جسارت میگزین: اپنے اور مشتاق صاحب کے خاندان کے بارے میں بتایئے۔
حمیرا طیبہ: میرے والد کا تعلق ملتان سے اور والدہ کا لاہور سے ہے۔ میرے والد کی ملازمت کچھ ایسی تھی کہ ہمیں مختلف جگہ رہنے کا موقع ملا۔ میری پیدائش حیدرآباد کی ہے، پھر ہم نوشہرہ چلے گئے اور میری ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی، پھر ابو کا کراچی تبادلہ ہوگیا۔ یہاں سے میں نے حفظ کیا، پی ای سی ایچ ایس کالج سے انٹر کیا۔ امی نے ہمیشہ مجھے یہ کہا کہ تمہیں اسلامی یونیورسٹی سے پڑھنا ہے۔ لہٰذا میں نے اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ لا میں داخلہ لے لیا۔ اُس زمانے میں خوش قسمتی سے ابو کا اسلام آباد تبادلہ ہوگیا اور یوں مجھے ہاسٹل کی مشقت نہیں اٹھانی پڑی۔
مشتاق صاحب کا تعلق روایتی زمیندار گھرانے سے تھا، لہٰذا انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے صوابی میں حاصل کی، اپنے گائوں سے میٹرک کا امتحان دینے پہلی دفعہ صوابی کے شہر آئے۔ میٹرک کے بعد صوابی کے گورنمنٹ کالج گوہائی میں داخلہ لیا، پشاور یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کیا۔
مشتاق صاحب کا گھرانہ تحریکی نہ تھا۔ میٹرک کی چھٹیوں میں کسی نے مولانا کا لٹریچر پڑھنے کے لیے دیا، اس سے متاثر ہوئے اور جمعیت میں شمولیت اختیار کی، اور پھر گویا اسی کے ہوکر رہ گئے۔
جسارت میگزین: آپ دونوں اپنے دن کی ابتدا کیسے کرتے ہیں؟
حمیرا طیبہ: میری صبح فجر کے ساتھ ہی ہوجاتی ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو ابتدا میں ہوم اسکولنگ کرائی ہے، بعض بچوں کو ساتویں میں اور بعض کو چھٹی میں اسکول میں داخل کرایا۔ صبح فجر کے بعد قرآن پڑھاتی ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کو قرآن خود پڑھایا ہے۔ ہوم اسکولنگ میں چونکہ کوئی پابندی نہیں ہوتی لہٰذا ناشتا، قرآن اور پڑھائی ساتھ چلتے رہتے۔ میرا آخری بچہ لاک ڈائون کے بعد اسکول میں داخل ہوا، بعد میں جب اسکول بند ہوئے اور گھروں میں ہی پڑھائی ہوئی تو ہم کو فرق نہیں پڑا، کیوں کہ ہم پہلے ہی اس کے عادی تھے۔ پھر بعد میں اسکول ریگولر شروع ہوئے تو مجھے بڑی فراغت محسوس ہوئی۔ ہوم اسکولنگ کا مجھے جو فائدہ لگا وہ تو اپنی جگہ ہے، سب سے زیادہ بچے مگن رہے۔ وہ کھیت اور باغات میں کھیلتے، پھل توڑتے، مزے مزے کے کھیل کھیلتے، یعنی بچپن کو بھرپور انداز سے گزارتے ہیں۔
بچوں کے اسکول جانے کے بعد میں اپنے تنظیمی کام دیکھتی ہوں، میری ذمے داری میں خیبرپختون خوا کے دو شعبے ہیں: (1) شعبہ تربیت، اور (2) شعبہ جامعات۔ یہ شعبے دوسرے صوبوں میں نہیں ہیں لیکن کے پی کے میں یہ ایک باقاعدہ شعبہ ہے، کیوں کہ یہاں مدارس کا ایک کلچر موجود ہے۔ ہمارے بیشتر ارکانِ جماعت کے اپنے ذاتی مدارس ہوتے ہیں خصوصاً مالاکنڈ ڈویژن میں، یہ اس لیے کہ یہاں یہ ابلاغ کا مؤثر ذریعہ ہے۔ لہٰذا اندازاً چار سو سے پانچ سو تحریکی جامعات کے پی کے میں ہیں۔ مشتاق صاحب نے امیر صوبہ کی ذمے داری سنبھالتے ہی سب سے پہلے خواتین نظم سے یہی درخواست کی کہ وہ نہ صرف ایک خاندان کی بنیاد رکھتی ہیں بلکہ اکثر یہ بچیاں آگے مراکز ترجمہ یا مدارس کھولتی ہیں جو عوام میں دعوت کے نفوذ کا بہترین ذریعہ ہیں، لہٰذا انہیں تنظیم کے تحت لایا جارہا ہے اور اس کام کے اثرات سمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں سے شادی کے بعد گائوں میں رہیں، کیا مشکلات ہوئیں؟
حمیرا طیبہ: مجھے شادی کے بعد مشتاق صاحب نے گائوں میں نہیں رکھا، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ مجھے مشکلات ہوں گی۔ دیکھیے ایک متوازن مرد کیسے اپنے گھر والوں اور بیوی کے درمیان توازن رکھتا ہے۔ مشتاق صاحب نے سارے معاملات خود ہینڈل کیے۔ شادی کے بعد ہم پشاور میں رہے۔ اگرچہ گائوں کی معاشرت میرے دل کے بہت قریب تھی، لہٰذا میری خواہش پر انہوں نے خان جی (میرے سسر) کے گھرکے پاس علیحدہ ایک یونٹ بنایا اور وہاں شفٹ ہوئے۔ سسرال کی زندگی میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ یہ سادہ زندگی مجھے بے انتہا پسند ہے۔ میں آپ کو بتائوں کہ یہاں گائوں میں یہ سوال ہی نہیں کہ آج کیا پکایا جائے؟ صبح چائے پراٹھے کا ناشتا ہوتا ہے، پھر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جس میں لازم ہے کہ آلو ڈالے جائیں گے، رات کو دال اور موسم کی کوئی سبزی بنے گی۔ یہ سال کے بارہ مہینے ہوتا ہے۔ تندور میں روٹی بنتی ہے، لکڑیاں جلاتے ہیں، لیکن گائوں میں خاندان بہت مضبوط ہوتا ہے۔
مجھے مشکل صرف اس بات میں ہوئی کہ یہاں گھر کے مردوں کا رعب کہہ لیں یا کچھ روایتی مردانہ طور طریقے تھے جن سے میں اتنا واقف نہیں تھی۔ اس مزاج کو سمجھنے میں کچھ وقت لگا، لیکن بہرحال کوئی بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
جسارت میگزین: بچوںکے لیے کیا خواب ہیں؟
حمیرا طیبہ: ہم دونوں کی خواہش اور خواب بچوں کے معاملے میں یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ قرآن سے جڑ جائیں، دین کی خدمت کرنے والے ہوں، ان کا نام اللہ کے سپاہیوں میں لکھا جائے۔ مشتاق صاحب بچوں سے یہ بھی کہتے ہیںکہ پڑھو لیکن دین کی کیا خدمت کررہے ہو؟ اس کے بارے میں بھی فکر کرو اور آگے بڑھو، دین کے لیے جدوجہد کو اپنا مقصد بنائو۔
جسارت میگزین: کیا آپ دونوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف یا جھگڑا ہوا؟ اگر ہوا تو کس بات پر؟
حمیرا طیبہ: اختلاف اور چھوٹے موٹے جھگڑے تو کس میاں بیوی میں نہیں ہوتے! اس سے تو محبت بڑھتی ہے۔ مجھے کبھی یہ لگا کہ میری بات کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینا چاہیے تھی، اسی طرح مشتاق صاحب کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی، یہ اور اسی طرح کی چھوٹی موٹی باتیں تو ہوتی ہی ہیں البتہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہوا۔ بس ایک بات پر ہوا تھا، وہ تھا پشاور سے گائوں شفٹ ہونا۔ مشتاق صاحب کو میرے بارے میں یقین تھا کہ میں گائوں میں نہیں رہ سکتی، ان کی خواہش تو تھی کہ میرے بچے گائوں میں بڑے ہوں، لیکن میرے بارے میں سمجھتے تھے کہ میں گائوں میں نہیں رہ سکوں گی۔ میرے اصرار پربھی وہ متذبذب رہے کہ گائوں میں بسنا چاہیے یا نہیں؟
جسارت میگزین: خواتین کے لیے آپ کے خیال میں سب سے ضروری کیا ہے؟
حمیرا طیبہ: آج خواتین کے لیے سب سے اہم چیز اُن کی امپاورمنٹ کو قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ خواتین کا اصل ایشو نہیں ہے، اصل ایشو یہ ہے کہ انہیں سوشل پریشر سے نکالا جائے، یہ پریشر ڈالنے والی خواتین زیادہ ہوتی ہیں جو انہیں مشکلات میں ڈالتی ہیں۔ ہر عورت کو اپنے بارے میں خود سے وہ کچھ کرنے کا حق ہے جو اسلام کی حدود کے ساتھ وہ کرنا چاہتی ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ اگر وہ معاشرے میںکوئی مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کو روکنا نہ اس کے لیے ٹھیک ہے نہ معاشرے کے لیے۔ امپاورمنٹ کا مطلب زبردستی کسی کلچر کو مسلط کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو سارے حقوق دیے ہیں۔ پراپرٹی کا حق، کاروبارکا حق، تعلیم کا حق۔ اسلام میں کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اگر آپ مختلف ٹولز مثلاً پارلیمنٹ یا میڈیا وغیرہ کے ذریعے زبردستی عورت کو باہر نکلنے اور ملازمت کے لیے مجبور کریںگے تو یہ عورت کی ایمپاورمنٹ نہیں بلکہ اس پر ظلم ہے۔
ہاں ظلم کی کچھ بدترین شکلیں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور انہیں باقاعدہ ہدف بناکر ہر میدان میں ان کے خلاف جہاد ضروری ہے، ان میں سرفہرست غیرت کے نام پر قتل کرنا، سوارہ کی رسم اور وراثت سے محروم رکھنا، یا وراثت کی تقسیم کے ڈر سے لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنا ہے۔
جسارت میگزین: کیا خواتین کو سیاسی طور پر کردار ادا کرنا چاہیے؟
حمیرا طیبہ: سیاسی کردار سیاسی شعور سے شروع ہوتا ہے، پاکستانی خواتین سیاسی شعور رکھتی ہیں۔ ناخواندہ بھی سیاسی شعور رکھتی ہیں۔ یہ حق تو اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی عورت کو دے دیا تھا اور ہمت بھی دی تھی کہ انہیں حضرت عمرؓ تک کو منبر پر روکنے، ٹوکنے کی جرأت تھی۔ وہ صلح بھی کراتی تھیں، لوگ اپنے مسائل لے کر آتے تھے اور وہ ایک کردار ادا کرتی تھیں۔ سیاسی کردار کی ادائیگی اور بات ہے اور زبردستی سیاسی میدان میں انہیں گھسیٹنا اور بات ہے۔ یہ قانون عورت پر ظلم ہے کہ 33 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مختص کردی جائیں اور اس طرح خواتین کی ایک بڑی تعداد کو گھروں سے نکل کر مخلوط مجالس میں بیٹھنے پر مجبور کردیا جائے۔ یہ بات واضح کردوں کہ اگر کوئی خاتون خود سے الیکشن لڑ کر کونسلوں اور اسمبلیوں میں آنا چاہے تو اسلام اس کو نہیں روکتا، لیکن یوں کوٹہ مقرر کردینا درست نہیں، یہ جبر ہے، اور اتنا بڑا کوٹہ تو یورپ اور امریکا میں بھی نہیں ہے۔
جسارت میگزین: پاکستانی عورت کی مشکلات کے بارے میں بتائیں۔ آپ کے خیال میں پاکستانی عورت کے لیے سب سے زیادہ کیا ضروری ہے؟
حمیرا طیبہ: پاکستانی معاشرے میں عورت کے لیے عزت بھی ہے اور حفاظت بھی ہے لیکن آئیڈیل سچویشن نہیں ہے۔ عورت کے اوپر مختلف قسم کے سماجی دبائو ہوتے ہیں۔ سسرال میں عورت کو اپنی مرضی سے اپنے وقت کے استعمال کی آزادی نہیں ہوتی، اس کی خدمت اور کردار کو کسی ریوارڈ کا مستحق نہیں سمجھا جاتا، اسے سسرال کے لحاظ سے اوور برڈن کیا جاتا ہے یعنی بوجھ پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے مردوں کی تربیت کی جائے۔ شروع سے ایک عورت یعنی ماں اس کو معاشرے کے طور طریقے اور رشتوں میں توازن کرنا سکھائے۔ اخلاق و کردار تمدن سے بنتا ہے، تمدن گھر میں ہوتا ہے جو عورت کا اصل میدان ہے، نیچے سے تبدیلی عورت ہی لاتی ہے اور لا سکتی ہے، اس کے لیے عورت کو مقام بھی ملنا چاہیے اور عزت بھی۔
جسارت میگزین: خوشی اور غم کا کوئی واقعہ جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو؟
حمیرا طیبہ: میرے چھٹے بچے کی پیدائش پر میں اور میرا بیٹا دونوں بہت بیمار رہے، الیکشن کے باعث مشتاق صاحب بھی میرے پاس نہیں ہوتے تھے، اس بیٹے کا نام ہم نے حسین رکھا تھا، اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ حسین تو قربانی کا سبق سکھانے ہی آیا تھا۔ سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد عوام اور علاقے کے لوگوں کی طرف سے جو رسپانس آیا اس سے بہت خوشی ہوئی۔ تین دن میں کوئی آٹھ دس ہزار لوگ ہمارے ڈیرے پر آئے اور مشتاق صاحب کو مبارک باد دی۔ سینیٹ کی ممبر شپ پہلے صرف ایک ذمے داری اور بوجھ میں اضافہ لگ رہی تھی، لیکن تحریکی ساتھیوں کی خوشی نے اسے ایک اچھے احساس اور مستقبل کے لیے مزید پُرعزم ہونے میں تبدیل کردیا۔
جسارت میگزین: مشتاق صاحب اور آپ کے فارغ وقت میں کیا مشاغل ہیں؟
حمیرا طیبہ: مشتاق صاحب کو فرصت سے علامہ اقبال کو پڑھنا پسند ہے۔ انہوں نے اقبال کی فارسی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کے لیے فارسی سیکھی۔ وہ کہتے ہیں اصل تو وہی ہے، اقبال کی اردو شاعری تو میٹرک کے بچوں کے لیے ہے۔ ان کا ایک اور مشغلہ کہیں کسی اجنبی منزل کی طرف اور انجان راستوں میں پہاڑوں پر نکل کر ہائیکنگ کرنا ہے۔
پسندیدہ کتب کی ایک علیحدہ کلیکشن ہے یعنی الگ ایک جگہ پر پسندیدہ کتب رکھتے ہیں۔ مسلم و غیر مسلم اہم سیاسی شخصیات کی سوانح حیات خاص دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ پسندیدہ کتاب سوانح حیات ہٹلر، نہرو، باچا خان، نیلس منڈیلا وغیرہ کی پڑھنا پسند ہے۔ میرا مزاج اور ذوق مختلف ہے، مجھے دینی علوم اور قرآن سے شغف ہے۔
جسارت میگزین: خواتین کے لیے کوئی پیغام؟
حمیرا طیبہ: خواتین کے لیے آج بڑے چیلنج ہیں، تبدیلی نیچے سے آرہی ہے، ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، عادات اور مشاغل بڑی تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں اور خاندان کے استحکام کو متاثر کررہے ہیں، افراد کو ایک دوسرے سے دور کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دکھانے اور سنانے کا شوق تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ لہٰذا خواتین اس بات کو محسوس کریں اور اسے معمولی نہ سمجھیں کہ تہذیب تبدیل ہورہی ہے، خاندانی نظام کو ڈھا رہی ہے۔ خاندان میں ہر فرد دوسرے فرد کا سہارا ہوتا ہے۔ صرف اپنے بارے میں سوچنا تنہائی کو بڑھاوا دیتا ہے، خاندان میں افراد کی قربت کو ختم کرتا ہے، دوریاں پیدا کرتا ہے اورخاندان کو کمزور کرتا ہے۔ لہٰذا خواتین کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عادات اور مشاغل پر نظر رکھیں۔