روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور آدمی کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (ابن ماجہ)
حقیقت میں تو تمام عبادتیں ایک لحاظ سے زکوٰۃ ہی کی تعریف میں آتی ہیں لیکن بطور اصطلاح صرف مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے… زکوٰۃ اصل میں یہ ہے کہ اللہ کا دیا ہوا جو کچھ آپ کے پاس ہے اُس پر اللہ کا حق تسلیم کریں اور اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ چنانچہ روزہ آدمی کے جسم کی زکوٰۃ ہے، اور اس زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ آپ روزہ اس احساس کے ساتھ رکھیں کہ میرے رب نے مجھ پر جو بے شمار احسانات کیے ہیں اور مجھے جسم جیسا عظیم الشان خادم عطا فرمایا ہے، یہ روزہ مَیں اس کے شکرانے کے طور پر رکھ رہا ہوں۔ اگر کسی شخص نے محض اپنی صحت درست کرنے کے لیے روزہ رکھ لیا تو وہ جسم کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ وہ جسم کی زکوٰۃ اُس وقت شمار ہوگا جب کہ وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے جسم میں اس کا حق مان کر رکھا جائے… اسی طرح آپ کے اوقات کی زکوٰۃ ہے، جو وقت بھی آپ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے صرف کریں گے وہ لامحالہ آپ کے وقت کی زکوٰۃ ہوگی… اسی طرح آپ کی قابلیتوں کی زکوٰۃ ہے، جو کچھ قابلیتیں اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں اگر آپ اُن کو خدا کا دین پھیلانے میں، لوگوں کو اس کے دین کا قائل کرنے میں، اور کفر و الحاد کا مقابلہ کرنے میں صرف کرتے ہیں تو یہ چیز آپ کی دماغی اور علمی قابلیتوں کی زکوٰۃ ہوگی… چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی آپ کو دی ہے اُس پر اللہ کا حق ہے، اور جب آپ یہ حق ادا کرتے ہیں تو گویا اس چیز کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
(کتاب الصوم، نومبر 2000ء، ص 243-242)
روزے کی غیر معمولی فضیلت
دوسری تمام نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے۔ مثلاً نماز ایک ظاہری فعل ہے۔ نماز پڑھنے والا نماز میں اٹھتا اور بیٹھتا ہے، رکوع اور سجدہ کرتا ہے، اس طرح یہ ایک نظر آنے والی عبادت ہے۔ اسی طرح حج اور زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے جو فقط آدمی اور اس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے… اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک مخفی شکل ہے۔ مثلاً نہ کھانا اور نہ پینا، اور اسی طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے اُن سے باز رہنا۔ اس مخفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے یا اس کا رب… کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ مخفی فعل اس نے کیا ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی چھپ کر کھا پی لے تو کسی کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ روزہ نہ رکھتے ہوئے بھی کہہ سکتا ہے کہ میں روزے سے ہوں، اور کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ آیا وہ روزے سے ہے یا نہیں۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اس بات کو صرف وہ جانتا ہے، اور اگر روزے سے نہیں تو اس کو بھی اُس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اسی وجہ سے روزے کا معاملہ صرف اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے، اور اسی بنا پر اس میں ریا کا امکان نہیں ہوتا۔ ایک آدمی دنیا کو دکھانے کے لیے بے شک یہ کہتا پھرے کہ میں روزے سے ہوں لیکن حقیقتِ صوم کے اندر اس ریاکاری کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کی اس غیر معمولی فضیلت و قبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار اپنی شہوتِ نفس اور کھانے پینے کو صرف اللہ ہی کی خاطر چھوڑتا ہے، اس لیے وہ بھی اسے آخرت میں بے حد و حساب اجر سے نوازے گا۔
(کتاب الصوم، نومبر 2000ء، ص 36-35)
نیکی کی حرص پیدا کرنا
دوسری احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چاہیے۔ خصوصاً اس حالت میں اُس کے اندر اپنے دوسرے بھائیوں کی ہمدردی کا جذبہ تو پوری شدت کے ساتھ پیدا ہوجانا چاہیے، کیونکہ وہ خود بھوک پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہوکر زیادہ اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے کہ دوسرے بندگانِ خدا پر غریبی اور مصیبت میں کیا گزرتی ہوگی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہوجاتے تھے۔ کوئی سائل اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا۔ اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔
(خطبات، دسمبر 2004ء، ص 167)
انفاق فی سبیل اللہ
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’یہ صبر اور مواخاۃ کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو اس کے گناہوں کی مغفرت کا اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہوگا، اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس روزہ دار کا روزہ رکھنے کا ہے بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔‘‘ (بیہقی)
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بہت خسارے میں ہیں جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیں، ان میں سے خسارے سے محفوظ وہی لوگ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہر طرف خیر کے مصارف ہیں)، اپنی دولت کشادہ دستی سے خرچ کرتے ہیں۔ مگر دولت مندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بہت کم ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)