جام بے طلب ہی کیوں

265

عمومی طور پر میں نے جو ناول پڑھ رکھے ہیں وہ یا تو کسی کی ماضی کی یاد سے وابستہ ہوتے ہیں یا ان میں فکشن کے ذریعے ایک ایسی خلائی دنیا آباد کی ہوتی ہے جس کا تصور عام فرد کی زندگی میں ممکن نہیں۔ ساتھ میں کچھ ناول مذہبی رنگ سے خالی اور کچھ مذہب کے رنگ کو بہت زیادہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ ناول دوسرے ممالک اور ان کے شہروں کی داستانوں پر محیط ہوتے ہیں، اور کچھ خالص محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ناول اپنی مثال آپ ہوتے ہیں اور ان میں صحت مند ادب کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ غرض آج کے ادب میں ناول کی صنف میں ہر طرح کا موضوع صحیح اور غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔
مجھے ’’جام بے طلب‘‘ ان سب صحیح اور غلط کیفیات کو اپنے اندر سمویا ہوا محسوس ہوا۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ حقیقت کے قریب تر جذبات کے عکاسی ہے۔ کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم اس ناول کو اپنی زندگی سے موازنے میں نہیں لے سکتے۔ ایک ایک سطر حقیقت پر مبنی نظر آتی ہے اور انسانی کیفیات کو بیان کرنے کا خوب صورت عنصر محسوس ہوتا ہے۔
جہاں تک بات ہے منظر نگاری کی، تو کتاب کا سرورق ہی کامیاب منظر نگاری کا ثبوت دے رہا ہے۔ اجیہ کا ایک خواب جو اس نے پورا ہوتے دیکھا۔ پُرسکون، شفاف… اللہ کی نعمتوں سے بھرا ہوا۔ ایک کامیاب لکھاری کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ منظرنگاری میں وہ عناصر پیدا کرتا ہے کہ قاری اس میںکھو جائے اور کہانی کے ساتھ ساتھ ایک فلم کی اسکرین دیکھنے کی مانند اس میں بہنے لگے۔ شفا باجی اس معاملے میں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں کہ ناول پڑھتے وقت اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں کہاں سے نیا رخ موڑ لیا ہے اور اب ایک نئی صورتِ حال سامنے ہے۔ بلاشبہ یہ ناول طویل ہے لیکن قاری کو اس میں کہیں بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔
ناول کا آغاز ایک انجانی فون کال سے ہوتا ہے جو آخر تک ایک ڈرامائی تجسس برقرار رکھتی ہے اور دو دوستوں کی دوستی کو بھی خطرے میں جھونک دیتی ہے۔ اگر کرداروں کی بات کی جائے تو سارے کردار ہی معمولی اور حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں، خاص کر ہیرو اور ہیروئن جن میں کوئی خاصیت نہیں پائی جاتی، خوب صورتی کا کوئی عنصر موجود نہیں، اور نہ ہی ان کی ذاتی خوب صورتی کو بیان کیا گیا ہے، بلکہ ان میں تو کئی خامیاں ہیں جنہیں پورے ناول میں سلجھایا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس میں ہر ہر لفظ دین کے خوب صورت وصف کو لیے ہوئے ہے خواہ وہ قاسم کا کلب جانا ہو، دیارِِ غیر میں صبا کا ناصر کے لیے انتظار کرنا ہو‘،اجیہ پر حملہ ہو، نازیہ کی بیماری ہو، حوصلوں کی کمی ہو، سرمد کی ملاقات ہو اور پھر آخر میں شکرِ باری تعالیٰ ہو، لمحہ بہ لمحہ اس ناول سے ایک اسلامی ادب کی مہک آتی محسوس ہوتی ہے۔ اس ناول میں دوستی، محبت، رشتے، خلوص، کاروباری مسائل، لین دین، بلیک میلنگ اور نفسیات کو بہت اچھے انداز سے پیش کیا گیا ہے، ہاں کچھ جگہوں پر خلا باقی رہا جہاں مزید وضاحت اور منظر نگاری ہوسکتی تھی، کردار بھی مزید مضبوط ہوسکتے تھے۔ لیکن پوری کہانی کا پلاٹ ایسا جان دار ہے کہ وہ کمیاں نظرانداز کردینے سے ناول کی صحت پر کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑے گا۔ اس ناول کو میں نے سطر اوّل سے آخری سطر تک پڑھا ہے۔ شفا ہما بہت مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اس عمر میں یہ ناول لکھ کر بڑا کام کر دکھایا اور ادبی میدان میں اُن لکھاریوں کے حوصلے بلند کیے ہیں جو اپنے ادبی ناولوں کو کہیںچھپا کر بیٹھے ہیں۔ یہ ناول بن مانگا جام ہے جو بے یقینوں کو یقین بخشے گا، جو جوانوںکو پیروں کا استاد کرے گا۔
اب آپ کو بھی پڑھ کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ناول کیسا ہے؟

حصہ