الرجی کیا ہے:
روزمرہ زندگی میں ہمارا واسطہ بہت ساری ایسی چیزوں سے پڑتا ہے (جو کہ کیمیائی اعتبار سے پروٹین ہوتی ہیں) جن کے مضر اثرات سے بچاؤ کیلئے ہمارا مدافعتی نظام فوراً کام شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ہمارا یہ مدافعتی نظام کمزور پڑجائے تو مضر چیز تو دور کی بات، غیر مضر چیزیں بھی بسا اوقات ہمارے جسم میں ایک ردعمل پیدا کردیتی ہیں جو مختلف علامات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جسے ہم الرجی کہتے ہیں۔ ایسی پروٹین (بیرونی اشیاء) جو الرجی پیدا کریں، ’’الرجن (Allergen)‘‘ کہلاتی ہیں۔
الرجی کی اقسام: الرجی مختلف قسم کی ہوسکتی ہے مثلاً سانس کی الرجی جسے دمہ کہتے ہیں، ناک کی الرجی یعنی نزلہ، آنکھوں کی الرجی، آنتوں کی الرجی، خوراک کی وجہ سے جلد اور ہونٹوں کی الرجی جس میں جلد کا سرخ ہونا، خارش، سوزش وغیرہ اور ہونٹوں کا پھول جانا وغیرہ شامل ہیں۔
الرجی والی اشیاء کو کیا کہتے ہیں:
جب بیرونی اشیاء انسانی جسم میں داخل ہوتی ہیں تو وہ جسم میں ایک ردعمل پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے مدافعتی نظام ایک خاص قسم کا جزو بناتا ہے جسے ہم اینٹی باڈی کہتے ہیں، مگر الرجی کی بیماری میں اینٹی باڈی کی ایک قسم جسے IgE کہتے ہیں، معمول سے بہت زیادہ مقدار میں بننا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ردعمل جسم میں داخل ہونے والی اشیاء کے خلاف ہوتا ہے جنہیں ہم الرجن یا اینٹی جن کہتے ہیں۔
الرجن کیسے جسم میں داخل ہوتا ہے:
یہ مختلف ذرائع سے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ مثلاً سانس کے ذریعے، خوراک کے ذریعے، جلد کے ذریعے یا پھر پٹھے میں انجیکشن کے ذریعے۔
پولن الرجی کیا ہے:
موسم بہار میں پھولوں کے ذرات جنھیں ہم زردانے بھی کہتے ہیں جب حساس لوگوں کے جسم میں داخل ہوجائیں تو یہ جسم میں مختلف علامات پیدا کردیتے ہیں۔ اسے ہم پولن الرجی کہتے ہیں۔ ویسے تو زردانے تقریباً ہر پودا پیدا کرتا ہے مگر وہ پودے جو خوبصورت اور رنگین پھول پیدا نہیں کرتے یعنی سادہ قسم کے ہوتے ہیں جیسے درخت، جھاڑیاں، گھاس وغیرہ، ان کے زردانے زیادہ تر حساس لوگوں میں الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بہت چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں جو خوردبینی آنکھ یعنی مائیکرو اسکوپ سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ زردانے ہوا، پانی، کیڑے مکوڑوں یا جانوروں کے بالوں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے پھیل سکتے ہیں۔ بہت سے درخت، گھاس اور پودے بہت چھوٹے اور ہلکے زردانے پیدا کرتے ہیں جو ہوا کے ذریعے چار سو میل دور اور ہزار میٹر اونچائی تک جاسکتے ہیں۔ زردانے موسم بہار میں بہت زیادہ مقدار میں ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے حساس مریضوں کو چاہیے کہ وہ ایسے اوقات میں باہر نکلنے سے گریز کریں یا پھر احتیاطی تدابیر کے بغیر باہر نہ جائیں جب ان زردانوں کی موجودگی زمین کی سطح پر زیادہ ہو۔ یہ اوقات مندرجہ ذیل ہیں: صبح پانچ بجے سے دس بجے تک پولن بہت زیادہ مقدار میں زمینی سطح پر ہوتا ہے، اس وقت پودے زیادہ پولن پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح شام پانچ بجے سے آدھی رات تک پولن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمینی سطح پر ٹھنڈی آب و ہوا اور نمی جذب کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پولن بھاری ہوتا ہے اور زمین پر موجود رہتا ہے۔ باقی اوقات میں جیسے جیسے موسم گرم ہوتا جاتا ہے، زردانہ ہلکا ہوکر ہوا میں دو ہزار میٹر تک اٹھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پولن کی مقدار گرم اور خشک دنوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ نمی والے روز ان کی مقدار کم ہوتی ہے۔
پولن الرجی کن لوگوں میں ہوتی ہے:
یہ بیماری کسی بھی وقت کسی کو بھی لگ سکتی ہے۔ اس کے لگنے میں عمر، جنس، قومیت، مالی یا دوسری سوشل حالتوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ مگر تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں میں اس بیماری کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
کیا الرجی موروثی بیماری ہے:
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ صرف پولن الرجی ہی نہیں بلکہ مختلف قسم کی الرجی موروثیت ظاہر کرتی ہے۔ اگر کسی شخص کے دونوں والدین الرجی کے مریض ہیں تو اس شخص یا اس کے بہن بھائیوں میں الرجی ظاہر ہونے کے امکانات پچاس تا پچپن فیصد تک ہوتے ہیں۔ اگر والدین میں سے ایک الرجی کا مریض ہے تو بچوں میں یہ امکان کم ہوکر تیس سے چالیس فیصد رہ جاتا ہے۔ اسی طرح قریبی رشتہ دار یعنی نانا، نانی، دادا، دادی، یا خالاؤں، ماموئوں، چچاؤں، پھوپھیوں میں ہو تو الرجی کی شدت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
پولن کے علاوہ اور کون سی چیزیں الرجی پیدا کرسکتی ہیں:
پولن کے علاوہ دھول، مٹی، ڈسٹ مائٹ، تھریشر کی دھول، پھپھوندی، بلی، کتے کا فضلہ، فر یعنی جانوروں کی کھال اور جلد، پرندوں کا فضلہ، تھوک، لال بیگ، شہد کی مکھی، اور بھڑ کا زہر، سگریٹ، گاڑیوں اور ایندھن کا دھواں، بلڈ پریشر، شوگر، دردوں کی دوائیاں، مختلف اسپرے، کارخانوں سے نکلا دھواں، کیمیکل کا اخراج، وارنش، پینٹ(Paint) کے آبی ذرات، اور کچھ ڈبوں کی خوراکیں جن میں خوراک کو محفوظ رکھنے والے کیمیکل، اس کے علاوہ انڈے کی سفیدی، مچھلی، گوشت، مونگ پھلی، دودھ اور کچھ دالیں وغیرہ الرجی پیدا کرسکتی ہیں۔ خواتین میں میک اپ کی اشیاء، سرف، صابن، بلیچ وغیرہ بھی الرجی پیدا کرسکتے ہیں۔ بعض دفعہ دھوپ بھی الرجی کا باعث بن سکتی ہے، مگر اکثر اس کے پیچھے دیگر طبی وجوہات ہوتی ہیں۔
پولن الرجی سے بچاؤ کی تدابیر:
پولن کے موسم میں جب پھول کھلتے ہیں تو ہوا میں پولن خاصی مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ مریض کو مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں:
1۔ اگر آپ پولن الرجی کے مریض ہیں تو بلاوجہ باغات، جنگلات، یا زیادہ تر درختوں والی جگہ میں بغیر احتیاطی تدابیر کے جانے سے پرہیز کریں۔
2۔ پھول نہ سونگھیں۔
3۔ گھر کے چمن میں بہت زیادہ پھول نہ لگائیں، درخت مثلاً سفیدہ، جنگلی شہتوت، سنتھا کی باڑ، بوتل، برش، گل خیرا وغیرہ نہ اگنے دیں۔
4۔ پولن کے موسم میں گھر کی کھڑکیاں بند رکھیں تاکہ پولن اور دھول اندر نہ آئے۔
5۔کپڑے بہت زیاد دیر باہر نہ نکالیں۔ کیونکہ ان پر پولن، دھول اور ہوا میں موجود دوسرے خوردبینی ذرات بیٹھ سکتے ہیں جو حساس لوگوں میں الرجی کا باعث بنتے ہیں۔
6۔ اگر آپ باہر سے گھر میں داخل ہوں تو کپڑے بدلیں اور نہالیں تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ جو پولن اور گرد بالوں پر بیٹھی ہے وہ ہٹ جائے۔
7۔ پولن کے موسم میں چشمہ استعمال کریں اور کانٹیکٹ لینس سے اجتناب برتیں کیونکہ کبھی کبھی پولن کے ذرات لینس کے نیچے پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں میں الرجی اور انفیکشن ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
8۔ اگر کہیں باہر سفر کررہے ہوں تو گاڑی کے شیشے بند رکھیں تاکہ دھول، پولن اور دوسری چیزوں سے بچا جاسکے۔
9۔ پولن کے موسم میں اخبار، ٹی وی کے ذریعے پولن کاؤنٹ کی آگاہی رکھیں اور اپنے کام کا ٹائم ٹیبل اس کے مطابق بنائیں۔ اور ان اوقات میں جن میں پولن کاؤنٹ زیادہ ہوتا ہے، احتیاط سے کام لیں۔
10۔ ہمیشہ ایک اچھے فلٹر ماسک کا استعمال کریں جو دھویں، دھول اورگیس کے آبی بخارات سے بچا ہوتا ہے۔
11۔ گھر کے اندر غیر ضروری پودے نہ رکھیں۔
الرجی سے بچاؤ کے علاوہ دوسری احتیاطی تدابیر کیا ہیں:
1۔ گھر میں قالین کم سے کم بچھائیں، کیونکہ اس کے ریشے میں دھول پھنس جاتی ہے جو حساس لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے۔
2۔ حساس لوگ اور دمہ کے مریض بیڈروم میں قالین رگ وٖغیرہ نہ بچھائیں۔ اور قالین، صوفوں، پردوں کو ویکیوم سے صاف کریں۔ اس کے علاوہ غیر ضروری فرنیچر بھی کمروں میں نہ رکھیں اور دھول صاف کرنے کے لیے ویکیوم یا گیلا کپڑا استعمال کریں۔
3۔ کپڑے الماری میں لٹکائیں تاکہ کم سے کم دھول آئے۔
4۔ استعمال کے جوتے بھی الماری یا کسی ڈبے میں رکھیں تاکہ گردو غبار نہ ہو۔
5۔ حساس لوگ پالتو جانوروں سے اجتناب کریں اور کمروں میں بلی، کتا، خرگوش اور پرندے وغیرہ نہ رکھیں، کیونکہ ان کے بالوں، تھوک اور فضلہ سے بھی الرجی ہوسکتی ہے۔
6۔ وال پیپر کا استعمال نہ کریں اور نہ ہیStuffed کھلونے رکھیں، کیونکہ ان میں دھول اور نمی کی وجہ سے ڈسٹ مائٹ کی افزائش ہوسکتی ہے۔
7۔ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کا استعمال، روم کولر کے مقابلے میں سودمند ہے۔ کیونکہ کولر نمی میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر ماہ ایئرکنڈیشنر کا فلٹر صاف کریں، کیونکہ ہوا میں پھپھوندی کے بیج باہر سے آکر اس پر جمع ہوجاتے ہیں، جو کہ الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔
8۔ دمہ اور الرجی کا مریض اپنے کمرے اور دفتر کی ہوا صاف کرنے کے لیے ایئر پیوری فائر (Air purifier) لگوا سکتا ہے۔
9۔ جب بھی موسم بدلے تو موسمی اثرات خشک ہوا، بارشوں میں نمی یا ٹھنڈ کی وجہ سے الرجی اور چھاتی کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں، ایسی صورت میں الرجی کے مریض کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ایک دم یخ بستہ کمرے سے گرم، یا گرم کمرے سے ٹھنڈی ہوا میں نہ نکلے۔ کمرے کا درجہ حرارت نارمل کرے، پھر کمرے سے باہر نکلے۔
10۔ کچن، غسل خانہ گیلے نہ رکھیں کیونکہ پھپھوندی کائی کی صورت میں اگ آتی ہے اور اس کے بیج کمرے میں پھیل کر سارا سال الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔
11۔ کچن میں صفائی کا خیال رکھیں تاکہ لال بیگ کی افزائش نہ ہو۔ سنک میں کھانا نہ پھینکیں اور کوڑے کے ڈبے کو بند رکھیں، کیونکہ لال بیگ اور اس کا فضلہ الرجی پیدا کرتے ہیں۔ انھیں ختم کرنے کے لیے لال بیگ ٹریپ یا اسپرے کریں، مگر جب اسپرے کریں تو حساس لوگ کچھ دیر کے لیے گھر سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔
12۔اپنے جانوروں، پرندوں کو صاف رکھیں اور ہفتے میں ایک یا دو بار ان کی دھلوائی کریں تاکہ ان کے بالوں میں پھنسے پولن کے ذرات اور دوسرے الرجی والے جراثیم دھل جائیں۔
13۔ پروں یا فر والے تکیے اور غلاف استعمال نہ کریں اور اپنے میٹرس اور تکیے کو وینائل یا پلاسٹک کور پہنائیں تاکہ ہاؤس ڈسٹ مائٹ ( House Dust Mite) سے محفوظ رہیں۔
14۔ اگر آپ باورچی خانے میں کام کریں یا کپڑے دھوئیں یا باغیچے میں گوڈی وغیرہ کریں تو ماسک اور دستانے پہن لیں تاکہ مصالحوں کی بھاپ، ایندھن کی گیس، واشنگ پاؤڈر، بلیچ اور کھاد وغیرہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ خاص طور پر اگر آپ میں حساسیت زیادہ ہے۔
15۔ فصل کی کٹائی کے موسم میں (جو مئی سے جون تک ہوتا ہے) کھیتوں میں نہ جائیں اور ماسک پہنیں۔ اگر پولن اور گندم کی کٹائی کے موسم میں آپ کی حالت کنٹرول نہ ہوسکتی ہو تو پھر کچھ عرصے کے لیے دوسرے شہر کا رخ کریں۔
16۔ مائیں کاسمیٹک اور زہریلی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، ورنہ بچوں کو الرجی کے علاوہ کوئی اور نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہ حساس لوگوں میں الرجی اور دمہ پیدا کرسکتی ہے۔
17۔ مونگ پھلی، مچھلی، انڈا، دودھ، گوشت کچھ لوگوں میں الرجی کا باعث بنتے ہیں، اس لئے ان کے کھانے میں احتیاط سے کام لیں اور الرجی کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں، خود سے کوئی خوراک بند نہ کریں، کیونکہ اچھی اور مکمل خوراک جس میں تمام ضروری اجزاء شامل ہوں آپ کی قوتِ مدافعت کو بڑھاتی ہے۔ ڈبوں کے کھانے جن میں Preservative ہوتے ہیں، کم سے کم کھائیں، Chinese نمک کا استعمال بھی کم کریں۔
18۔ ڈسٹ مائٹ کو مارنے کیلئے ہر ہفتے اپنے تکیے کے غلاف، چادریں ابلتے پانی میں 130F یا 55c پر دھوئیں۔
19۔ مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، اس سے الرجی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
20۔ اپنی خوراک میں پھل، سبزیاں زیادہ استعمال کریں۔ یہ پھیپھڑوں کو مضبوط بناتے ہیں۔
21۔ اگر بچوں میں الرجی ہے تو بروقت علاج سے 70فیصد بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان میں الرجی ختم ہوجاتی ہے۔ صرف 30فیصد بچے بڑی عمر میں پہنچ کر بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔
22۔ ایئر فریشنر،پرفیوم، کاسمیٹک، زیورات جن میں Nickle شامل ہوتا ہے، کریموں اور صابن کے استعمال میں احتیاط سے کام لیں۔ اس کے علاوہ پالش، وارنش، پینٹ گریس وغیرہ بھی الرجی کا باعث بن سکتے ہیں اور سانس کی الرجی کے ساتھ ساتھ Contact الرجی اور ایکنی (Acne) تکلیف ہوسکتی ہے۔
23۔ سگریٹ، گاڑیوں اور ایندھن کا دھواں بعض دفعہ سانس کے مسئلے میں اضافہ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (W.H.O) کے مطابق الرجی سے پیدا شدہ بیماریوں کے لئے علاج کا پیمانہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ الرجی پیدا کرنے والی چیزوں سے بچاؤ‘ 2۔ دوائیوں کے ذریعے علاج
3۔ الرجی ویکسین
4۔ مریض کو اچھی صحت کی تعلیم وغیرہ۔ الرجن سے بچاؤ اور الرجن ویکسین ایک مستند طریقہ علاج ہے جو تبدیلی پیدا کرنے کے قدرتی عمل پر اثرانداز ہوکر الرجی کو کم کرتی ہے۔
5۔مریض کو الرجی ویکسین اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں شروع کرنی چاہیے۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں میں مختلف مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے باہر کے ملکوں میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شاذونادر ہی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر خون کے ٹیسٹ مثلاً بلڈ سی پی (Complete blood Picture)، ناک کے مواد کا خوردبینی معائنہ اور خون میں IgE کی مقدار جانچنے کے علاوہ اپنی صوابدید کے مطابق ہیپاٹائٹس، پاخانے کے ٹیسٹ اور دیگر بھی کروا سکتا ہے۔
6۔ طبیعت خراب ہونے کی صورت میں قریبی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔