ننھی بوند

234

اس دفعہ کے موسمِ برسات میں
ایک ٹھنڈی گھپ اندھیری رات میں
ایک ننھی بوند آنکھیں میچتی
ہچکچاتی، آہ ٹھنڈی کھنچتی
چھوڑ کر بادل کی گودی جُوں چلی
خود سے وہ یہ گفتگو کرنے لگی
یہ اندھیری رات اور لمبا سفر
دیکھیے ہوتا ہے کیا میرا حشر
عین ممکن ہے گروں میں پھول پر
یہ بھی امکاں ہے گروں میں دھول پر
کیا خبر تندور میں گر جائوں میں
دیکھتے ہی دیکھتے مر جائوں میں
ایسے اندیشوں کے سنگ لڑتی ہوئی
بوند ساحل پر بحر کے آگئی
تھی وہاں پر ایک سیپی منہ کھلی
وہ اسی میں جا گری موتی بنی

حصہ