سوشل میڈیا پر استعمار ہے باطل کی گونج

406

یوم پاکستان امسال بھی سوشل میڈیا پرجوش و جذبے سے منایا گیا۔ پاکستان ڈے ، یوم پاکستان ، محمد علی جناح کے ٹرینڈ بنے۔ پاکستان زندہ با دہوا۔ ایک جانب ’امر بالمعروف ‘ نامی جلسہ سوشل میڈیا پر جگہ بنا رہا تھا۔ تحریک انصاف کے محنتی سوشل میڈیا ملازمین پوری قوت لگا رہے تھے ، عوام میں وزیر اعظم کا بیانیہ پہنچانے کے لیے ۔ وزیر اعظم بھی ایک جگہ ٹِک نہیں رہے تھے ، روزانہ دو دو بیانیے نشر کر دیتے ۔ کبھی معاف کر دیتے ، کبھی سزا،تو کبھی ان کے مشیر نئی نئی تعریفوں کے ساتھ آجاتے۔ان سب کے باوجود بلاول بھٹو کی میمز کا چرچا زیادہ رہا۔ میمز کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ متعلقہ شخص کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ،مسلسل مذاق اڑنے کے نتیجے میں مقبولیت بھی بڑھتی ہے یہ الگ سائنس ہے ۔اپوزیشن ، توڑ جوڑ میں لگی رہی ،سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ایسالگتا کہ ا سٹیبلشمنٹ کسی ایک جگہ ٹکنے کو تیار نہیں۔ایسے میں پاک فوج کے سربراہ کا گذشتہ ہفتہ ’لمس‘ جیسے ادارے کا 7گھنٹے طویل دورہ ، مطلب طلبہ و طالبات کے ساتھ سوال جواب کا طویل سیشن اپنے اندر بہت سارے معنی پروئے ہوئے تھا۔سب جانتے ہیں کہ LUMSکونسی سوچ و فکر کا نمائندہ ادارہ ہے اور وہاں کون سی کلاس زیر تعلیم ہے۔بہرحال ٹرینڈ تو تین تین بنے جنرل باجوہ، COAS، LUMS۔اس ہیش ٹیگ تلے علی وزیر پر سوال بھی اٹھائے گئے اور دوسری جانب لبرل بیانیے کو بھی فروغ دیا گیا۔واضح رہے کہ ’لبرل ‘ پاکستان کے ان معنوں میں دشمن جانے جاتے ہیں کہ وہ سرکاری سطح پر’مذہبیت‘ کے فروغ کے خلاف ہیں۔دوسری جانب ریاست کی مجبوری ہے کہ ’مذہبی‘ جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے مناسب مواقع فراہم کرتی رہے تاکہ توازن بگڑنے نہ پائے ۔اس لبرل ازم پر آگے از خود کچھ بات ضرور کریں گے کیونکہ سوشل میڈیا بلکہ سارا میڈیا کوشاں ہے ہی اسی فکر کے فروغ کے لیے ۔اس ہفتہ #انتشار کی جڑمیڈیا کا ہیش ٹیگ بھی خود تحریک انصاف نے اتارا کیونکہ اُن کو جب لگاکہ اچانک چینل نے ن لیگی موقف کو اتارنا شروع کر دیا ہے تو انکو یاد آگیا کہ یہ تو انتشار کی جڑ ہے۔دوسری جانب بھی خاموشی نہیں تھی ۔
اس دوران پاکستان میں  OIC اجلاس نے بھی خوب رنگ جمایا۔ بلاول صاحب نے دھمکی تو دی اجلاس روکنے کی مگر عقل مندی دکھا کر فوری یوٹرن لے لیا۔ وزیر اعظم کی حسب سابق زبردست تقریر ، ایکشن سے بھرپور اسٹال والی وڈیوز، پوسٹیں کام کرتی رہیں۔ حکومت نے اس موقع پرپڑھا گیا مشہور ترانہ ’ہم مصطفوی‘ ہیں دوبارہ جاری کیا ۔یقین مانیں یہ ترانہ بچپن سے سنتا آرہا ہوں ۔ اتنا زبردست نظریاتی ترانہ ہے کہ ایمان میں اضافہ ہی ہوتا ہے چاہے علی ظفر گائے یا عاطف اسلم یا کوئی اور۔اس کی وجہ موسیقی یا دھن قطعاً نہیں ، بلکہ اس کے اشعار ہیں ۔گو کہ ان کی تشریح ابھی میرا موضوع نہیں لیکن ایک شعر پر بات کیے بغیر تو انگلیاں رک ہی نہیں رہیں۔
دین ہمارا دین مکمل استعمار ہے باطل ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل
اس میں دین کو مکمل اور بطور حق کہا گیا ہے جبکہ استعمار کو باطل اور ـ’ارذل ‘ یعنی حقیر و ذلیل کہا گیا ہے۔یہ اتنی بڑی حقیقت ہے جسے میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے بھلادیا ۔ شاید اس لیے کہ وہ اب صرف ایسے منظوم کلام میں ہی اچھا لگتا ہے ۔وگر نہ اگر حقیقت کوشعور کے ساتھ یاد رکھا جائے تو یقین مانیں آج پوری امت مسلمہ ایسی حالت میں نہ ہوتیْ۔مسلم شعور پر جس نظریے نے پوری قوت سے بطور غالب نظام زندگی حملہ کیا اس میں لبرل ازمـ ـسب سے موثر ثابت ہوا۔ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ـ’’لبرل ازم‘‘ کو کسی نہ کسی درجے میں ایسے قبول کر لیا گیا کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اِس میں اصولی اختلاف کے بجائے صرف فروعی اختلاف کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔لبرل ازم نے کمال یہ دکھایا کہ یہ بطور جبر نہیں بلکہ اسلامی فکر کے اندر اس نے اپنی جگہ بنائی ہے نتیجتاًلوگ بخوشی اسلامی لبادے کے ساتھ لبرل بیانیے کو قبول کر رہے ہیں۔
مثلا ً اگر لبرل ازم ، اگر فرد کے حقوق ، فرد کی آزادی کی بات کرتا ہے تو ہم جواب میں کہتے ہیں یہ تو اسلام بھی کہتا ہے ، بس اسلام یہ بتاتا ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو باقی سارے ’حقوق اسلام بھی دیتا ہے۔
ہم یہ بات کہتے ہوئے یکسر بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں ـ’فرد‘ کا کوئی تصور ہی نہیں ، تو حقوق کا تصور بھی ممکن نہیں۔اسلام میں تمام کے تمام حقوق ’ـرشتوںـ‘ کے ہوتے ہیں، یہی حقوق العباد ہیں جو بندوں کے ہیں ، گویا بندہ ہونا خود ایک رشتہ ہے اپنے مالک کے ساتھ ۔اب یہ ’لبرل ازم ‘جس کو فرد کہتا ہے وہ ہابس اور لاک کے الفاظ میں ،’ برادری، قبیلہ یا کسی قسم کی اجتماعیت سے نہیں ہوتا بلکہ انفرادی وجود ’فرد ‘ہوتا ہے اور وہ فرد ہی ہر قسم کی اجتماعیت کو ایک ’جدید معاہداتی بنیاد ‘پر ترتیب دیتا ہے ، جس میں اس کے پاس کئی آپشن ہوتے ہیں اختیار کرنے کے ، اس کو آزادی ہوتی ہے معاشرے کی ترتیب کے لیے پسند نا پسند کی ، ان بنیادوں پر ترتیب ہونے والا معاشرہ ہی لبرل ازم کو حقیقی مطلوب معاشرہ ہوتا ہے۔‘اس کو آزادی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ رہے یا انکار کر دے، بیوی رکھے یا نہیں، بچے پالے یانہیں ، بچے والد ین کو رکھیں یا نہیں ۔ غرض ہر جگہ اس کی مرضی و آزادی کا تحفظ ریاست اپنے قوانین کے ذریعہ کراتی نظر آتی ہے۔ یہ صرف سمجھانے کے لیے ایک پہلو تھا ، اس لیے کہ لبرل ازم کواختیاری طور پر اپنانے والے معاشروں میں یہ مثال با آسانی سمجھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے لبرل ازم اپنے آپ کو فکری نظام کہتا ہے ، جس میں جو فرد چاہے، جو فرد مانگے، جیسا فرد چاہے وہ اجتماعیت کنٹریکٹ کی صورت وجود میں لاتا ہے ۔جبکہ اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں، اسلام میں فرد ہے ہی نہیں، تمام کی تمام اجتماعیت ہے اس سے باہر کچھ نہیں ہوتا۔اسلام میں رشتوں کی کوئی چوائس نہیں ، والدین کو اُف کرنے سے بھی منع ہے ، باقی تو آپ خود سوچ لیں۔ اس لیے اب اگر ہم تھوڑی دیر کو ایک ایسے معاشرے کا جس میں رشتے اخلاقی نہیں پروسیجرل (جدید معاہداتی )بن جائیں تو ان رشتوں کی کیا اہمیت رہے گی۔اس طرح لبرل ازم کی کئی اقدار ہیں ان کو غیر شعوری طور پر اپنانے والے معاشرے میں سب سے اہم چیز جو جنم لیتی ہے اس میں ایک چیز ہے بے حسی، انسانی رشتوں سے بے حسی، رشتوں کی تقدیس کا خاتمہ، لبرل ازم کو یہی مطلوب ہے ۔آئیں اس ہفتہ کی بے حسی پر مبنی چند اہم موضوعات اس لیے بتاتے ہیں کہ ہم اپنا جائز ہ لیں اور فکروعمل کے زاویے تبدیل کریں۔
اول نمبر پر ہے سوشل میڈیا پر پتوکی میں ایک شادی کی وڈیو ۔اس وڈیو پر بھر پور رد عمل سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ایک پاپڑ والے کی لاش شادی ہال میں پڑی ہے اور لوگ کھانا کھا نے میں مگن ہیں ۔محنت کش محمد اشرف کی ہلاکت کے واقعے میں مقدمہ درج کر کے 12 افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔مگر لوگوں کی بےحسی موضوع بنی رہی۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو اس بے حسی پر تنقید کی آڑ میں معلوم ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے وڈیو دکھا کرمزید بےحسی پھیلائی ہے ۔وڈیو کے بارے میں تو سب یکسو ہیں نا کہ ایسا میڈیم ہے جو انسانی ذہن کو عمل کرنے کی جانب اکساتا ہے ، تو اس وڈیو کا لازمی انجام عبرت نہیں بلکہ مزید بے حسی کی ترغیب ہی کہلائے گا۔اس حوالےسے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ، ’’پتوکی کے میرج ہال میں لاش پڑی ہے اور باراتی کھانا کھا رہے ہیں۔کوئی مرنے والے کو پاپڑ والا بتا رہا ہے اور کوئی جیب کترا جو مبینہ طور پر باراتیوں سے جھگڑے میں ہلاک ہوا۔ یہ وڈیو دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا میں 2013 میں مسقط میں تھا کہ لاہور واہگہ بارڈر کے قریب بم دھماکے کی اطلاع ملی۔ساتھ ہی انٹرنیٹ کیفے والا تھا، میں نے گھبراہٹ میں اسے بولا بھائی ذرا کوئی نیوز چینل لگانا لاہور میں دھماکہ ہوا ہے۔وہ بڑے عجیب انداز سے بولا ۔تو پھر کیا کروں، کون سا پہلی بار ہوا ہے. ہوتے ہی رہتے ہیں۔فلم دیکھنے دو۔‘‘خلیل قمر نے لکھا کہ ،’پتوکی کے واقعہ کو صرف اس طرح نہ لیجیے کہ وہاں کچھ درندوں نے ایک انسان کی جا ن لے لی اس واقعہ نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہمارے اندر ایسے حیوان بھی بستے ہیں جو کسی کی لاش بچھا کر ایسی بے حسی اور بے شرمی سے کھانا کھا لیتے ہیں۔‘ن لیگ کی رکن اسمبلی نے لکھاکہ ،’پتوکی میں باراتیوں کے تشدد سے پاپڑ فروش دم توڑ گیا، میرج ہال میں لاش سامنے پڑے ہونے کے باوجود باراتی کھانا کھاتے رہے۔ ہم کیوں ایک بے حس قوم بنتے جا رہے ہیں؟؟ آئی جی پنجاب سے مطالبہ کرتی ہوں کہ جاں بحق شخص کے خاندان کو انصاف دلائیں۔‘جہاں اس معاملے پر کھانا کھاتے افراد پر تنقید کی جاتی رہی وہاں کسی نے بھی وڈیو بنانے والے کے عمل پر کوئی بات نہیں کی ۔مطلب وڈیو بنانے والے کے نزدیک وڈیو تبصرہ ہی بہتر تھا۔ اسکے بعد#JusticeForZiauddinکا ہیش ٹیگ تھا جو بتا رہا تھاکہ 5 سالہ معصوم بچہ ڈیرہ غازی خان میں پڑوسی نے بچے کو زیادتی کا شکار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر پھینک دیا گیاتین دن آئی سی یو میں بچہ رہا پھر دم توڑگیا۔ملزم گرفتار ہو گیا۔سخت خبر ہے ، اسکےبعد میانوالی واقعہ جس میں باپ نے اپنی بیٹی کو گولیاں ماریں پھر کراچی میں لیاقت آباد 7 نمبر کے گھر میں ماں نے اپنی 22 دن کی معصوم بچی کاگلہ کاٹ دیا۔11 مارچ کو کراچی ہی میں ایک ماں نے دہلی کالونی میں واقع نجی اسپتال کی ایمبولنس کے اندر بچی کو جنم دیا اور اسی ایمبولنس سے چوہدری خلیق الزماں روڈ پر نومولود بچی کو سڑک پر پھینک کر فرار ہوگئی ۔ بعد ازاں وہ سی سی ٹی وی کی مدد سے گرفتار بھی ہوگئی ۔لبرل ازم میں آزادی کا تصور انفرادی آزادی پر مبنی ہے، جو اسے ہر کام کی آزادی دیتا ہے ۔یہی وجہ ہےکہ ہمارے معاشرے میں لبرل ازم اس حد تک سرایت کر دگیاہے کہ رشتوں کی تقدیس ختم ہوتی جا رہی ہے۔ماں جیسے رشتہ کا مقام، جس کی مثا ل اللہ اپنی محبت کے موازنے سے دیتا ہے کہ جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی،وہ ایسی صورتحال میں آجائے ۔یہ سفاکی معاشرے میں ایسے نہیں سرایت کرتی جا رہی۔ آسائشوں ، تعیش زدہ انفرادیت نے غلبہ پا کر اس ماں کوایسے اقدام کی جانب لے گیا۔یہ انفرادیت ہی لوگوں کو کھانے سے جوڑ کر رکھتا ہے کہ لاش ہی کیوں نہ پڑی ہو۔اسلام فرد کی تعریف اجتماعیت کے تناظر میں ہی کرتا ہے اور اسکو جوڑ کر رکھتا ہے اجتماعیت سے ، جو ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان کی لاش تو کیا اگر وہ زخمی بھی موجود ہوتو اسکی تیمار داری چھوڑ کر کچھ اور کیا جائے ۔ عاقلہ کا قانون اس حد تک اسلامی علمیت و مضبوط اسلامی اجتماعی معاشرے کا عکاس ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیامیں نہیں ملتی۔ اس لیے نظم کی دھن میں مست ہوکر یہ بات بھول مت جائیے کہ
دین ہمارا دین مکمل استعمار ہے باطل ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل عند اللہ
باطل ارذل کو سمجھیے وگرنہ ایسے رذیل اعمال ہمارے اطراف میں اتنے جمع ہوجائیں گے کہ اس کی آلودگی ایمان، عمل سب کچھ چین لے گی۔

حصہ