پچھلے دنوں ہمارے محلے میں ڈکیتی کے دوران ٹارگٹ کرکے ایک نوجوان کی زندگی چھین لی گئی۔ کل میرا اُسی گلی سے گزر ہوا جہاں اس معصوم کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا تھا۔ میرے دوست نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ڈکیتوں کی جانب سے کیے جانے والے فائر کے بعد عثمان بھاگا اور اپنے دوست کے دروازے تک جا پہنچا۔ عثمان نے اپنے دوست کو بتایا کہ ڈاکو موبائل فون چھین رہے ہیں، میں نے صرف اُن کو دیکھا اور انہوں نے مجھے گولی مار دی۔ جب تک اس کا دوست مدد کرتا وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرچکا تھا۔ عثمان فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ گو کہ اس درندگی کو ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن یہ کل کی سی بات لگتی ہے۔ اس سفاکی پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ شہر کراچی میں اس طرح سے ماؤں کی گودیں اجاڑنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، یہاں تو یہ روز کا معمول ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز نے دبنگ انٹری ڈال دی تھی۔ ڈکیتیوں کی تیزی سے بڑھتی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نیا سال کرمنلز کے لیے ’’پستول اٹھا، کرشمہ دکھا‘‘ کا نمونہ بن کر سامنے آیا ہے۔ شہر میں اسی طرح کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اسلحہ کے زور پر کی جانے والی وارداتوں کا گراف اوپر کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔ کرمنلز کی بڑھتی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ڈکیتوں اور قاتلوں کے تازہ دم دستے بلا خوف و خطر کارروائیاں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جس سے ان کی دلیری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ معلوم یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر چور سپاہی کا کھیل کھیلنے کو تیار ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ چور سپاہی کے اس کھیل میں ماضی کی طرح جیت اُن ہی کی ہوگی۔ اُن کے حوصلے بتا رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں بھی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر ان کا ہی راج ہوگا۔
اگر کراچی میں ہونے والی وارداتوں پر نگاہ ڈالی جائے تو سال کے پہلے ہی مہینے میں گھروں، دکانوں میں لوٹ مار کی درجنوں وارداتیں ہوچکی ہیں، جب کہ شاہراہوں پر لوٹ مار کی وارداتوں کی تعداد اب تک سیکڑوں میں پہنچ چکی ہے جو بدستور جاری ہیں۔ شہر میں ہونے والی وارداتوں میں تیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوری 2021ء سے لے کر جنوری 2022ء تک 55 ہزار سے زائد افراد موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے، جبکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، ایسے میں دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ملازمت یا تعلیمی اداروں تک جانے کے لیے یہاں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا زیادہ تر انحصار موٹر سائیکل جیسی سواری پر ہی ہوتا ہے، ایسے میں ان کے ساتھ ہونے والی وارداتیں انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتیں، یعنی اسلحہ کے زور پر ان سے موٹر سائیکل کا چھن جانا انہیں روزگار سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس شہر میں ایسے انوکھے انداز میں ڈکیتیاں ہوتی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ کبھی کئی کئی مکانوں میں، تو کبھی درجنوں دکانوں پر بڑے اطمینان سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر تو ڈکیتوں کے حوصلے اتنے بلند ہوتے ہیں کہ وہ سیڑھی لگاکر ایک گھر سے دوسرے گھر تک بآسانی جا پہنچتے ہیں، کبھی کھڑکی کے راستے، تو کبھی دیواروں پر چڑھ کر گھر کا سامان سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں… اور تو اور گھنٹوں کی کارروائی کے بعد بآسانی فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تالا توڑ گروپ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ گروپ زیادہ تر دکانوں پر ہونے والی وارداتوں میں ملوث پایا جاتا ہے جو بند دکانوں کے تالے کاٹ کر لاکھوں روپے مالیت کا سامان لوٹ لیا کرتا ہے۔ ماضی میں اسی گروہ نے کورنگی کراسنگ، ضیا کالونی، بلال کالونی میں کارروائیاں کیں جس پر متاثرہ دکان داروں نے شدید احتجاج بھی کیا تھا اور وہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ شہر کے کئی علاقوں میں ایک ہی دن میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں پر شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فیکٹری ہو یا گھر، سڑکیں ہوں یا گلیاں… ہر جگہ کرمنلز کی بڑھتی کارروائیوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ اسی شہر میں موجود ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
خیر بات ہورہی تھی معصوم نوجوان عثمان کی۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈکیتی کے دوران جس طرح عثمان کو قتل کیا گیا اس سے پہلے اسی طرح کئی دوسرے نوجوانوں کی بھی زندگی چھین لی گئی، یعنی ایسا کیوں کیا گیا؟ جبکہ اس واردات سے قبل ڈکیتی کی نیت سے آنے والے اپنا ٹارگٹ پورا ہونے پر ایسا نہیں کرتے تھے۔ انہیں موبائل یا نقدی سے غرض ہوتی تھی۔ اب ایسا کیا ہوا کہ ڈکیتی کے بعد لٹنے والے کی جان بھی محفوظ نہیںؔ! ان واقعات کو دیکھ کر میرا شک یقین میں بدلنے لگتا ہے کہ کہیں اس قسم کی کارروائیاں ٹارگٹ کلنگ کا شاخسانہ تو نہیں؟ ظاہر ہے میں کیا، کوئی بھی ذی شعور انسان یہی سوچنے پر مجبور ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو انتہائی خطرناک ہے۔ کاش میری یہ سوچ غلط ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ جب گھروں، بازاروں اور سڑکوں پر بڑھتی وارداتیں شہریوں کے لیے عذاب بن جائیں تو عوام کے ذہنوں میں اسی قسم کے سوالات ابھرنے لگتے ہیں۔ ماضی کے وہ حالات آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں جب درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، شہر کی سڑکیں سنسان ہوا کرتی تھیں، لاقانونیت کا راج تھا، اور جب گلیوں میں اسلحہ لیے دہشت گرد جس کو چاہتے، یرغمال بنالیا کرتے تھے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکے سنائی دیتے۔ اپنے اپنے علاقوں پر قبضے کی جنگ لڑتے ہوئے گروپ جو کسی کے کنٹرول میں نہ تھے، شہر کے باسیوں پر دہشت طاری رکھتے۔ کراچی کے باسیوں نے اُس دور میں درندگی اور لاقانونیت کے وہ مظاہر دیکھے جنہیں یاد کرکے آج بھی ان کی روح کانپ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بسنے والے بڑھتی وارداتوں اور لاقانونیت کو بھی دہشت گردی اور قتل و غارت گری سمجھ کر کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے نتائج بڑے خطرناک نکل سکتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کہیں شہری ایک مرتبہ پھر ان کرمنلز کے ہاتھوں یرغمال نہ بن جائیں۔
اس ساری صورتِ حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری طور پر ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ان گروہوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑھتی ہوئی ڈکیتیوں سے تنگ آئے عوام تنگ آمد بجنگ کے تحت خود مسیحائی کرنے کی ٹھان کر مزاحمت کرتے ہوئے ان ڈکیتوں پر ٹوٹ پڑیں اور شہر کے ہر چوک و محلے سے اس گانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ’’اندھیری راتوں میں سنسان راہوں پر، ایک مسیحا نکلتا ہے جسے لوگ شہنشاہ کہتے ہیں‘‘۔ یعنی لوگ قانون پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں اور اپنی عدالت لگاکر ظالموں، جابروں اور کرمنلز کو سزائیں دینے لگیں۔
ماضیِ قریب میں اس قسم کی صورت حال اُس وقت ہوئی جب دودھ کی دکان پر ڈکیتی کی نیت سے آنے والے، شہریوں کے ہتھے چڑھ گئے اور لوگوں نے دیکھتے ہی دیکھتے خود ہی سڑک پر عدالت لگالی۔ پہلے ان ڈاکوؤں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس دوران دو ڈاکو تو بھاگنے میں کامیاب ہوگئے، جب کہ ایک کو عوام نے پکڑ کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ کورنگی میں پیش آچکا ہے، جہاں ڈاکو کار سواروں کو لوٹنے کی کوشش کررہے تھے کہ علاقہ مکینوں نے ان کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ ہلاک ہونے والے ڈکیت کا ایک مرد اور خاتون ساتھی بھی زخمی ہوئے۔ لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافے کے باعث غم و غصے میں بپھرے عوام کا اس طرح اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑ کر آگ لگانا یعنی عوام میں اس طرح کی سوچ کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے۔ ان کے اس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اربابِ اختیار عوام کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو لوگ قانون ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
سوچیے اگر ایسا ہوگیا تو پولیس کا کیا ہوگا؟ ایسے اہل کار کہاں چھپتے پھریں گے جو خود کرمنلز کے مددگار بنے ہوئے ہیں؟ کیونکہ عوام یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ہر علاقے کے ایس ایچ او کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے علاقے میں کون کیا کررہا ہے؟ کرمنلز چوں کہ اپنا کاروبار جاری رکھنے کی قیمت انہیں بھتے کی صورت میں ادا کرتے ہیں، اس لیے پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ ان کرمنلز کو پکڑنے کے بجائے وہ گلیوں،چوراہوں پر شریف شہریوں کو لوٹ رہی ہوتی ہے، یہ ان کا روز کا کام ہے۔ حتیٰ کہ اگر گلی، محلے میں کوئی تعمیرات ہورہی ہے تو پولیس اہل کار موبائل میں سوار وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں اور گھر والوں سے بے شرمی کے ساتھ ’’چائے پانی‘‘ مانگنے لگتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے ایسے پولیس اہلکاروں پر کہ روزِ قیامت ان راشی پولیس اہل کاروں کا کیا انجام ہوگا، کیا یہ بغیر حساب کتاب ہی جہنم میں بھیج دیے جائیں گے! خدا کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران اپنی صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالیں اور ادارے میں ایمان دار اہل کاروں کو تعینات کریں۔ یہی وہ اقدام ہے جس سے عوام کی نظروں اس ادارے کی عزت بڑھائی جا سکتی ہے، وگرنہ کراچی کے رہنے والے یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کرمنلز کی واپسی کے پیچھے پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کا ہاتھ ہے، اور یہ کہ شہر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی ذمے دار کراچی پولیس ہی ہے، جس کی ناقص پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندی نے شہر کو ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا ہے۔ کراچی کے شہری پولیس کے رویّے سے اس قدر واقف ہیں کہ ہر دوسرا شخص شہر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا ذمے دار صرف اور صرف کراچی پولیس ہی کو گردانتا ہے۔ مجھے کراچی پولیس کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محمکہ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں نہیں چاہتیں کہ کراچی دوبارہ امن کا گہوارہ بنے۔ عوام کی رائے کے مطابق رینجرز کے مقابلے میں محکمہ پولیس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، کراچی آپریشن میں جو اہداف رینجرز نے حاصل کیے، کراچی کا امن اسی کا ثمر ہے۔ پُرامن ہوتے شہر میں ایک مرتبہ پھر جرائم کا سر اٹھانا سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ عوام کے نزدیک ان رپورٹس کی بڑی اہمیت ہے جو 2013ء میں رینجرز حکام نے مرتب کیں، جس کے مطابق اب تک 7900 ملزموں میں سے 6360 کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ 5518 افراد کو بغیر ایف آئی آر کے چھوڑ دیا گیا، جب کہ 313 افراد کو ضمانت ملی اور صرف 188 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کو پولیس کے حوالے کرنے کے بعد ان کا رہا ہوجانا بتاتا ہے کہ ملزمان کی رہائی سیاسی دباؤ یا پھر ’’چمک‘‘ کا نتیجہ تھی۔ جو لوگ عدالت میں پیش کیے گئے، ان کا چالان اتنا کمزور تھا کہ وہ ضمانتوں پر باہر آگئے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ چھوڑ دیے جائیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ شہر میں کیا فرائض انجام دے رہے ہوں گے؟ ظاہر ہے ان جرائم پیشہ ہزاروں لوگوں کا حوصلہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہوگا۔
اس طرح سال 2020ء میں 51 افراد کو مارا گیا اور 332 افراد زخمی کیے گئے، سال 2021ء میں 72 افراد کی ڈکیتوں نے جان لی اور 445 افراد کو زخمی کیا۔ جبکہ رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں 13 افراد کی جان لی جا چکی ہے۔
شہر میں جرائم کی شرح میں اضافہ ایسے ہی ملزمان کی کارروائیاں ہوسکتی ہیں، جنہیں قانون کی سرپرستی حاصل ہو۔ کراچی میں جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سرپرستی کا بنیادی سبب کرپشن اور پیسے کے بل پر ہونے والی تباہ کن سیاست ہے۔ کراچی میں گڈ گورننس کے بجائے حکومت کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ’’گٹھ جوڑ‘‘ عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے دور کرتا جارہا ہے۔ اسٹریٹ کرمنلز کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہوتے جارہے ہیں۔ آخر عوام کب تک دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہیں گے؟ کب تک پولیس سیاسی دباؤ کے تحت مجرموں کو چھوڑتی رہے گی؟
موجودہ خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال میں سندھ حکومت کو مصلحتوں سے بالاتر ہوکر عملی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی دباؤ سے نکل کر جرائم کے خاتمے کے لیے یکساں کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ مجرم چاہے کوئی بھی ہو، جتنا بھی طاقت ور ہو، اس کے خلاف شفاف کارروائی کرنی ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت حیلے بہانے چھوڑے اور نیک نیتی سے ایسے اقدامات کرے جس سے شہر کی فضا کو دوبارہ پُرامن بنایا جاسکے۔