ازدواجی زندگی میں شک و شبہ دراڑیں پیدا کرتا ہے

377

آج کافی دنوں کے بعد صنوبر اپنے شوہر کے ساتھ اپنی کزن (جو اس کی بہترین دوست بھی تھی) کی شادی کی تقریب میں شریک ہوئی تھی لیکن سارا وقت اس کی نظریں شوہر کے گرد گھومتی رہیں۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ شوہر پر جیخ پڑی… بڑے ہنس ہنس کر سیرت سے باتیں کررہے تھے۔ اور وہ بھی کیسے دلبرانا انداز سے تم سے باتیں کررہی تھی شرم نہیں آرہی تھی اسے… اف وہ تو۔ تمہارا دل تو شادی ہال سے باہر آنے کو ہی نہیں چا رہا تھا…
ریحان: بس بہت ہو گیا (آہستہ سے) بچوں کا تو خیال کرو… ہر وقت … اسی لیے میں اب ان تقریبات سے دور بھاگتا ہوں۔ یہ تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں… اس دن راستے میں وہ کیا نام ہے اس کا تمہاری کولیگ کیسے مٹک مٹک کر تم سے باتیں کررہی تھی اور تم اسے دیکھ کر کیسے کھل کھلا اٹھے…
ریحان: (نے کن آنکھوں سے دونوں بچوں کو دیکھا) اچھا چلو چھوڑو اس بات کو کوئی اور بات کرو۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا بلکہ ہر تقریب پر واسپی میں وہ ریحان کی کلاس لیتی اور اکثر گھر میں بھی شوہر کو نشانہ بناتی۔ پہلے تو ریحان اس کی اپنے ساتھ محبت سمجھتا تھا کہ وہ ایسا میری محبت میں کررہی ہے لیکن اب تو اس کی اس شک والی عادت نے اسے بیزار کر دیا تھا اکثر گھر میں بھی اماں کے سامنے وہ اسی ذکر کو لے کر بیٹھتی بیچاری ساس اسے پیار سے سمجھاتی کہ ایسا کچھ نہیں ہے تم بے کار میں اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو اور بلاوجہ شک کرتی ہو ان باتوں کا تمہارے بچوں پر بھی اثر پڑے گا اماں بیچاری اکیلے میں ریحان کو بھی سمجھاتی کہ اصل میں صنوبر تم سے بہت پیار کرتی ہے اسی لیے وہ ایسا سب سوچتی اور کرتی ہے۔
ریحان: اماں مجھے تو صنوبر کی سوچ پر ہی شرم آتی ہے اسی لیے میں اب تو کسی تقریب میں اس کے ساتھ جانے سے بھی گریز کرتا ہوں نہ جانے اس کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے رات میں میری کولیگ شہلا کا فون آیا کہ وہ آفس نہیں آسکے گی کوئی ضروری کام ہو تو آن لائن ہو جائے گا۔ اماں ظاہر ہے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جس عہدے پر فائز ہوں وہاں تو مرد اور عورتیں میرے ساتھ کام کرتے ہیں دفتری کاموں کے سلسلے میں ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے اس طرح تو نہ صرف وہ خود نفسیاتی مریض بن جائے گی بلکہ مجھے بھی کردے گی۔
صنوبر کی اس شک کی عادت نے گھر کی فضا کو آلودہ کر دیا تھا۔ بچے بھی اب بڑے ہوتے جا رہے تھے انہیں بھی اپنی والدہ کی اس کیفیت کا احساس ہو چکا تھا ریحان صرف اور صرف آفس اور گھر تک محدود ہو گیا تھا وہ پوری کوشش کرتا کہ صنوبر کو خوش رکھے اس کی ہر خواہش پوری کرتا۔ لیکن صنوبر پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ کرتی… اور اس سے لڑ پرٹی۔
…٭…
صنوبر: وہ میری آنٹی کے گھر میلاد ہے اماں کی طبیعت خراب ہے آپ مجھے آنٹی کے گھر چھوڑ دیجیے گا پھر شام میں، میں فون کروں گی تو لینے آجائیے گا۔
آنٹی کے گھر اتفاقاً اس کی ملاقات اس کی ایک پرانی دوست سے ہو گئی، شازیہ اور صنوبر کالج میں ایک ساتھ پڑھتی تھیں۔
صنوبر: شازی تم مجھے نہیں پہچانتی تو یقین کروں میں تو تمہیں بالکل نہ پہچان پاتی تم یہاں؟ اور یہ تم اپنے ساتھ کیا کر دیا ہے؟
شازیہ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ وہ اپنی عمر سے دگنی لگ رہی تھی (صنوبر سوچ رہی تھی کہ اس کی شادی تو ایک امیر لڑکے سے ہوتی تھی لیکن اس کا لباس اور حلیہ کچھ اور بیان کررہا تھا)۔
شازیہ نے چاروں طرف نظریں گھمائیں اس وقت ان دونوں دوستوں کے قریب کوئی نہ تھا۔ اس کے لب ہلے… آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔ میری دوست اس میں میرا اپنا قصور ہے۔ میں نے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کھودیا۔ مجھے میرے شک کی عادت نے اعجاز سے بہت دور کر دیا۔ میں اعجاز کے ساتھ جس لڑکی کو بھی ہنستا مسکراتا دیکھتی شک کرتی۔ اعجاز میری اس عادت سے بیزار ہو گیا اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت باہر گزارنے لگا گھر آتا تو میں آگ بگولہ اس کے پیچھے پڑجاتی اگر میں سیر تو وہ سوا سیر… نہ وہ پیچھے ہٹتا نہ میں۔ آخر میں ایک دن ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر آگئی میں اس دن میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی جب طلاق کے کاغذات میرے ہاتھ میں آئے… یہ طلاق کا پروانہ تھا یا میری آزمائشوں کی ابتداء… اماں کے گھر میں بھابھیوں کا راج تھا جیسے تیسے کرکے گزارا ہو رہا تھا اعجاز نے چاہا کہ بچے میں لوں۔ لیکن ان کی کفالت ان کی تعلیمی اخراجات… آخر دل پر چیر کرکے بچے اعجاز کے پاس ہی رہنے دیے مجھے جو اپنی خوبصورتی پر ناز تھا کہ اعجاز میرے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ (اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسوئوں کو جلدی سے دوپٹے سے صاف کیا) میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گھروندہ ڈھادیا۔
…٭…
صنوبر گھر بھی آئی تو اس کے ذہن میں شازیہ اور اس کی بے بسی میں ڈوبی آنکھیں اسے جھنجھوڑتی رہیں رات کو بستر پر لیٹی تو اس کی اپنی آواز ہتھوڑے برساتی رہی۔ اس نے کتنی مرتبہ ریحان کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی اماں کے گھر چلی جائے گی… اور ریحان کس قدر حوصلے و تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے اور اماں وہ تو ساس ہو کر بھی میرا ہی ساتھ دیتی ہے۔ اگر ریحان برے کردار کا عیاش بندہ ہوتا تو کب کا مجھے چھوڑ چکا ہوتا۔ کیا میں غلط ہوں؟ میری غلطیوں کے باوجود وہ میری عزت کرتا ہے۔ نہ جانے کب ان خیالات کے تصور میں اسے نیند آگئی صبح وہ اٹھی تو ایک نئی صنوبر تھی جو ایک وفا شعار بیوی، خدمت گزار بہو اور سمجھ دار ماں تھی… شاید رب العزت نے اس کے گھروندے کو بچانے کے لیے اس کا سامنا شازیہ سے کروایا جو اب ایک بے بسی کی تصویر تھی۔ بے جا شکت ازواج کے درمیان دراڑیں پیدا کرتا ہے۔

حصہ