہ نے بیٹا عطا کیا نام حمیداللہ خان رکھا گیا، پھروہ نواب بھوپال کہلائے۔
ہمارے علم میں دوسری بات یہ آئی کہ نواب بھوپال کی طرف سے علّامہ اقبال کو پانچ سو روپیہ ماہانہ اعزازیہ ان کی رحلت تک جاری رہا۔ علّامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال نے اپنی سوانح ’اپنا گریباں چاک‘ میں اس کی تصدیق کی ہے۔ تیسری وجہ واقفیت کی بھوپال گیس لیک تھی۔ اب سے کوئی تیس سال قبل یونین کاربائیڈ کی فیکٹری میں زہریلی گیس کے لیک ہونے کے باعث سینکڑوںافراد ہلاک ہوگئے تھے چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے ہمارے ملک پاکستان کے دفاع کی بنیاد ’ایٹم بم‘ کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ محسن بھوپالی کا مشہور عالم شعر ہے
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
یہ شعر شاعر اور بھوپال کی شہرت کا باعث بنا۔ انہی دنوں منظر بھوپالی کا یہ شعر سنا:
اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا
ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
دربدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں
بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا
موت سے جو ڈر جائو زندگی نہیں ملتی
جب بھی جیتنا چاہو کشتیاں جلا دینا
راہ جگمگانے کو آشیاں جلا دینا
فتح لازمی ہوگی کشتیاں جلا دینا
2005ء میں دبئی میں قیام تھا کہ ہمارے محترم رفعت علوی کا حکم ہوا کہ منظربھوپالی کا پروگرام رکھاہے اور آج شب ان کی شارجہ ائرپورٹ پر آمد ہے۔ آجانا ساتھ چلیں گے ان کو لینے۔ ہم پہنچ گئے لیکن تاخیر ہو گئی۔ خیال تھا کہ مسافروں کو ساری کارروائی میں کافی وقت لگتا ہے لیکن وہ بہت جلد نکل آئے۔ علوی صاحب گاڑی پارک کر رہے تھے کہ منظر بھوپالی کا فون آ گیاکہ آپ کہاں ہیں، میں باہر آگیا ہوں۔ جواب دیا کہ گاڑی کھڑی کرلی ہے‘ چند منٹ میں پہنچتے ہیں۔ شرمندہ شرمندہ ان تک پہنچے تو بڑی گرم جوشی سے معانقہ کیا، ہم تو سرزنش کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے لیکن وہ اتنی محبت سے ملے اور شکوہ شکایت سب بھول گئے۔ خیال آیا کہ یہ کیسا وی آئی پی ہے (صحیح لفظ تو Celebrity ہے لیکن اپنی کم علمی کہ متبادل لفظ سمجھ میںنہیں آرہا۔) نہ بگڑ رہا ہے نہ اپنی اہمیت جتا رہا ہے بلکہ عاجزی اور انکساری سے کلام کر رہا ہے۔ دل نے کہا کہ ابھی اسے اپنی حیثیت منوانے کے طور طریقے سیکھنے پڑیں گے۔
علوی صاحب گاڑی لے کر آگئے، ہم نے منظر صاحب سے کہا آگے بیٹھیے لیکن انہوں نے آگے بیٹھنے کی ہمیں پیشکش کردی، کوئی جواب دیے بغیر ہم پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئے۔ اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا اور آگے بیٹھنا پڑا۔ ہم نے سوچا کہ اب ہمارا مقابلہ ایک بہت اہم شخصیت (Celebrity)سے ہے۔ زبان اور بیان پر جن کو دسترس ہے۔ لیکن پھر بھی انکساری کا اظہارکر رہے ہیں اور محسوس ہوا کہ ان کی یہ عادت پختہ ہوگئی ہے۔ ان کے مقابلے میں خود کا جائزہ لیا تو وہ کہاوت یاد آئی ’’کہاںراجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔‘‘
مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثر شاعر اس بات پر خفا ہو جاتے ہیںکہ انہیں جونیئر شعرا سے پہلے پڑھوایا۔ علوی صاحب بہت فکر مند تھے۔ عنایت صاحب کا مسئلہ تو یوںحل کیا کہ اُن کی صدارت طے کرلی۔ اب مسئلہ طارق سبزواری اور منظر بھوپالی کا تھا۔ سو منظر صاحب سے مشورہ کیا تو انہوںنے پھر انکساری کا مظاہرہ کیا کہ طارق صاحب ان سے سینئر ہیں اس لیے میں پہلے پڑھوںگا۔
علوی صاحب کے مہمان خانے میں مسلسل دو دن تک بزم سجائی گئی۔ تینوں شعرا کا کلام پسند کیا گیا لیکن منظر کی بات ہی کچھ اور تھی۔ منظر بھوپالی اپنے دلکش ترنّم کے ساتھ غزل سراتھے۔اور سامعین دل ونگاہ فرشِ راہ کررہے تھے۔
منظر بھوپالی کی کتاب ’’اداس کیوں ہو‘‘ کے فلیپ پر ہوائوں کے دوش پر جن کی آواز برسوں بی بی سی اردو سروس کے ذریعے پوری دنیا میں سنی جاتی رہی، لکھتے ہیں ’’میں ہوائوں کا مسافر موج ہوا کا پیغا م بر ہوں، میں نے جب ہوا کو قاصد بنا کر میر و غالب کے حضور یہ پیغام بھیجا کہ ایک نوجوان شاعر اس صدی کو اپنی صدی قرار دے کر کہہ رہا ہے:
کہہ دو میروغالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
توقاصدہواکی زبانی جواب آیاکہ ہماری دعائیںاس کے نام ہیں،جیتے رہویہ صدی واقعی تمہاری ہے،تم اس صدی کی پیشانی پر جگمگاتے رہو،اس تمہیدسے جونام ابھرکرسامنے آتا ہے،وہ نام مشاعروںمیںاس صدی کے سب سے مقبول نوجوان شاعر ،منظربھوپالی کا ہے‘‘۔
دوسرے فلیپ پر معروف پاکستانی شاعر محسن احسان کی رائے دیکھتے ہیں ’’منظر بھوپالی کی آواز ہندوپاک کی سرحدوں سے نکل کر ان سر زمینوں تک پہنچ گئی ہے جہاں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ موجود ہیں۔ وہ غزل کی روح کا شناور ہے جس نے انسان کے اندر جھانک کر اس کے دکھ درد کو سمجھا ہے اور انہیں اظہار کا دلکش قرینہ بخشاہے۔‘‘
امجد اسلام امجد، منظرکے مجموعہ کلام ’’اداس کیوں ہو‘‘ میں لکھتے ہیں ’’وہ اپنے سماج خصوصاً بھارتی مسلمانوں کے مسائل سے نہ صرف جڑا ہوا ہے بلکہ بڑی بہادری اور خوش سلیقگی سے ایسی باتیں بھی کرتا ہے جنہیں اس کے بیشتر ہم عصر بھاری پتھر کی طرح چوم کر چھوڑ دیتے ہیں، وہ کہتا ہے :
اپنے پرکھوںکی وراثت کو سنبھالو ورنہ
اب کی بارش میں یہ دیوار بھی گر جائے گی
ہم نے اس ملک کی تقدیر بدل دی منظر!
پھر بھی ہم ملک کے غدارکہے جاتے ہیں
ڈاکٹرعلی احمدجلیلی اپنے مضمون ’’منظر پر ایک نظر‘ میںاس طرح روشنی ڈالتے ہیں ’’اظہار کی شدت ان کے قلم کو آزاد اور بے باک کر دیتی ہے، چنانچہ طنز کے نشتر جو اس کی سیاہی سے ٹپک پڑتے ہیں وہ دل کی گہرائیوں تک اتر جاتے ہیں۔‘‘
بھوپال کے ایک اہم سپوت محسن بھوپالی جن کی شاعری کے چرچے ایک مدت تک گلی گلی رہے‘ فرماتے ہیں ’’منظر بھوپالی نے اپنا مطمع نظر شاعری کے ذریعے عوام کے دکھ درد و مسائل اور ان کے احساسات کی ترجمانی کے علاوہ اردو زبان کی تبلیغ اور خدمت کو اپنا فریضہ قرار دیا ہے، منظر اپنے اس عہد اور مشن پر قائم ہے۔‘‘ محسن بھوپالی صاحب نے منظر کی چار کتابوں کا ذکر کیا ہے’زندگی‘، ’لہو رنگ موسم‘، ’لاوا‘، ’منظر ایک بلندی پر‘ یہ صدی ہماری ہے اور ’اداس کیوں ہو؟‘ محسن صاحب نے ابتدا میں چار لکھ کر پانچ کے نام درج کیے ہیں، پھر زیر نظر مجموعہ ’اداس کیوںہو‘ ملا کر چھ مجموعے ہوتے ہیں، آخری مجموعہ2004ء میں شائع ہوا تھا اور آج(2022) 18سال گزرنے تک نہ جانے پلوںکے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا ہوگا۔
ڈاکٹر سید فاروق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’غزل، گیت، نعت پاک، حمد و ثنا کون سی ایسی صنف ہے جس میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار نہیںکیا۔ ان کا یہ شعر میرے ذہن میں ہر وقت گونجتا رہتا ہے:
یہ تاج عظمتوںکا یوں ہی نہیں ملا ہے
اللہ کا کرم ہے، ماںباپ کی دعا ہے
ہندوستان میںجہیز کی روایت بلکہ لعنت حیدرآباد (دکن) اور کیرالہ میں انتہا پر ہے۔ عام طور پر عیسائیوں میں جہیز کا سلسلہ کہیں نہیں ہے لیکن کیرالہ وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں عیسائی بھی اس سے لعنت میں مبتلا ہیں۔ اس خاکسار نے دبئی میں اپنی ملازمت کے دوران کئی لڑکیوں کو دیکھا کہ ملازمت کے لیے گھر چھوڑ کر وہاں نوکریاںکر رہی تھیں کہ جہیز کے لیے رقم جمع ہوسکے۔ ہم نے کہا کہ اپنے شہر میں نوکری کیوںنہیں کرتی۔ اُن کا متفقہ جواب تھا کہ لڑکوںکے مطالبات اتنے ہیں کہ انہیں پورا کرنے تک ان کی عمر ساٹھ سال ہو جائے گی۔
پہلے دن شعری نشست کے بعد اعلان ہوا کہ منظر بھوپالی صاحب اپنی تازہ ترین کتاب ’اداس کیوں ہو‘ کی چند کاپیاںساتھ لائے ہیں۔ جن اصحاب کو چاہیے بیس درہم دے کر حاصل کرسکتے ہیں۔
ہمارے ایک قریبی عزیز جن کا تعلق ہندوستان سے ہے ایک کاپی لے کرآئے اور مجھے دکھائی۔ ہمیں بہت تعجب ہوا کہ ہندوستانی ہوکر وہ اردو پڑھنا جانتے ہیں۔ اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، ہند کی سرکار نے اردو کو جڑسے اکھاڑنے کی تحریک برسوںسے چلارکھی ہے۔ ان کے لاشعور میں یہ بات ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس کا رسم الخظ عربی سے مشابہ ہے۔ نئی نسل کے مسلمانوں میں اردو لکھنا پڑھنا جاننے والے خال خال ہیں۔ اور تو اور اداکارہ شبانہ اعظمی جو اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کی صاحبزادی ہیں اور جن کی والدہ شوکت کیفی نے اردو میں اپنی سوانح حیات ’’یادکی گرد‘‘ لکھی ہے ایک پروگرام میں فرماتی ہیںکہ فیض احمد فیض نے اپنی کتاب پڑھنے کو دی تو جواب دیا کہ انہیں اردو لکھنی پڑھنی نہیںآتی۔ انھوں نے اور کئی الٹ پلٹ جواب دے کر اپنی’اہلیت‘ کا ثبوت دیا لیکن اس کا ذکر فضول ہے۔
خیر ہم وہ کتاب لے کر منظر کے پاس گئے اورکہا کہ بھائی اس کے آغاز میں خریدار کا نام لکھ کر اور اپنے دستخط کر کے دو‘یہاںکاطریقہ کار یہی ہے۔ اس پر انہوں نے ایک جملہ خلوص کے ساتھ اس کا نام لکھ کر اپنی دستخط کردیے۔ دوسرے خریدار ہمارے پاکستانی نسبتی بھائی سید فراز وارث تھے۔ انہیں بھی اسی طرح سے لکھ کر دستخط کے ساتھ دی۔ اس کے بعد ہرکتاب لینے والے کو اسی انداز سے کتاب دی۔
پھر ایک دن انہوں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی اوراس پر بڑی خوب صورت تحریر میں لکھا ’’محترم جناب محمود احمد کی نذر، خلوص کے ساتھ‘‘ نیچے دستخط اور تاریخ لکھی 22/8/05 ۔ اورہمیںپیش کی۔ اس وقت تک ہم پڑھ چکے تھے اس کی ابتدا میں درج تھا ’’منظر بھوپالی کا مجموعہ کلام ’اداس کیوںہو‘ ملت کے نونہالوںکے لیے وقف ہے، اس مجموعہ کلام سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی بچوںکو کمپیوٹر تربیت اور ابتدائی تعلیم دینے کے لیے صرف کی جائے گی… ہم ایک ہیں تنظیم…بھوپال‘‘
ہم نے بیس درہم دینے کے لیے نکالے۔ انہوں نے لینے سے انکار کردیا کہ یہ ہمیں تحفے کے طور پر دی ہے۔ ہم بھی اَڑ گئے کہ اس کتاب کی آمدنی تمہاری نہیں، اس تنظیم کو جائے گی۔ اس لیے تمہیں نہیں دے رہا، اس تنظیم میں میرا بھی حصہ شامل ہوجائے۔ اب ایک بحث چل پڑی۔ وہ لینے پر آمادہ نہیںتھا اور ہم دینے پر بضد تھے۔ آخر طوہاً و کرہاً انہیں لیتے ہی بن پڑی۔ یہ کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن ہم اس کامیابی پر بڑے نازاں تھے کہ اتنے بڑے شاعر کو ہم نے لاجواب کر ڈالا۔
دو دنوں کی شعری نشست کے اختتام پر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ میزبانوں کا اس پروگرام سے کوئی تجارتی پہلو نہیں ہے۔ چند لوگوں نے اپنے شوق کی خاطریہ اہتمام کیا ہے۔ صرف عشائیہ شارجہ کے دلّی ہوٹل کی طرف سے تھا جس کا اعلان بھی کردیا گیا تھا۔ اگلے دن علوی صاحب کے مہمان خانے میں بیٹھے تھے کہ منظر نے پوچھا ’’آپ نے مجھے ہوٹل میںکیوں ٹھہرایا؟‘‘
’’تو پھر کہاںٹھہرتے تم؟‘‘
منظرکاجواب تھا ’’ مجھے اس جگہ پر (فرش پر بچھے قالین پر اشارہ کر کے کہا) ایک چادر اور تکیہ دے دیتے۔ میں آرام سے رہ لیتا۔‘‘ اس نے عاجزی اور انکساری کا ایک اور مظاہرہ کیا۔
ہم سوچ میںپڑگئے کہ یہ کیسا آدمی ہے پوری اردو دنیا میں مشہور اور اس قدر سادہ دل، عجز و انکسار کا پیکر۔ ابھی اسی فکر میں تھا کہ اس کے ایک مزید حملے کا سامنا کرنا پڑا ’’آپ نے مجھے بھوپال سے دلّی تک کا واپسی کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ کیوں بھیجا۔ میں ٹرین میں آکر آپ کو بتا دیتا۔‘‘
ہم سر پکڑکر رہ گئے کچھ جواب نہ بن پڑا تو اتنا ہی کہا کہ علوی صاحب نے سب کیا ہے اور ان سے ہی جواب طلب کرو۔ یہاںاس نے ہماری ساری لفاضی کو مات دے دی تھی۔
اب اس کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:
اس کے تیور بو ل رہے ہیں خون بہانا باقی ہے
اور ابھی تو شہروں شہروں آگ لگانا باقی ہے
٭
یقیںہے مجھ کو بازی جیتنے کا فتح میری ہے
میں گل دستے بناتا ہوں وہ شمشیریں بناتے ہیں
٭
طاقتیں تمھاری ہے اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اترائو آئینہ ہمارا ہے
٭
عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جائو گے تجربہ ہمارا ہے
٭
سوچتا ہوں کس دل سے کروں گا اس کو وداع
چند سالوں میںبچی مری جواں ہو جائے گی
اسی مجموعہ میںمنظرکی اہلیہ تبسم منظرکا مضمون :’میرے ہمسفر‘شامل ہے۔وہ لکھتی ہیں:’’میرے ہمسفرمنظربھوپالی ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ان کے ساتھ گزرے صبح و شام کے دوران ان کی شخصیت کی جوتہہ در تہہ پرتیںمجھ پرکھلیںان کااختصاران سطورمیںآئے گا۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں ’’منظر میں غصہ ہے، شدت پسندی ہے لیکن ماں باپ کی خدمت کا جذبہ بھی ہے، بچوں سے والہانہ محبت بھی ہے اور مجھے بھی ٹوٹ کرچاہتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ اپنے شوہر کی دیگر خدمات کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ کہاں کہاں سیاست میں مسلمان امیدواروں کی کامیابی کے لیے تگ و دوکی۔ مزید یہ کہ انہیں خود یعنی تبسم منظر کو بھوپال کی میونسپل کارپوریشن میںکامیاب کرایا۔‘‘

حصہ