ثبین سیف خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں‘ رفیع الدین راز

193

جن قلم کاروں نے نسائی مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے ان میں ثبین سیف بھی شامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کے میدان میں بھی اپنا نام کمایا‘ وہ خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں‘ انہوں نے بہت کم وقت میں بہت سا ادبی سفر طے کیا ہے اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر و ادیب رفیع الدین راز نے بزم محبانِ ادب کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے ثبین سیف کے اعزاز میں سجائی گئی محفل میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ محبانِ ادب کی روحِ رواں کشور عروج نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم نوزائیدہ ہے تاہم وہ نوجوان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے محفلیں ترتیب دیتی ہیں۔ آج کی محفل ثبین سیف کے لیے ہے۔ ریحانہ روحی نے کہا کہ ثبین سیف کی شاعری میں نئے نئے موضوعات نظر آتے ہیں۔ ان کی شعری محاسن سے انکار ممکن نہیں۔ ریحانہ احسان نے کہا کہ ثبین سیف اندھیروں میں اجالے تقسیم کر رہی ہیں ان کا اسلوبِ بیاں لوگوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ آفتاب عالم قریشی نے کہا کہ وہ ثبین سیف کی شاعری میں موجودہ زمانے کے مسائل کے علاوہ غمِ جاناںِ بھی شامل ہے۔ آفتاب عالم قریشی نے ثبین سیف کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔ راشد نور نے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے آج کی تقریب کے لیے بھرپور تعاون کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 2010ء میں شائع ہوا تھا‘ یہ ادب نواز شخصیت ہیں اور بے لوث خدمت کر رہی ہیں۔ علاء الدین خانزادہ نے کہ اکہ اس گھٹن کے ماحول میں شاعری آکسیجن ہے۔ شعرائے کرام لوگوںکو ذہنی آسودگی فراہم کر رہے ہیں۔راشد عزیز نے کہا کہ ثبین سیف ایک زندہ دل شاعرہ ہیں‘ وہ بڑی پامردی سے ادب میں اپنا مقام بنا رہی ہیں۔ ثبین سیف نے کہ اکہ وہ ادب کی طالبہ ہیں اور ابھی ارتقائی عمل سے گزر رہی ہوں۔ میں نے اپنی شاعری میں سچائیاں بیان کی ہیں کہ شاعری ایک نیک عمل ہے‘ اس میںجھوٹ اور غلو سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تقریب کے دوسرے دور میں رفیع الدین راز‘ ریحانہ روحی‘ راشد نور‘ ثبین سیف‘ آفتاب عالم قریشی‘ رمزی آثم‘ یاسر سعید صدیقی‘ فرحانہ اشرف‘ کشور عروج‘ علی کوثر اور عاشق شوقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ