قیصرو کسریٰ قسط (43)

386

ایرانیوں کی فتح کے بعد انطاکیہ کے رومی گورنر کا محل شہنشاہ ایران کی قیام گاہ بن چکا تھا۔ ایک دن پرویز محل کے ایک کشادہ کمرے میں رونق افروز تھا اور اُس کے چند مصاحب مسند سے نیچے، دائیں بائیں، دوقطاروں میں کھڑے تھے۔ نقیب کی آواز سُن کر مختلف محاذوں سے آنے والے ایلچی باری باری کمرے میں داخل ہوتے، اپنی معروضات پیش کرتے اور شہنشاہ سے ہدایات لینے کے بعد رُخصت ہوجاتے۔ آج سب سے پہلے حاضری دینے والی ایلچی نے دمشق کے محاصرے کی خبر سنائی تھی، اس لیے پرویز کے نزدیک دوسرے محاذوں سے آنے والے ایلچیوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ چنانچہ وہ کسی کو مختصر سی ہدایات اور کسی کو اگلے دن پیش ہونے کا حکم دے کر رخصت کررہا تھا۔ سب سے آخر میں نقیب نے سین کا نام پکارا اور شہنشاہ کے مصاحب حیران ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ پرویز نے محل کے داروغہ کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ہمارا خیال ہے کہ آج جن لوگوں کو ملاقات کی اجازت دی گئی تھی، اُن کی فہرست میں سین کا نام نہیں تھا۔ اور ہم جس سین کو جانتے ہیں وہ قسطنطنیہ میں تھا‘‘۔
داروغہ نے ادب سے سرجھکاتے ہوئے کہا۔ ’’عالیجاہ! یہ وہی ہیں اور حضور کے غلام نے انہیں انتظار کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ اِسی وقت حضور کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے پر مصرِ تھے۔ وہ کوئی اہم خبر لے کر آئے ہیں‘‘۔
ایک قومی ہیکل آدمی جس کی چال میں غایت درجہ کی خود اعتمادی تھی کمرے میں داخل ہوا۔ وہ جھک جھک کر سلام کرتا ہوا آگے بڑھا اور مسند کے قریب پہنچ کر سربسجود ہوگیا۔
چند ثانیے کمرے کے اندر خاموشی طاری رہی۔ بالآخر پرویز نے کہا۔ ’’تم رومیوں کی قید میں تھے؟‘‘۔
’’جی، عالیجاہ‘‘۔ اس نے اُٹھ کر ادب سے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ تم نے انطاکیہ پہنچ کر اپنا لباس تبدیل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی‘‘۔
’’عالیجاہ! یہ غلام کسی تاخیر کے بغیر قدم بوسی کو حاضر ہونا چاہتا تھا‘‘۔
’’تم مہمان خانے میں آرام کرو! مابدولت فرصت کے وقت تمہاری سرگزشت سنیں گے‘‘۔
سین کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، اُس نے اپنے بچپن کے ساتھی اور دوست کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’عالیجاہ میں ایک نہایت اہم خبر لے کر آیا ہوں‘‘۔
پرویز نے سوال کیا۔ ’’کیا دمشق فتح ہوچکا ہے؟‘‘۔
’’عالیجاہ! میں قسطنطنیہ کے قید خانے سے چھوٹ کر سیدھا یہاں پہنچا ہوں۔ اس لیے مجھے دمشق کے حالات کا علم نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’تو پھر ہمارے لیے تمہاری کوئی اہم خبر نہیں ہوسکتی۔ بہرحال ہم خوش ہیں کہ تم واپس آگئے ہو۔ ہمیں تمہارا وہاں جانا پسند نہ تھا لیکن تم ایران کی تلواروں کی بہ نسبت اپنی زبان کو زیادہ موثر سمجھتے تھے۔ اب تمہیں یہ اطمینان ہوگیا ہوگا کہ رومی صرف تلوار کی زبان سمجھتے ہیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! میں ایک خوشخبری لے کر آیا ہوں‘‘۔
’’قسطنطنیہ سے ہم صرف ایک خبر سن کر خوش ہوسکتے ہیں اور وہ یہ کہ رومیوں نے ہماری فوج کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے ہیں‘‘۔
’’عالیجاہ قسطنطنیہ میں انقلاب آچکا ہے۔ فوکاس باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے اور رومیوں نے افریقی ممالک کے گورنر کے بیٹے ہرقل کو تخت پر بٹھادیا ہے۔ فوکاس کے جو ساتھی شہنشاہ موریس کے قتل کے ذمے دار تھے گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ہرقل نے حکومت پر قبضہ کرتے ہی میری رہائی کا حکم صادر کردیا تھا لیکن انقلاب سے قبل مجھے قسطنطنیہ کے قید خانے سے جزیرہ قبرص میں منتقل کردیا گیا تھا اور ہرقل کی یہ خواہش تھی کہ میں انطاکیہ کا رُخ کرنے سے پہلے اُس سے ملاقات کروں۔ چناں چہ مجھے دوبارہ قسطنطنیہ جانا پڑا۔ اب حضور کا یہ ناچیز غلام ہرقل کی طرف سے امن اور دوستی کا پیغام لے کر حضور کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ہے‘‘۔
پرویز نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’قسطنطنیہ کے انقلاب کی خبر اب بہت پرانی ہوچکی ہے۔ ہمیں صرف اس بات کا افسوس ہے کہ جنگ میں تاخیر کے باعث ہم قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کا بہترین موقع کھو چکے ہیں۔ اب حملہ کرنے کے لیے ہمیں زیادہ تیاری کی ضرورت ہے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’لیکن ہمارا دشمن مارا جاچکا ہے اور روم کا نیا حکمران، لڑائی کے بغیر، ہمارے جائز مطالبات ماننے کو تیار ہے‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’اگر یہ بات ہے تو ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لیے قسطنطنیہ کے دروازے کھول دیے جائیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! قسطنطنیہ روم کا دارالسلطنت ہے اور اُس کی حفاظت کے لیے لاکھوں انسان جان کی بازی لگادیں گے‘‘۔
پرویزنے تلخ ہو کر کہا۔ ’’تم ہم سے یہ کہنے آئے ہو کہ ہم قسطنطنیہ فتح نہیں کرسکیں گے‘‘۔
’’نہیں عالیجاہ! میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن حالات نے حضور کو روم سے جنگ کرنے پر مجبور کیا تھا، وہ بدل چکے ہیں اور ہرقل، فوکاس کی غلطیوں کی تلافی کرنے پر آمادہ ہے‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’سین! ہمارے ایک بہادر اور وفادار سپاہی کو یہ بار بار ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ اُس کی بیوی نے اُسے رومیوں کا طرفدار بنادیا ہے۔ تم ہمارے ایلچی کی حیثیت سے قسطنطنیہ گئے تھے اور انہوں نے تمہیں قید خانے میں ڈال دیا تھا۔ لیکن اب تم اُس فوج کو راستہ دکھائو گے جو تمہارے لیے قیصر کے محل کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ ہم تمہیں قسطنطنیہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کے ہر اوّل کی کمان سونپنا چاہتے ہیں لیکن تمہارا چہرہ بتارہا ہے کہ تم تھکے ہوئے ہو۔ اس لیے ہم تمہیں آرام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِس کے بعد تمہیں ضروری ہدایات مل جائیں گی۔ مہمان کانے کا داروغہ اس بات کا خیال رکھے گا کہ یہاں تمہارے قیام کے لمحات تمہاری توقع سے زیادہ خوشگوار ہوں۔ اور اگر وہ تمہاری تفریح کے سامان مہیا نہ کرسکے تو تم شہر کے کسی مکان کا دروازہ اپنے لیے بند نہیں پائو گے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! مجھے اپنی تھکاوٹ کا احساس نہیں، ایک غلام کے لیے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل سب سے بڑا آرام ہے لیکن میری بیوی اور بیٹی دمشق میں ہیں اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اگر اجازت ہو تو میں محاذِ جنگ کا رُخ کرنے سے پہلے اُن کا حال معلوم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
پرویز نے قدرے نرم ہو کر کہا۔ ’’یہ بات ہمیں معلوم نہ تھی، ہمارا خیال تھا کہ تم انہیں ساتھ لے گئے تھے اب تم دمشق پہنچ کر ہمارا انتظار کرو۔ ہم بہت جلد وہاں پہنچ جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ دمشق تمہارے وہاں پہنچنے سے پہلے فتح ہوچکا ہوگا اور ہم تمہیں ایشیائے کوچک کے محاذ پر بھیجنے کے بجائے کوئی اور اہم ذمہ داری سونپ سکیں گے‘‘۔
سین نے احسان مندی سے سرجھکاتے ہوئے کہا۔ ’’عالیجاہ! آپ اس غلام کو اعتماد کے قابل پائیں گے‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’اگر کسی وجہ سے دمشق کا محاصرہ طویل ہوجائے تو تمہیں سپہ سالار کی مدد کرنی چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ ہم آئندہ تمہارے منہ سے نصرانیوں کی حمایت میں ایک لفظ سننا بھی پسند نہیں کریں گے‘‘۔ شہنشاہ ایران یہ کہہ کر اُٹھا اور آہستہ آہستہ قدم اُتھاتا ہوا عقب کے کمرے میں چلا گیا۔ حاضرین چند ثانیے کاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے اور پھر آگے بڑھ بڑھ کر سین کو مبارکباد دینے لگے۔
ایک مجوسی پیشوا نے اُس کے کان میں کہا۔ ’’آپ بہت خوش قسمت ہیں اگر آپ کی جگہ کوئی اور اِس طرح کی باتیں کرتا تو شاید اُس کی کھال اُتار دی جاتی‘‘۔
سین نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خوش ہونے کے بجائے یہ محسوس کررہا تھا کہ اُسے مبارکباد دینے والے اُس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
ایک ساعت بعد سین بیس سواروں کے ہمراہ دمشق کا رُخ کررہا تھا۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو بدترین حالات میں بھی مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آج اُس کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی سے زیادہ اسے پرویز کے طرز عمل کے متعلق پریشانی تھی۔ انطاکیہ میں داخل ہونے سے قبل وہ یہ سوچتا تھا کہ شہنشاہ اُسے دیکھتے ہی خوشی سے اُچھل پڑے گا۔ اور نئے قیصر کی طرف سے صلح کے پیغام کو آرمینیا اور شام کی فتوحات سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ پرویز اُس کے لیے صرف ایک شہنشاہ نہ تھا بلکہ بچپن کا ساتھی اور جوانی کا دوست بھی تھا۔ جب محل کے محافظوں نے اُس کا راستہ روک کر اُسے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ جہاں پناہ آج آپ سے ملاقات نہیں کرسکیں گے تو اُس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا تھا۔ اگر داروغہ بروقت مداخلت نہ کرتا تو وہ محافظ دستے کے ایک گستاخ افسر کے منہ پر تھپڑ مارنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ پھر جب شاہی نقیب ملاقات کرنے والوں کے نام پکار رہا تھا تو اُس کا غم و غصہ جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا۔ وہ معمولی افسر جو مختلف محاذوں سے پیغامات لائے تھے باری باری دربار میں حاضری دے کر باہر نکل رہے تھے اور وہ بے بسی کی حالت میں باہر ٹہل رہا تھا کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ شاید داروغہ نے شہنشاہ کو اُس کی آمد کی اطلاع نہ دی ہو۔ کبھی اُسے یہ خیال پریشان کرنے لگتا کہ شاید دربار میں اُس کے رقیبوں اور حاسدوں کا پلہ بھاری ہوچکا ہے۔ پھر جب سب سے آخر میں نقیب نے اُسے آواز دی تو اُس کے سارے گلے جاتے رہے۔ لیکن اِس ملاقات کے بعد اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ انطاکیہ کا فاتح اُس شخص سے مختلف تھا، جسے وہ بچپن سے جانتا تھا اور جس کے لیے اس نے بارہا، اپنی جان کی بازی لگائی تھی۔ شہنشاہ کی سرد مہری سے زیادہ اُسے اِس بات کی شکایت تھی کہ دربار میں بعض ایسے لوگوں نے بھی اُس کی بے بسی کا تماشا دیکھا تھا، جنہیں اُس کے ساتھ آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
انطاکیہ سے روانہ ہونے کے بعد سین خاصی دیر تک اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ محسوس کرتا رہا لیکن اچانک اُس کے دل میں ایک اور خیال آیا اور اُسے مستقبل کے اُفق پر اُمید کی ایک نئی روشنی دکھائی دینے لگی۔ وہ سوچ رہا تھا… کیا شہنشاہ نے مجھے قسطنطنیہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کے ہر اوّل کی کمان پیش نہیں کی۔ کیا میرے رقیب اور حاسد اب کسی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اپنے آقا کی نگاہوں سے گرچکا ہوں۔ شہنشاہ کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں رومیوں کی طرف داری کررہا ہوں اور اب شاید مجھے لڑائی سے خوف آتا ہے لیکن کیا اب یہ ثابت کر دکھانا میرے اختیار میں نہیں کہ ایران کا کوئی سپوت تلوار کے کھیل مجھ سے بہتر نہیں جانتا میں ایک سپاہی ہوں اور ایک سپاہی کا مقام مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا‘‘۔
اب اُس کے ذہن میں قسطنطنیہ کی جنگ کے مختلف نقشے تیار ہورہے تھے لیکن پھر اُسے اپنی بیوی اور بیٹی کا خیال آیا اور اُسے ایک تلخی سی محسوس ہونے لگی… وہ اپنے دل سے پوچھ رہا تھا۔ کیا ایران اور روم کی جنگ ضروری ہے۔ کیا فوکاس کی موت کے بعد پُرانے حالات بدل نہیں گئے۔ کیا رومیوں کے خلاف تلوار اُٹھاتے وقت مجھے یہ خیال پریشان نہیں کرے گا کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ بدعہدی کررہا ہوں۔ جب میں اُسے یہ بتائوں گا کہ مجھے قسطنطنیہ پر چڑھائی کرنے والی فوج کی رہنمائی سونپی گئی ہے تو وہ کیا خیال کرے گی… میں نے ہمیشہ اُسے یہ اُمید دلائی تھی کہ اب روم اور ایران کی دشمنی ختم ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ فوکاس کے ہاتھوں موریس کے قتل کی خبر سننے کے بعد میں نے اُسے یہی تسلی دی تھی کہ میں روم اور ایران کے تعلقات خراب نہیں ہونے دوں گا۔ لیکن اب میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘۔
سین کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ پرویز سے ملاقات کے بعد اُسے یہ یقین ہوچکا تھا کہ جنگ کو روکنا اب اُس کے بس کی بات نہیں رہی… اور اپنے متعلق اُس کا آخری فیصلہ یہی تھا کہ میں صرف ایک سپاہی ہوں۔
(جاری ہے)

حصہ