میرے ایک دوست انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ فیکٹری کی تمام تر ذمے داریاں انھی کے کاندھوں پر ہیں، اس لیے ہماری طرف آنا، یا ہم سے ملاقات کا وقت نکالنا اُن کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بس انھی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سارے دوست گپ شپ لگانے اُن کی فیکٹری چلے جاتے ہیں۔ اُس دن کچھ فراغت تھی، اس لیے میں اُن سے ملاقات کرنے فیکٹری کی جانب چل پڑا۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی گارڈ روم ہے، کیونکہ میرا اکثر وہاں آنا جانا رہتا ہے اس لیے فیکٹری میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں سمیت تمام ملازمین سے میرا محبت کا رشتہ ہے، یعنی ان سے میری اچھی خاصی سلام دعا ہے۔ جیسے ہی اندر داخل ہوا میری نگاہ گارڈ روم کے ساتھ بنے شیڈ میں ذبح ہوتے بکروں پر پڑی۔ فیکٹری میں درجن بھر بکروں کی موجودگی میرے لیے نئی بات تھی۔ میں ابھی اس سائبان کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ ایک سیکورٹی اہلکار نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:”اگر آپ کو برا نہ لگے تو تھوڑی دیر ہم سے بھی گپ شپ کرلیں۔“
میں بھلا کب فیکٹری کا مالک تھا! اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق تو مالک اور مزدور کے درمیان ہوا کرتی ہے، لہٰذا میں اس کے ساتھ گارڈ روم میں جا بیٹھا۔
گل خان انتہائی شریف النفس، مذہبی اور محبت کرنے والا شخص ہے، لیکن اُس دن وہ خاصا پریشان اور بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ طبیعت کے بارے میں پوچھنے پر کہنے لگا: ”ساری باتیں چھوڑئیے، یہ بتائیں کہ یہ بکرے کس لیے کاٹے جارہے ہیں؟“
”مجھے کیا خبر، میں تو ابھی آیا ہوں، اور ویسے بھی میرا یہاں آنا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، تم یہاں نوکری کرتے ہو، تمھیں مجھ سے زیادہ معلوم ہوگا“ میں نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا۔ میرے جواب پر گل خان چند لمحے خاموش رہا اور پھر لمبی آہ بھرتے ہوئے بولا: ”یہ سب آپ کے دوست کروا رہے ہیں، ہر ماہ اسی طرح 12 بکروں کا صدقہ دیا جاتا ہے، یہ عمل فیکٹری کی ترقی اور بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، ابھی تھوڑی دیر میں صدقے کے نام پر چلائے جانے والے خیراتی ٹرسٹ کے کارندے آئیں گے اور ذبح کیے گئے بکرے ان کے حوالے کردیے جائیں گے، اس طرح فیکٹری مالکان کی جانب سے دیا گیا صدقہ و خیرات قبول ہوجائے گا۔“
گل خان کی جانب سے کی جانے والی باتوں پر میں جو کہہ سکتا تھا کہہ گیا، میرا مطلب ہے میں نے اُس سے کہا ”یہ تو اچھی بات ہے، اس عمل سے تمھیں بھی فائدہ ہوگا، کچھ گوشت تم بھی لے جانا۔ ویسے بھی آج کے دور میں جب بکرے کے گوشت کی قیمت آسمان پر جاپہنچی ہے اس بہانے تمھیں بھی تازہ گوشت مل جائے گا۔“ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ وہ مزید کچھ کہنا چاہتا ہے، مجھے ٹوکتے ہوئے بولا:
”بس جناب بس، رہنے دو، یہاں ہر ماہ اسی طرح بارہ بکرے قربان کیے جاتے ہیں اور سارا گوشت ویلفیئر ٹرسٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ فیکٹری کے مزدوروں کا کام تو صرف فرش کی دھلائی وصفائی کرنا ہے۔ ہمیں چھوڑیے، اس گوشت میں تو چیل اور کوؤں کا بھی کوئی حصہ نہیں، وہ بھی کائیں کائیں کرکے نامراد لوٹ جاتے ہیں۔ آپ یقین کریں میں ایک عرصے سے یہی کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں، اس ساری مشق کا مقصد رسمی طور پر فیکٹری کے اندر جانوروں کا خون بہانا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات اپنی جگہ، میں اپنے گھر کی مثال دیتا ہوں، میرے بچوں نے عید پر گوشت کھایا تھا۔ گھر کے مالی حالات یہ ہیں کہ کبھی چٹنی تو کبھی پیاز کھا کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ میری تنخواہ 18000روپے ہے، بارہ گھنٹے ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد اتنی ہمت نہیں رہتی کہ کوئی دوسرا کام کرسکوں۔ اب اس تنخواہ میں بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست کروں یا دوا دارو کروں! بچے محلے کے مدرسے میں جاتے ہیں۔ انگریزی میڈیم اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب جیب ہی خالی ہو تو اسکول کی فیس اور کاپیوں کتابوں کے اخراجات کہاں سے ادا کروں گا! اچھی درس گاہوں میں پڑھانا غریبوں کے بس کی بات نہیں۔ یہاں بھی امیروں کا ہی راج ہے۔ ہماری حیثیت تو خام مال کی طرح ہے۔ بس دو وقت کی روٹی کے لیے جی رہے ہیں۔ خیر آپ نے ذبح شدہ بکروں کا گوشت گھر لے جانے کی بات کی تھی، تو اس حقیقت کو بھی جان لیجیے کہ اس سے بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ فیکڑی میں ذبح کیے جانے والے بکروں کو ہم اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ویلفیئر ٹرسٹ کی گاڑیوں میں لوڈ کرواتے ہیں لیکن ایک پاؤ گوشت کے بھی حق دار نہیں۔ بڑے لوگ بھی عجیب سوچ کے مالک ہوتے ہیں، انھی اداروں کو صدقہ و خیرات دیتے ہیں جو پہلے ہی کروڑوں روپے کے بینک بیلنس رکھتے ہیں، جن کا کام سڑکوں کے کنارے دسترخوان لگا کر کھانا کھلانے کے نام پر غریبوں کی عزتِ نفس مجروح کرنا اور لوگوں کو بھکاری بنانا ہے۔ میں ایسے کئی سفید پوش گھرانوں کو جانتا ہوں جو فاقہ کشی پر مجبور ہیں، وہ مر تو سکتے ہیں لیکن سڑک کے کنارے لگائے جانے والے دستر خوان سے ایک لقمہ نہیں کھا سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ روزِ حشر رب کے حضور ایسے صدقات و خیرات دینے والے ضرور جواب دہ ہوں۔“
گل خان کی باتوں نے تو میرے ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔ میرے پاس اُس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کبھی سوچتا کہ اگر واقعی صدقہ غریبوں کو بکرے کا گوشت کھلانے کا نام ہے تو اس نعمت سے گل خان جیسے غریب کیوں محروم ہیں؟ کبھی خیال آتا کہ چلو گل خان نہیں اس جیسے کسی دوسرے غریب کو تو پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے، لیکن لاکھ کوشش کے باوجود میرے ذہن میں ابھرتے سوالات نہ تھمتے۔ فوراً ذہن میں آیا کہ اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا، سو قرآن کا سہارا لیتے ہی ایک ایک بات کھل کر سامنے آنے لگی۔ بے شک قرآن ہی وہ کتاب ہے جس میں ہدایت ہے۔ قرآن میں جہاں جہاں صدقے کا ذکر آیا ہے، قرآن وہاں آخرت کا تذکرہ کرتا ہے۔ بس اسی کشمکش کے دوران میں اس نتیجے پر پہنچا کہ صدقے کا اصل مقصد غریبوں کی حاجت پوری کرنا ہے۔ قرآن صدقے سے متعلق ایمان والوں کو حکم دیتا ہے:
”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اُس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے، اور اللہ تعالیٰ کشادگی و الا اور علم والا ہے۔“
”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے، اُن پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔“
”اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمھیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔“
”بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں، ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر ثواب ہے۔“
ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرو۔ ظاہر ہے یہ حکم کسی غریب کو کھانا کھلانا نہیں بلکہ اس کی مالی مدد کے لیے ہے۔ بے شک غریبوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا نیک عمل ہے، لیکن آیتِ قرآنی میں ”اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دینا“ کے الفاظ انسانیت کی معاشی مدد کی جانب واضح اشارہ ہے،اور یہ بھی کہ محتاجوں،غریبوں،یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد،معاونت،حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دینِ اسلام کا بنیادی درس ہے۔دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے،ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دینِ اسلام نے کارِ ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے۔خالقِ کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے۔
ایسی کئی شخصیات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو نہ صرف راہِ خدا میں خرچ کرتی ہیں بلکہ دنیا میں تنہا رہ جانے والوں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گھرانوں کے لیے بہترین مثال ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارے قریبی ساتھی اکبر بدایونی ہیں جو رب کی رضا کے لیے مستقل باعزت طور پر نہ صرف لنچ باکس تقسیم کرتے ہیں بلکہ درجنوں خاندانوں میں ہر ماہ راشن بھی تقسیم کرواتے ہیں، خاص بات یہ کہ ان خاندانوں کی عزتِ نفس کو مدنظر رکھتے ہوئے راشن کی تقسیم رات گئے کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرتے، چونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں مخیر حضرات کے لیے نیکی کی جانب قدم بڑھانے کا ایک پیغام ہے، اس لیے اکبر بدایونی کا نام ظاہر کرنے پر اُن سے معذرت خواہ ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ خدمتِ انسانیت کے تحت ایسے خاندانوں کی کفالت کریں جو معاشرے میں مالی طور پر کمزور ہیں۔
بے شک نفلی صدقہ و خیرات اپنی جگہ، لیکن اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق غریبوں کی مالی مدد ہی اصل صدقہ ہے۔