خاندان معاشرے کی پہلی اکائی ہے جہاں ایک ماں اپنے بچے کو معاشرے کا بہترین فرد بنا سکتی ہے۔ ہم خواتین جو بظاہر گھر کے کام کاج میں منہمک ہیں درحقیقت ایک قوم اور نسل کی تقدیر لکھ رہی ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے قوم کے وہ افراد سامنے آئیں گے جو آئندہ ہماری قوم کا مستقبل ہوںگے۔ لہٰذا ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وہ قول تو ہم سب کو یاد ہے جو کسی غیر مسلم مفکر نے کہا تھا کہ ’’تم مجھ کو اچھی مائیں دو، میں تم کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘
ایک اور مشہور قول ہے کہ ’’گھوڑے اور نیزے اچھے ہوں نہ ہوں، شہ سوار اچھے ہونے چاہئیں۔‘‘ اور ان شہ سواروں کی پرورش ہمیں کرنی ہے، ان کو اچھا برا، صحیح غلط اور حلال و حرام سب ہم مائوںکو بتانا ہے۔
رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ کوئی عورت نبی کیوں نہ بنائی گئی؟ تو انہوں نے عورت کی عظمت کو اس طرح بیان کیا کہ ’’ہر نبی کو ایک عورت نے پیدا کیا ہے۔‘‘
اسی طرح عبدالستار ایدھی نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا تھا کہ ’’میری ماں مجھے ’’دو آنے‘‘ دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیںکہ ایک تمہارے لیے اور ایک کسی ضرورت مند کے لیے۔‘‘ اس طرح انہوں نے بچپن سے اپنے بیٹے میں ہمدردی اور خیرخواہی کا وہ جذبہ پروان چڑھایا جو بڑے ہوکر اتنی بڑی اور منظم تنظیم کی شکل میں سامنے آیا، اور ان کے انتقال کے بعد بھی رواں دواں ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گھر ایک فیکٹری ہے اور ماں اس فیکٹری کی مالکن، جو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اگر صبر، برداشت، تحمل اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرے تو مہذب معاشرہ وجود میں لا سکتی ہے۔
یہودی اپنے بچوں کو دنیا کا لیڈر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ ان کی تربیت کی ابتدا پیدائش سے پہلے ہی کردیتے ہیں۔ وہاں حاملہ خواتین کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، ان سے میتھ اور بزنس کے سوال اور مختلف پزل وغیرہ حل کرائے جاتے ہیں تاکہ بچہ اچھے شوق لے کر پیدا ہو اور ذہین ہو۔ پیدائش کے بعد ان بچوں کو ٹی وی اور کمپیوٹر کے بجائے جسمانی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ آج بھی انہیں گھڑ سواری، نیزہ بازی اور تیراکی سکھائی جاتی ہے۔
بچوں کی تربیت کے رہنما اصول:
ہمیں خوابِ غفلت سے جاگنا ہے اور اپنے بچوں کو دینِ اسلام کا سپاہی بنانے کے لیے آج ہی سے ان کی صحیح تربیت کا آغاز کردینا ہے۔ بچوں کی تربیت ایک مشکل ذمے داری ہے، لہٰذا ان کی تربیت سے پہلے آپ کو اپنے اوپر توجہ دینی ہوگی، سب سے پہلے اپنا اور اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں۔
آپ کی سب سے اہم ترجیح آپ کا بچہ ہونا چاہیے (کیریئر بعد میں)
غیر ضروری دبائو سے خود کو آزاد رکھیں، کیوں کہ اس صورت میں ہم بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ زیادہ کرتے ہیں۔
بچوں سے پکی دوستی کرلیں۔ اِدھر اُدھر کا غصہ بچوں پر ہرگز نہ نکالیں۔
سب سے اہم چیز بچوں کی تربیت کے حوالے سے یہ ہے کہ بچہ آپ سے بے حد قریب ہو، آپ کا اور آپ کے بچے کا رابطہ اچھا ہو، وہ ہر بات آپ کو بتائے۔
انتہائی پریشانی کے عالم میں بھی بچوں کو مارنے سے گریز کریں۔
بچوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں، کسی کے سامنے انہیں برا نہ کہیں۔ انہیں نکما، بے وقوف، ضدی کہنے سے اجتناب برتیں، بلکہ ان کی خوداعتمادی بڑھانے کے لیے اچھے کام پر ان کی تعریف کریں۔ محبت سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، اچھے برتائو پر ان کو تحائف دیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
اگر آپ بچوں کو کسی کام سے روکنا چاہتی ہیں تو یہ نہ کہیں کہ ’’یہ مت کرو‘‘۔ بلکہ اس کے بدلے یہ بتائیں کہ کیا کرو۔ نبی کریمؐ کا اندازِ تعلیم یہی تھا۔ آپؐ نے بچے کو دیکھا کہ وہ کھانے کے آداب سے واقف نہیں تونرمی سے اُس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ’’بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو، دائیں ہاتھ سے کھائو، اپنے سامنے سے کھائو۔‘‘ نرم اور محبت بھرے الفاظ ذہن میں نقش ہوکر رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل کا سب سے اہم مسئلہ اسکریننگ کا ہے۔ بچے کو ہر وقت موبائل، ٹی وی یا کمپیوٹر چاہیے۔ اگربچہ ان چیزوںکو زیادہ وقت دے رہا ہے تو اس کا نعم البدل نکالیں، بچوں کے ساتھ کھیلیں، کہانیاں سنائیں۔ اگر بچوںکو پالتو جانوروں کا شوق ہے تو اس سے بھی بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
بچے کو انتخاب کرنے دیں تاکہ اُسے فیصلہ کرنا آئے۔ اپنی مرضی ہر وقت اُس پر مسلط نہ کریں تاکہ بڑے ہوکر وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا سیکھے۔
یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ’’اگر تم اپنا ہوم ورک مکمل کرلو تو کھیل سکتے ہو۔‘‘ یہ اصول آپ کے بہت سارے کام آسان کردے گا۔
غلطیوں پر ڈانٹنے کے بجائے پہلے معلوم کریں کہ غلطی کیوں ہوئی ہے؟ ممکن ہے اگر کسی کی پینسل گم ہوگئی ہے تو اس نے کسی کی مدد کی خاطر اسے دی ہو اور واپس لینا بھول گیا ہو۔ اگر بلاوجہ ڈانٹ دیا گیا تو اس کے اندر موجود ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ ماند پڑ سکتا ہے۔
بعض اوقات بچے چھوٹے چھوٹے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں۔ اس کے لیے آسان حل یہ ہے کہ ان کو ٹائم دے دیں کہ دس منٹ میں کمرہ صاف ہوجائے، یا ہم پندرہ منٹ میں جانے کے لیے تیار ہوں گے۔ وقت دینے کے لیے ان سے مشورہ بھی لیا جاسکتا ہے، جیسے یہ سوال: تم دس منٹ میں کر لو گے، یا پندرہ منٹ دے دیے جائیں؟ بچوں کو تربیت دیں کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے تسلیم کریں اور اس پر معافی مانگیں۔
آخر میں ایک بہت اہم اور خاص اصول، جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے بھی کام آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے پیغام کو بار بار دہرائیں۔ اگرچہ اس کام پر آپ کا بس نہ بھی چلتا ہو تو مایوس مت ہوں، اگر آپ فی الوقت کوئی بات سمجھانے یا کوئی کام کروانے میں ناکام ہوگئی ہیں تو بھی ہار نہ مانیں، اپنا پیغام بار بار مختلف طریقوں سے پہنچاتی رہیں، آپ کے الفاظ ہرگز ضائع نہ ہوں گے۔
دعا کے ہتھیار کو کبھی فراموش نہ کریں۔ اپنے لیے، اپنے بچوں اور گھر والوںکے لیے صدقِ دل سے بہترین دعائیں مانگیں۔