ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ“۔
قرآن پاک میں (دوسرے پارہ میں) اللہ کے اس ارشاد کو پڑھ کر میں سوچنے لگی کہ میرا اللہ امت مسلمہ کو بار بار سنبھلنے، اجر کمانے اور تقویٰ اختیار کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے جیسے کہ لاڈلی اولاد کو سنبھلنے کے لیے غلطیوں سے بچنے کے لیے احتیاط اختیار کرنے کے لیے والدین نصیحت کرتے ہیں تا کہ وہ زندگی کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکیں۔ میرا ربّ بھی ہمیں اجر و ثواب کمانے کےل یے موقعے فراہم کر رہاہے تا کہ ہم آخرت کی کامیابی سے اپنے آپ کو ہمکنار کرسکیں (سبحان اللہ)
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں رمضان کے ذریعے پاکیزگی و پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم فرمایا تو ہم اس پرہیز گاری کے لیے کیا اقدامات و لائحہ عمل اختیار کریں۔ گھر میں چھوٹی سی معمولی تقریب کے لیے سمجھدار انسان لائحہ عمل تیار کرتا ہے تا کہ کوئی کمی نہ رہ جائے کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو، مہمان کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے تو کیا ہم اس ”مہمان“ رمضان المبارک کے لیے کوئی خاص اہتمام کرتے ہیں؟ بے شک روز مرہ کے کام ہم ملتوی نہیں کرسکتے لیکن ہمیں رمضان کی مبارک گھڑیوں سے فیضیاب ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے چاہیے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ربّ کو راضی کرنے کے لیے گزار سکیں۔ جیسا کہ رب العالمین نے فرمایا ہے کہ ”پرہیز گار بن جاؤ“۔ (قرآن پارہ 2) تو کیا خود بخودپرہیز گار بن جائیں گے؟ نہیں اس کے لیے ”کچھ تو کرنا ہوگا“۔
کسی خاص مہمان کے لیے ”خاص اہتمام“ کیا جاتا ہے، اس کے آنے سے پہلے اس کی پسند کا کھانا تیار کیا جاتا ہے، گھر کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے، اس کو وقت دینے کے لیے ہر شے پہلے سے تیار کی جاتی ہے تا کہ مہمان کے ساتھ وقت گزاریں تو اس خاص مہمان (جو اللہ ربّ العزت کا مہمان ہے) اس کے لیے تو ہمیں اور زیادہ دل کی گہرائیوں سے اہتمام کرنا چاہیے بلکہ رجب و شعبان سے ”کمرکس“ لینی چاہیے تا کہ جب سے ماہ مبارک کی گھڑیاں شروع ہوں تو ہم بھرپور طرح سے اس سے مستفید ہو کر اللہ کے ”مقرب بندوں“ میں شامل ہوجائیں۔ ماہ رمضان کے طفیل پرہیز گار بننے کے لیے تمام ایکسٹرا (زائد) کام رمضان آنے سے پہلے ہی نمٹا کر فارغ ہونا ضروری ہے۔ عید کی تیاری بازاروں کے چکر وغیرہ رمضان سے پہلے ہی نمٹا کر فارغہوجانے سے یکسو ہو کر عبادت میں وقت گزارا جاسکتا ہے۔ اکثر لوگ بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ عید کی شاپنگ کا مزا تو رمضان میں ہی آتا ہے یہ غلط روش ہے اگر افطار کرنے کے بعد بھی گھر سے نکلا جائے تو تراویح وغیرہ رہ جاتی ہے پھر دیر سے سونے کی وجہ سے تہجد کی سعادت سے بھی بندہ محروم رہ جاتا ہے۔ پھر زیادہ تر خواتین کا وقت رمضان میں کچن میں گزر جاتا ہے، تھک ہار کر ٹوٹی پھوٹی عبادت ہی پر گزارا ہوتا ہے۔ لہٰذا پہلی بات تو یہ کہ کچھ کھانے پینے کی چیزوں کا اہتمام رمضان سے پہلے ہی کرسکتے ہیں تا کہ رمضان میں کم سے کم وقت باورچی کانے میں گزرے۔ پھر سادگی سے افطار و سحری کا اہتمام ہو تو صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک جو بے حد ضروری چیز ہے جس کا بیان کرنا بے حد ضروری امر ہے جس سے ہم میں سے اکثریت غافل ہے وہ ”پرہیز گاری“ جی ہاں ”پرہیزگاری“ جیسا کہ میرا اللہ خود فرماتا ہے ”پرہیز گار“ بن جاؤ کیا ہم نے اس کے لیے کوشش کی؟ کیا ہم نے اپنا محاسبہ کیا کہ ہم سے کہاں کہاں کوتاہیاں سرزد ہورہی ہیں؟ صرف ہمارا بھوکا پیاسا رہنا اللہ کو مطلوب نہیں…. چوری، دھوکا بازی، ناپ تول میں کمی، اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ، میڈیا پر وہی لھوولھب نشریات…. یہ سب خرافات ہمارے وطن عزیز میں کرنے والے ہم مسلمان ہی تو ہیں…. رمضان کے آنے سے پہلے ہی بازاروں میں ذخیرہ اندوز مال چھپا دیتے ہیں یا ناقص مال بازاروں میں لاتے ہیں جیسے ہی رمضان شروع ہوا دگنی قیمتوں پر اشیاءکو سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر جھوٹ، ناپ تول میں کمی، رشوت، دھوکے بازی ہر برائی کا بازار گرام رہتا ہے۔ ساتھ میں مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں یہ کیسی منافقت ہے جس سے ہم چشم پوشی کررہے ہیں یہ تو چند برائیوں کو میں نے بیان کیا ہے نہ جانے اور کون کون سی برائیوں میں ہم ملوث ہیں۔ کچھ خواتین و حضرات سے یہ بھی سنا ہے کہ رمضان میں ٹی وی دیکھنے سے وقت آسانی سے گزر جاتا ہے ”روزہ نہیں لگتا“۔ یہ کیسی مہمان نوازی ہے کہ مہمان تو ہمارے در پر برکتیں نچھاور کرنا چاہ رہا ہے اور ہم ہی اس سے غافل ہیں۔ ”پرہیز گار بن جاؤ“ یہ جملہ ایک مسلمان کے دل و دماغ کے دریچوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ پرہیز گار تو وہی بنے گا جو اللہ سے ڈرے گا، آخرت کے حساب کتاب سے ڈرے گا کہ کہیں زندگی کی لذتوں میں ڈوب کر آخرت کو نہ کھودوں۔ کیا منہ دکھاؤں گا اپنے نبی کو کس طرح اپنے رب کا سامنا کروں گا؟ آخرت کی رسوائی سے کس طرح بچوں؟ اس آخرت کی ذلت و رسوائی اور عذاب سے بچنے کے لیے اس ماہ مبارک کو خلوص نیت اور اخلاص سے گزارنے کا اہتمام کیاجائے تو نہ صرف یہ ماہ مبارک ہمیں رب العزت کی رضا کا موجب بنائے گا بلکہ بندے کے اخلاق، عادات اور سیرت کو بھی سنوارے گا۔ ذہنی و روحانی تازگی اور راحت کا موجب بنائے گا اور اس ماہ مبارک سے جو تربیت قلب حاصل ہوگی اس کا اثر پورا سال رہے گا۔
اسی لیے قدردان ماہ رمضان کے اختتام پر بالکل اس طرح افسردہ ہوجاتے ہیں جیسے کہ اپنے کسی پسندیدہ عزیز مہمان کی رخصتی پر ہوتے ہیں۔ اور سونے پہ سہاگا اگر یہ مہمان متقی و پرہیز گار ہوگا تو اس کی صحبت نے یقینا آپ کے دل پر اثر کیا ہوگا، اسی طرح یہ معتبر ماہ مبارک اکثریت مسلمانوں کو پرہیز گار بنادیتا ہے۔ آئیں ہم سب بھی اس اللہ کے مہمان کو پُرخلوص طریقے سے خوش آمدید کہہ کر اس کے فیض انوار سے اپنے مردہ دلوںکو منور کریں (آمین ثم آمین) اور ”پرہیز گار بن جائیں“۔