قیصرو کسریٰ قسط(41)

270

’’وہ دیر تک ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہیں، بالآخر یوسیبیا نے کہا۔ ’’فسطینہ! اگر وہ نہ آیا تو ہم بھوکے اور پیاسے گھوڑوں پر زیادہ دور نہیں جاسکیں گے‘‘۔
اچانک فسطینہ نے بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ دیکھو، امی! ایک سوار اس طرف آرہا ہے۔ شاید دشمن کو ہمارا سراغ مل گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کے پیچھے ایک فوج ہوگی‘‘۔
یوسیبیا کے چہرے پر اچانک زردی چھا گئی اور اُس نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’بیٹی مجھے کچھ نطر نہیں آتا‘‘۔
’’ان درختوں کی طرف دیکھو، امی! وہ سیدھا اِس طرف آرہا ہے‘‘۔
یوسیبیا چلائی۔ ’’بیٹی وہ سچ مچ اِس طرف آرہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے ساتھی نے انہیں ہمارا پتا دے دیا ہے۔ اب تم میرا کہا مانو اور بھاگ کر گھوڑے پر سوار ہوجائو۔ وہ کہتا تھا کہ میرا گھوڑا بہت سخت جان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم عزت بچا سکو گی۔ میں انہیں روکنے کی کوشش کروں گی۔ اگر وہ تعداد میں زیادہ ہوئے تو بھی کم از کم میرے دو تیر خالی نہیں جائیں گے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی آپ یہ سمجھ رہی ہیں کہ میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائوں گی؟‘‘
یوسیبیا نے کہا۔ ’’فسطینہ جلدی کرو۔ ممکن ہے کہ تم گھر پہنچ کر میرے لیے کچھ کرسکو‘‘۔
فسطینہ چند ثانیے بے حس و حرکت کھڑی ماں کی الجتائیں سنتی رہی، بالآخر وہ چلائی۔ ’’امی! ذرا غور سے دیکھو۔ وہ آرہا ہے، وہ زندہ ہے، اُس نے ہمارے ساتھ دھوکا نہیں کیا۔ وہ دو بے بس عورتوں کے ساتھ دھوکا نہیں کرسکتا تھا‘‘۔
تھوڑی دیر میں عاصم ٹیلے کے قریب پہنچ گیا۔ تیز رفتار گھوڑا چند چھلانگوں میں ٹیلے کے وسط تک پہنچ گیا۔ لیکن اس سے آگے چڑھائی سخت تھی اور اُس کے پائوں پھسل رہے تھے۔ عاصم گھوڑے سے کود پڑا اور اُس کی باگ پکڑ کر پیدل دوڑنے لگا۔ فسطینہ پتھر کی آڑ سے نکل کر چند قدم آگے بڑھی تو وہ بلند آواز میں چلایا۔ ’’فسطینہ! پیچھے چھپ جائو۔ وہ آرہے ہیں، جلدی کرو‘‘۔
فسطینہ بدحواس ہو کر پیچھے پلٹی اور پتھر کی اوٹ سے سامنے دیکھنے لگی۔ اچانک اُس کی رگوں کا سارا خون منجمد ہو کر رہ گیا۔ دائیں طرف چند سوار درختوں کے جھنڈ سے نمودار ہورہے تھے۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’فسطینہ! اب بھی وقت ہے تم بھاگ جائو‘‘۔
لیکن اُس نے اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’امی! اب میں کسی سے نہیں ڈرتی‘‘۔
عاصم نے چند قدم چوٹی کے دوسری طرف اُترنے کے بعد کہا۔ ’’فسطینہ! اس گھوڑے کی باگ پکڑ لو اور اپنی ماں کے ساتھ فوراً نیچے چلی جائو‘‘۔
فسطینہ نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عاصم نے یوسیبیا کے ہاتھ سے کمان اور ترکش لیتے ہوئے کہا۔ آپ فوراً یہاں سے روانہ ہوجائیں۔ یہ گھوڑا تازہ دم ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا گھوڑا بھی اِس کا ساتھ دے سکے گا۔ ان پہاڑیوں کی اوٹ میں کوئی ایک کوس چلنے کے بعد آپ دمشق کے راستے پر پہنچ جائیں گی۔ یہ آپ کا آخری مرحلہ ہے، مجھے یقین ہے کہ اِس کے بعد کوئی آپ کا تعاقب نہیں کرے گا۔ دمشق پر ایرانیوں کا قبضہ ہوچکا ہے اور راستے میں جو لوگ آپ کو ملیں گے وہ آپ سے زیادہ پریشان ہوں گے۔ اب جلدی کیجیے، میں آپ سے بہت جلد آملوں گا… لیکن آپ میرا انتظار نہ کریں۔ میں یہ اطمینان کرچکا ہوں کہ آپ کو تلاش کرنے والے اس بستی سے آگے نہیں گئے… اور میں آپ کو یہ یقین بھی دلا سکتا ہوں کہ ان پانچ آدمیوں میں سے، جو اس وقت میرے پیچھے آرہے ہیں، کوئی آپ کا تعاقب کرنے کی جرأت نہیں کرے گا‘‘۔
فسطینہ کی ماں اُس کا بازو پکڑ کر کھینچنے لگی۔ لیکن اُس نے آبدیدہ ہو کر عاصم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’آپ تنہا اُن پانچ آدمیوں کا مقابلہ کریں گے؟‘‘۔
’’تم میری فکر نہ کرو۔ میرا ترکش تیروں سے بھرا ہوا ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ تمہاری طرف متوجہ نہ ہوں۔ دیکھو وقت ضائع نہ کرو۔ مجھے اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ قدرت تمہیں ان بھیڑیوں سے بچانا چاہتی ہے۔ وہ تمہارا بال بیکا نہیں کرسکتے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ تمام واقعات اِس طرح پیش نہ آتے۔ آپ کو ایک تازہ دم گھوڑے کی ضرورت تھی وہ میں لے آیا ہوں۔ میرا گھوڑا بھوکا تھا اُس کے لیے مجھے اناج کا توبڑا مل گیا ہے۔ اگر آپ کو راستے میں کوئی ضرورت پیش آئی تو میری خرجین میں پڑے ہوئے چند سکے آپ کے کام آسکیں گے۔ اب جائیے‘‘!
فسطینہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی ماں کے ساتھ چل پڑی… عاصم نے اپنی کمان اور ترکش پتھروں کی آڑ میں رکھ دیے اور چند قدم آگے بڑھ کر ٹیلے کے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
پانچ سوار ٹیلے کے نیچے پہنچ کر رُکے اور گھوڑوں سے کود کر ایک نصف دائرے میں اوپر چڑھنے لگے۔
شامی افسر نے بلند آواز میں کہا۔ ’’اب تم بچ کر نہیں جاسکتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایران کی جاسوس عورتیں تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر تم انہیں ہمارے حوالے کردو تو میں تمہاری جان بچانے کا ذمہ لیتا ہوں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’تمہیں تھویڈوسیس کی بیٹی اور نواسی پر ایرانیوں کے جاسوس ہونے کا الزام لگاتے ہوئے شرم آنی چاہیے‘‘۔
شامی افسر نے کہا۔ ’’تھیوڈوسیس کی بیٹی کا شوہر ایک ایرانی ہے لیکن اگر وہ ایرانیوں کی جاسوس نہ ہو تو بھی ہم کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ ہم صرف یروشلم کے حاکم کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں‘‘۔
’’تم اپنے گھر کی فکر کیوں نہیں کرتے۔ تمہیں معلوم ہے کہ ایرانی دمشق پر قبضہ کرچکے ہیں اور انہیں یروشلم پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی‘‘۔
شامی چلایا۔ ’’تم ایک غدار ہو اور تمہاری سزا موت ہے‘‘۔
’’اِس وقت میری بہ بسنت تم موت سے زیادہ قریب ہو‘‘۔
عاصم نے یہ کہہ کر اچانک ایک بھاری پتھر نیچے لڑھکا دیا۔ اور پیچھے ہٹ کر ان پتھروں کی آڑ میں بیٹھ گیا۔ جہاں اُس کا ترکش اور کمان پڑی تھی۔
نیچے سے آواز آئی۔ ’’تمہارے پتھر ہمارے تیروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اگر تم چاہتے ہو کہ ہم ان عورتوں کو باعزت طریقے سے یروشلم پہنچادیں تو اپنی تلوار پھینک کر نیچے آجائو، ورنہ ہم ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ایرانیوں نے انطاکیہ کی عورتوں کے ساتھ کیا ہے‘‘۔
عاصم نے اُٹھ کر دوسری طرف دیکھا۔ فسطینہ اور اُس کی ماں گھوڑوں پر سوار ہو کر کوئی تین سو گز دور جاچکی تھیں پھر وہ حملہ کرنے والوں کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے اوپر آرہے تھے۔ عاصم نے یکے بعد دیگرے چند پتھر اُٹھا کر نیچے پھینک دیے اور پھر ترکش اور کمان اُٹھا کر پتھروں کی آڑ لیتا ہوا بائیں طرف ایک چٹان کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ اب وہ اوپر آنے والے تمام آدمیوں کو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔ یہ لوگ سیدھے اوپر چڑھنے کے بجائے دائیں بائیں چکر کاٹ کر اوپر آنے کی کوشش کررہے تھے۔ بائیں طرف سے دو آدمی چٹان کے بالکل قریب آچکے تھے۔ اچانک عاصم کی کمان سے ایک تیر نکلا اور ایک سپاہی زخمی ہو کر لڑھکتا ہوا کئی گز نیچے چلا گیا۔ دوسرے نے بھاگ کر ایک پتھر کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن عاصم کا دوسرا تیر اُس کی پسلی میں لگا اور وہ چیخ مار کر ایک طرف گرپڑا۔ باقی تین آدمی جو، دائیں ہاتھ، پتھروں کے پیچھے چھپ کر ایک دوسرے کو ہدایات دے رہے تھے اچانک خاموش ہوگئے۔ عاصم ٹیلے کی چوٹی سے ذرا پیچھے ہٹ کر بھاگتا ہوا دوبارہ ان پتھروں کے پیچھے جا بیٹھا جہاں اُس نے چند ثانیے پہلے پتھر لڑھکائے تھے۔ اچانک اُسے دائیں ہاتھ کوئی آہٹ محسوس ہوئی۔ اُس نے آہستہ سے سر اُٹھا کر دیکھا تو ایک آدمی رینگتا ہوا چوٹی کے اُوپر پہنچ چکا تھا۔ عاصم اور اُس کے درمیان صرف دس قدم کا فاصلہ تھا۔ عاصم نے جلدی سے سر نیچا کرکے اپنی تلوار نکالی اور پھر اچانک پتھروں کی آڑ سے نکلا اور پلک جھپکتے میں اُس کے سر پر جا پہنچا۔ یہ ان سپاہیوں کا افسر تھا اور پیشتر اِس کے وہ اپنی کمان سیدھی کرسکتا عاصم کی تلوار کی نوک اُس کی گردن کو چھو رہی تھی۔ عاصم نے کسی توقف کے بغیر اُس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’تم میرے تیر کی زد میں تھے لیکن میں نے بلاوجہ ایک اور آدمی کی جان لینا مناسب نہیں سمجھا۔ اپنے ساتھیوں کو حکم دو کہ وہ ہتھیار پھینک دیں ورنہ مجھے تمہاری گردن سے اِس چھوٹے سے سر کا بوجھ اُتارنا پڑے گا‘‘۔
شامی افسر نے کہا۔ ’’تم مجھے قتل کرکے بھاگ نہیں سکو گے، تھوڑی دیر میں میرے کئی اور ساتھی یہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔ ’’لیکن تم اُن کی کارگزاری نہیں دیکھ سکو گے۔ اپنے ساتھیوں کو آواز دو‘‘۔
شامی افسر اپنے ساتھیوں کو آواز دینے لگا۔ ’’دو آدمی چند قدم نیچے پتھروں کی اوٹ سے سر نکال کر دیکھنے لگے۔
عاصم نے بلند آواز میں کہا۔ ’’اگر تم اپنے ساتھی کی جان بچانا چاہتے ہو تو ہتھیار پھینک کر آگے آجائو‘‘۔
وہ تذبذب کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، عاصم نے اپنی تلوار کو ذرا دبایا اور شامی افسر چلایا۔ ’’تم سنتے نہیں۔ کیا کہہ رہے ہیں۔ جلدی کرو!‘‘۔
وہ اپنے ہتھیار پھینک کر آگے بڑھے۔ اور عاصم نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اُٹھ کر کہا۔ ’’میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم نے میرے حکم کی تعمیل کی تو تمہاری جانیں محفوظ ہیں۔ مجھے تمہارے دو ساتھیوں کی ہلاکت کا افسوس ہے لیکن مجھے کرائے کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا جانا پسند نہ تھا‘‘۔
شامی افسر نے کہا۔ ’’اب آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’میں یہ چاہتا ہوں کہ تم تھوری دیر میرا پیچھا نہ کرسکو۔ دیکھو! اُس طرف میرے دو گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ تم اپنے ایک آدمی کو حکم دو کہ وہ اُن کے رسّے اُتار کر یہاں لے آئے۔ لیکن یاد رکھو! اگر اِس نے بھاگنے کی کوشش کی تو میں تم دونوں کو قتل کردوں گا‘‘۔
شامی افسر کے اشارے سے ایک سپاہی نیچے چلا گیا اور عاصم نے دوسرے سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تم اپنے ساتھی کے قریب لیٹ جائو‘‘۔ اُس نے کسی توقف کے بغیر حکم کی تعمیل کی۔
تھوری دیر بعد اُن کا تیسرا ساتھی رسّے لے کر آگیا۔ عاصم نے ایک رسّا بچی میں سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے شامی افسر سے کہا۔ ’’اب تم اُٹھ کر اطمینان سے اپنے ساتھیوں کے ہاتھ پائوں باندھ دو‘‘۔
شامی افسر نے کہا۔ ’’میں وعدہ کرچکا ہوں کہ ہم تمہارا پیچھا نہیں کریں گے‘‘۔
’’میں تمہارے وعدے سے زیادہ اپنی احتیاط پر بھروسا کرنا چاہتا ہوں۔ جلدی کرو اور یاد رکھو اگر تمہارے ساتھی سے مجھے کوئی خطرہ پیش آیا تو میں سب سے پہلے تم سے نپٹنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
افسر نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ساتھیوں کے ہاتھ پائوں باندھ دیے تو عاصم نے کہا۔ اب تمہاری باری ہے لیکن تمہیں لیٹنے کی ضرورت نہیں، میں صرف تمہارے ہاتھ باندھنے چاہتا ہوں‘‘۔
عاصم نے دوسرے رسّے سے اُس کے ہاتھ باندھنے اور گلے میں پھندا ڈالنے کے بعد اطمینان سے نیچے پڑے ہوئے سپاہیوں کا معائنہ کیا اور اُن کے ہاتھ پائوں ذرا مضبوطی سے کس دیئے پھر آگے بڑھ کر پتھروں کی آڑ سے، اپنی کمان اور ترکش اُٹھایا اور جکڑے ہوئے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’دیکھو! میں تمہارے ساتھی کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کررہا ہے تو مجھے اس کی گردن کی رسّی کھینچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ جن خواتین کو تم تلاش کررہے ہو وہ کہاں ہیں لیکن اگر وہ چند دن تک دمشق نہ پہنچیں تو اس کی لاش مشرقی دروازے پر لٹک رہی ہوگی۔ میں نہیں جانتا کہ تمہیں اپنے افسر کی جان کتنی عزیز ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ تم رومیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے ایک شامی بھائی کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالو گے۔ بستی کے لوگ تمہیں بہت جلد تلاش کرلیں گے، اس کے بعد تمہارے لیے یہ بہتر ہوگا کہ تم اپنے گھروں کی فکر کرو۔ ایرانی دمشق میں داخل ہوچکے ہیں اور اگر تم نے یروشلم پہنچنے میں تاخیر سے کام لیا تو وہ شاید تم سے پہلے وہاں پہنچ جائیں۔
(جاری ہے)

حصہ