سلیم احمد نے جتنا کام کیا ہے وہ انہیں زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے ،الیکٹرونک میڈیا اپنی روح کے اندر غارت گر تہذیب ہے ،کراچی کا ایک خاص سیاسی ،اصلاحی اور فلاحی مزاج ہے،ممتاز صحافی،ادیب اور دانشور سجاد میر سے مکامہ
علمی اور ادبی حلقوں میں قابلِ رشک مقام رکھنے والے سجاد میر اب صحافت کا معتبر نام ہے۔آپ بھارت کے مردم خیزشہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ سجاد میر کی پرورش ساہیوال میں ہوئی ہے۔ ساہیوال اُس وقت علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ کیفے ڈی روز میں خوب محفلیں جمتی تھیں۔ مجید امجد کی تنظیم بزم فکر و ادب متحرک تھی۔ شاید اسی صحبت اور محفلوں کا اثر ہے کہ آپ مجید امجد کے عاشق ہیں اور اقبال کے بعد انہیں سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ آپ کے دادا کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ والد سرکاری ملازم تھے۔ سجاد میر نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ ابتدا میں ادبی رسائل و جرائد میں لکھتے رہے۔ پیشہ ورانہ صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1970ء میں لاہور سے نکلنے والے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ سے کیا۔ پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت کراچی منتقل ہوئے۔ ’’زندگی‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور سندھ و بلوچستان کے نگراں رہے۔ اُس وقت کراچی میں روزنامہ نوائے وقت کی نمائندگی بھی آپ کررہے تھے۔ بعدازاں روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے اردو اخبار ’’حریت‘‘کے ایڈیٹر رہے۔ اسی دور میں سلیم احمد جسارت کے بعد آپ کے کہنے پر حریت میں لکھنے لگے۔ سجاد میر کا تعلق اُس سنہرے دور سے ہے جب کراچی علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ وہ دور مکالمے اور گفتگو کا دور تھا۔ چائے خانوں اورکافی ہائوسز میں علمی و ادبی محفلیں جمتی تھیں۔ سلیم احمد اور قمر جمیل کے گھر تو علمی ماحول کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن سجاد میرکا گھر بھی اس حوالے سے مشہور تھا۔ آپ کے گھر کا نمبر 120یو2 تھا اور اسی مناسبت سے لوگ کہتے تھے اب فلاں موضوع پر ’’دبستان یو 2‘‘ میں بات ہوگی۔ ان کا گھر ’’دبستان یو2‘‘کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور یہ نوجوان ادیبوں کا مرکز تھا.ہم نے سجاد میر سے ان کی علمی، ادبی وصحافتی زندگی پر جو سوالات کیے ہیں وہ نذرِ قارئین ہیں۔
…٭…
آپ نے اپنی طویل صحافتی، ادبی زندگی میں کن لوگوں کو پڑھا، کن لوگوں سے متاثرہوئے، ذرا اس بارے میں کچھ ہمیں بتائیے؟
سجاد میر: آپ نے ادب کی بات کی ہے۔ میں خاص طور پر ادب کے حوالے سے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ چکا ہوں کہ ادب میں میرے استاد کئی ہیں‘ مرشددو ہی ہیں: مجید امجد اور سلیم احمد۔ ان دونوں کی زندگی کے آخری دس سال میں نے ان کی قربت میں گزارے ہیں۔ باقی لٹریچر کا طالب علم ہوں اس لیے لٹریچر اور بنیادی چیزیں پڑھی ہیں… مذہب بھی، فلسفہ بھی اور پولی ٹیکنیکل سائنس بھی۔ مطالعہ کا بنیادی حوالہ ادب ہی رہا ہے۔ ادب کے بارے میں، مَیں نے کہیں کہا تھا کہ ادب میرا دوسرا مذہب ہے۔ لیکن مذہب آدمی کا ایک ہی ہوتا ہے۔ دونوں فقرے ساتھ استعمال کرکے شاید بات زیادہ واضح ہوسکتی ہے۔ میں خاص طور پر یہ تو نہیں کہتا کہ اقبال کو پڑھا، فلاں کو پڑھا۔ بلکہ وہ ساری چیزیں پڑھیں جو اس زمانے میں ضروری (Relevant) تھیں۔ میں کیا کرتا ہوں‘ سب سے بڑی چیز ہوتی ہے کسی سے Creative Companionshipکو Share کرنا اچھے لوگ ملے، اچھے لوگوں کے ساتھ گفتگو رہی۔ اس میں مطالعہ بھی ہوتا رہا اور ایک فکر بھی بنتی گئی۔
سوال: اس سوال کے پس منظر میں اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کن لوگوں کو عہدِ حاضر کا نمائندہ کہتے ہیں تو کیا جواب ہوگا؟
سجاد میر: جس دبستان کا میں نے ذکر کیا ہے، ادب کے حوالے سے وہ ایک مختلف دبستان ہے۔ نام تو میں نے سلیم احمد کا لیا ہے، لیکن اس میں حسن عسکری بھی شامل ہیں، ان میں کرار حسین بھی شامل ہیں۔ اس میں مذہب و مسلک کی بنیاد نہیں بلکہ سوچنے کا نیا انداز بھی ہے، شاعری کے حوالے سے میں مجید امجد کا نام ایک پورے رجحان کے حوالے سے لیا۔ جس چیز پر آپ زور دینا چاہتے ہیں، وہ جو مطالعہ آدمی کا بنیادی طور پر رہنا چاہیے، اس میں یقینی طور پر ہماری تاریخ کے وہ مشاہیر شامل ہیں جو شبلی سے شروع ہوتے ہیں اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒتک پہنچتے ہیں، جنہوں نے مذہب کو بھی، ہمارے روایتی علم کو بھی ایک پورے انداز میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ابوالکلام آزاد بھی اس میں آتے ہیں۔ لیکن چونکہ بہت سے معاملات میں ان سے اختلافات ہیں اس لیے میں شاید تعصب کی وجہ سے ان کا نام نہیں لیتا۔ لیکن یہ سارے لوگ ہیں جنہوں نے بہتر اعانت(contribute)کی ہے اور آج جتنی تحریکیں ہیں انہی سے پھوٹی ہیں۔ آپ حالیہ تحریکوں میں دیکھیں، چاہے غامدی صاحب کو دیکھیں، چاہے اصلاحی صاحب کو دیکھیں، ڈاکٹر اسرار احمد کو دیکھیں… آپ جتنے بھی لوگ دیکھیں، اختلاف بھی کیا ہے تو ایک ہی تحریک سے اختلاف کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ پولیٹکل اسلام جس کو کہتے ہیں، پولیٹکل اسلام کی مخالفت بھی ایک رجحان ہے جس کا اثر ہمارے ہاں موجود ہے۔ وہ ہمارے زمانے کی متعلقہ (Relevant) بحثیں ہیں اور میں ان بحثوں کو پیچھے لے کر جاتا ہوں تو سارا سلسلہ اقبال، شاہ ولی اللہ اور جمال الدین افغانی تک پہنچتا ہے، اور میں بنیادی طور پر خود کو اس سے منسلک سمجھتا ہوں۔ اگرچہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مرکزی دھارے (mainstream) کے نہیں ہیں جیسے میں نے عسکری وغیرہ کا حوالہ دیا، اور لوگ بھی ہیں جو یہاں زیادہ معروف نہیں ہیں، ان سب کا ذکر کرتا ہوں، لیکن اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے اور آدمی رول ماڈل بناکر لے کر چلے تو ہمارے اردگرد کے ماحول میں تو اشارہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ ایک نسل پہلے کے لوگوں کو دیکھیں جیسے میں نے مودودی صاحب کا ذکر کیا، اس سے پہلے اقبال اور شبلی کا ذکر کیا۔ شبلی بہت بڑے آدمی تھے، ابوالکلام آزاد ان سے پیدا ہوئے۔ سید سلیمان ندوی ان سے پیدا ہوئے، نیا رخ دیا۔
سوال: آپ کو مجید امجد سے خاص لگائو ہے، انہیں مانتے ہیں، ان سے عقیدت ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ ادب میں آپ کے دو مرشد ہیں، ان میں سے ایک مجید امجد ہیں۔ یہ بتائیے فیضؔ کا کیا مقام متعین کرتے ہیں؟
سجاد میر: ہم نے پہلے مانا، باقی لوگوں نے بعد میں مانا۔ اِس وقت مجید امجد کو ماننے والے کم نہیں ہیں، لیکن ہم نے پہلے مانا۔ فیض کے بارے میں میری رائے یہ ہے اور یہ میں کہتا رہا ہوں ’’اپنے کمزور لمحوں میں مجھے فیض ہی اچھا لگتا ہے‘‘۔ دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اچھا کاپی رائٹر ہے۔ ان کے یہاں 12 لفظ میں 4 موضوعات ہیں۔ میرا ان پر اعتراض اسی قسم کا ہے جس طرح اقبال کا حافظؔ سے تھا۔ اچھا شاعر مانتا ہوں، بڑا شاعر نہیں مانتا۔ مقبولیت کے الگ پیمانے ہوتے ہیں۔ ایک بحث میں نے سلیم احمد سے کی تھی، جس پر سلیم احمد نے کہا تھا ’’نوراکشتی میں نے ایک بار کی ہے‘‘۔ اُس وقت میرا یہ کہنا تھا اور میں نے عزیز حامد مدنی کے انتقال اور فرازکے انتقال پر کہا تھا ’’جس معاشرے میں عزیز حامد مدنی کو کم لوگ جانتے ہوں اور احمد فراز مقبول شاعر ہو اُس معاشرے کو سوچنا چاہیے کہ اس میں کہاں خرابی پیدا ہوگئی ہے؟ میں نظریاتی بنیادوں پر اختلاف نہیںکرتا، مجھے اعتراض اس ’’بوطیقا‘‘(Poetic) پر ہے جو فیض نے اختیار کی، یہ لمبی بحث ہوجائے گی۔
سوال: سلیم احمد اور حسن عسکری کا ذکر ہوا، اس ضمن میں ایک سوال ہے کہ ان شخصیات کو ان کا مقام نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ آپ کی نظر میں کیا ہے؟
سجاد میر: حسن عسکری کے بارے میں بڑے بڑے لوگوں نے مان لیا کہ اردو کے سب سے بڑے نقاد تھے، انہوں نے کچھ ایسے تہذیبی مسائل بھی اٹھائے ہیں جو کوئی دوسرا اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ جہاں تک سلیم احمد کا تعلق ہے وہ اپنی بات کو کہنے میں اتنے دبنگ تھے کہ بہت سے وہ لوگ جو اُن کے ہم خیال بھی تھے ان کے لیے مشکل ہوجاتی تھی۔ پھر انہوں نے اپنی حق گوئی سے بہت سے مخالف پیدا کرلیے تھے۔ وہ کراچی کے آدمی تھے لیکن آرٹس کونسل وغیرہ میں جن لوگوں کی شامیں منائی جاتی ہیں، وہ ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ لیکن لیفٹ کی تحریک، کچھ مسلکی معاملات، کچھ اور سیاسی معاملات کی وجہ سے میں جب دیکھتا ہوں، وہاں کی آرٹس کونسل، وہاں کے اداروں میں خاص قسم کے لوگوں کو پروجیکٹ کیا جاتا ہے اور بہت سے نام ایسے لیے جاتے ہیں جو غیرمعمولی لکھنے والے نہیں ہیں۔ جالبی اور عالی بڑے لکھنے والوں میں شامل ہیں لیکن وہ بھی سلیم احمد کے خوشہ چینوں میں شمار ہوجائیں تو بڑی بات ہے۔ میں اٹک اٹک کر اس لیے بول رہا ہوں کہ بہت سے راز چھپانا چاہتا ہوں، کیونکہ بتانا مناسب نہیں۔ اگرکسی نے کتاب لکھی ہے اور کتاب کو شہرت مل گئی ہے، کتاب کے کئی ابواب کسی اور کے لکھے ہوئے ہیں، اورکچھ حصے ایسے ہیں جو کسی اور کی فکر کے ہیں، اچھی بات نہیں ہے کہ میں یہ سارے راز فاش کردوں۔
سوال:آپ نے سلیم احمد کی محفلوں میں طویل عرصہ گزارا۔ ان محفلوں سے کیا تجربات حاصل ہوئے؟
سجاد میر: کراچی نے ایک تہذیبی و ثقافتی مرکز کے طور پر جڑ پکڑی تھی۔ پاکستان جب بنا تو اُس وقت صرف ایک ہی مرکز لاہور تھا۔ صحافتی طور پر بھی، ادبی طورپر بھی۔ صرف یہی نہیں کہ نوائے وقت تھا۔ امروز چلا۔ زمیندار چلا۔ اخبارات الگ الگ ‘ مگر ایک فکری دبستان۔ ایک پورا مکتبہ فکر کراچی میں نیا قائم ہوا تھا۔ لوگ وہاں ہجرت کرکے آتے رہے اور شہر کا مزاج بنتا گیا۔ لاہور میں بھی ایسا ہوا کہ لوگ ہجرت کرکے آئے جن میں اشفاق احمد، اے حمید، منیر نیازی ‘شہزاد احمد شامل ہیں… ایک نیا شہر خوابوں کی دنیا دیکھنے والوں کا آباد ہوا۔ لیکن کراچی میں تو لگتا تھا کہ ایک نئی بستی آباد ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی کہانیاں ہم سنتے ہیں۔ کس طرح بے چین روحیں سڑکوں پر گھومتی تھیں اور بیٹھتی تھیں اور ساری ساری رات اور سارا سارا دن ادب کے مسائل پر گفتگو کرتی تھیں۔ وہ غیرمعمولی رجحان(Phenomenon) تھا۔ شہر اینٹ اور پتھر کی دیواروں کا نام نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ خون میں دوڑنے والا گودا ہوتا ہے جو آپ کی تہذیب کی علامت بنتا ہے۔ بے شمار شخصیات وہاں پیدا ہوئیں جنہوں نے کراچی کے چہرے کو نکھارا، سنوارا اور اس کی شکل دی۔ اگر وہ کچھ مسخ ہوا ہے تو اس کی کچھ اور وجہ ہوسکتی ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں جو آدمی کو زندہ نہیں رہنے دیتیں۔ ایسے مسائل کراچی کے ساتھ ہیں۔ اللہ کرے وہ سنبھل جائے اور اس کی عظیم فکری روایت تازہ ہو جس کو وہاں کے لوگوں نے بڑی محنت کے ساتھ استوار کیا تھا۔ اس کا ایک خاص سیاسی مزاج تھا، اس کا ایک خاص اصلاحی مزاج تھا، فلاحی مزاج تھا۔ وہاں کی جتنی بزنس کمیونٹی ہے، وہ اپنا فلاحی ایجنڈا رکھتی ہے۔ وہاں کی سیاسی جماعتیں فلاحی ایجنڈا رکھتی ہیں۔ وہ لوگوں کی خدمت کے کام بھی کرتی تھیں اور علاقوں میں اپنی اپنی برادری میں بھی کام کرتی تھیں۔ آپ دیکھیں میمن کمیونٹی نے خدمت کا کتنا کام کیا ہے۔ چنیوٹیوں میں خدمت کا کام ہے، دلی والوں میں خدمت کا کام ہے۔ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں جو کام کررہی ہیں ان کو چھوڑ دیں، حتیٰ کہ ایم کیو ایم کو بھی خدمت کا ڈھانچہ بنانے کی کوشش کرنا پڑی۔ کتنا بنایا، کیا بنایا، مَیں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ بہرحال کراچی کا مزاج مجموعی طور پر یہ تھا کہ ایک دوسرے کا خیال کرنا ہے۔ کیونکہ باہر سے آئے ہوئے تھے، ان کو معلوم تھا کہ ایک دوسرے کا خیال نہیں کریں گے تو زندہ نہیں رہیںگے۔ آج بھی اسپتالوں کے لیے، تعلیمی اداروں کے لیے جتنے عطیات کراچی سے ملتے ہیں اتنے کہیں اور سے نہیں ملتے۔ پاکستان میں کہیں سیلاب آجائے، زلزلہ آجائے سب سے زیادہ عطیات کراچی سے آتے ہیں۔ کیوں آتے ہیں، کیسے آتے ہیں،یہ سوچنے کی بات ہے۔ یہی نہیں کہ وہاں بزنس بڑا ہے بلکہ یہ کہ وہاں کا بزنس مین بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
سوال:کراچی کی شناخت کے حوالے سے کچھ لوگوں کا آپ نے ذکر کیا۔ مزید ایسے لوگوں کا ذکر کریں جو کراچی کی شناخت کا حوالہ رکھتے ہیں اور سلیم احمد کی محفلوں میں شریک ہوتے رہے؟
سجاد میر: کوئی ادیب یا ادب کا طالب علم نہیں ہے جو اُن کی محفلوں میں شریک نہ ہوتا رہا ہو۔ جس زمانے کا ہم ذکر کرتے ہیں اُس زمانے میں نوجوانوں کی ایک پوری نسل تھی۔ قمر جمیل تھے، ان کا اپنا ایک اڈا اور ٹھکانہ تھا۔ علمی گہرائی مگر سلیم احمد کے ہاں تھی۔ کرار حسین تھے۔ حسن عسکری کو مردم بے زار تو نہیں کہوں گا لیکن انہوں نے ملنا جلنا ترک کیا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں سے کاٹ لیا تھا۔ اس کی نفسیاتی وجوہ بھی تھیں، لیکن شاید اس کی وجہ ان کا یہ خیال تھا کہ ترکِ دنیا کرو گے تو کچھ سیکھو گے۔ اس لحاظ سے عسکری صاحب تو دستیاب نہیں تھے۔ باقی جو لوگ تھے میں نے ان کو حلقۂ اربابِ ذوق میں بھی دیکھا ہے، اور جگہوں پر بھی دیکھا ہے۔ بہت اچھے لوگ تھے، لیکن بعض کی کوئی ایسی علمی سطح نہیں تھی کہ یہاں تک پہنچیں۔
سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے اور یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ سلیم احمد کی محفلوں میں شریک ہونے والوں نے ان کے حوالے سے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ آپ اس خیال اور تنقید سے کس حد تک متفق ہیں؟
سجاد میر: یہ ٹھیک بات ہے، سب سے بڑا مجرم تو میں خود ہوں۔ میں کراچی ایک کتاب کی تقریب کے سلسلے میںآیا۔ خواجہ رضی حیدر نے سلیم احمد پر کتاب لکھی تھی۔ میں نے کہا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ میں کہتا ہوں میرے دو مرشد تھے ایک مجید امجد اور دوسرے سلیم احمد۔ دونوں پر اس نے کتاب لکھ دی ہے۔ اسے میں اپنی نالائقی نہیں کہتا اُس کی زیادتی کہتا ہوں۔ یہ بات مذاقاً کہی، لیکن یہ ہے کہ جو کام کیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ اس کی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ ایک اسٹیٹس کی بات بھی ہے۔ معاشرے میں آپ کا جو مقام ہوتا ہے کبھی کبھی وہ بھی آپ کو بڑا بنادیتا ہے۔ بہت سے لوگوں پر موٹے موٹے نمبر چھپے ہیں، ان کی زندگیوں میں اور ان کے بعد بھی۔ وہ نمبر ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے نہیں چھپتے، اور وجوہ سے چھپتے ہیں۔ سلیم احمد نے جتنا کام کیا ہے وہ انہیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
سوال: ایک زمانہ تھا جب صحافت کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ صحافت ایک مشن ہے، اور اب اس کے بارے میں رائے یہ ہے کہ صحافت کاروبار بن چکی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کاروبار کی بھی کچھ اخلاقیات ہوتی ہے، لیکن ہماری صحافت کاروبار سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
سجاد میر: اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ اور یہ بات میں کہتا بھی ہوں اور لکھتا بھی ہوں۔ دنیا بھر کا الیکٹرونک میڈیا تو تین، پانچ یا سات گروپوں کے قبضے میں ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ امریکن کانگریس میں اتنے پیسے پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے لیے مختص کیے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دو لوگوں کے ناموں، بڑے ادارے کے لوگوں کے نام کے ساتھ یہ آتا ہے کہ ان کو، فلاں این جی اوکو واشنگٹن سے تعلق ہونے کی وجہ سے یہ پیسے ملے، یا اس کو اپنے آفس میں کام کرنے کی وجہ سے یہ پیسے ملتے ہیں۔ یہ بھی آتا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی مہم چلائی جاتی ہے وہ پیڈ کمپین ہوتی ہے۔ مثلاً جب حدود آرڈیننس کے خلاف یہاں ایک طرح کی مہم چلائی گئی تھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس کی ادائیگی کی گئی ہے۔کئی لوگوں نے اس کا اعتراف بھی کرلیا۔ اب ایسی صورت میں جب پوری دنیا سے خریداری کا یہ کام جاری ہے تو ہمارے ہاں بھی لوگ بچے ہوئے نہیں۔ جب صحافت مشن تھا، اُس زمانے میں بڑی سے بڑی بات کہی جاتی تھی جو اسے ذرا نیم کمرشل بنانا چاہتے تھے‘ وہ یہ کہتے تھے اخبار بند کرا دینا بڑی بات نہیں ہے ’’جسارت‘‘ یا ’’زندگی‘‘ کی طرح، بلکہ اخبار کو قائم رکھنا بڑی بات ہے۔ مثال کے طور پر نوائے وقت کے مجیدنظامی صاحب یہ کہتے تھے۔ لیکن مجید نظامی صاحب کا بھی ایک پوائنٹ تھا، اس سے نہیں ہٹنا لیکن کوشش کرنا، جہاں بہت خطرہ ہے وہاں بچ کے جائو۔ آج وہ معاملہ نہیں ہے۔ آج یہ ہے کہ جہاں پیسہ ہو، جہاں مفادات ہوں۔ بہت سے اینکر ایسے ہیں جن اداروں سے تنخواہیں لیتے ہیں وہاں بیٹھ کر کہتے ہیں: ابھی یہ ٹوئٹ آئی ہے، ابھی یہ میسج آیا ہے، فلا ں جرنیل کا آگیا یا فلاں ایجنسی کے سربراہ کا آگیا ہے۔ پروگرام کے دوران وقفے میں بتاتے ہیں کہ اب یوں نہیں یوں بات کرنی ہے۔ یہ تو ہوتا دیکھا ہے۔ اداروں اور ایجنسیوں نے صحافت اور ذرائع ابلاغ پر قبضہ بھی کیا ہے، بلکہ یہ بات تو آن ریکارڈ ہے کہ پرویزمشرف سے امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ کچھ بھی کریں میڈیا کو آزاد کردیں، خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا کو۔ یہ بات پرویزمشرف نے اپنے قریب ترین حلقوں میں کہی۔ اس پر نئے چینل کھلے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ امریکہ یہ کیوں چاہتا ہے! بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے ذریعے وہ ہمارا کلچر، ہمارا مزاج، ہماری پوری فکر، پوری سمت بدلنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس پوری جنگ میں بہت بڑی ہمت والے لوگ ہیں جو ڈٹ کے کھڑے ہیں، ان کو اتنے مواقع بھی نہیں ملتے۔ ابھی الیکٹرونک میڈیا میں اتنا امکان بھی پیدا نہیں ہوا کہ آپ اتنے بڑے ادارے پیدا کردیں کہ نظریاتی طور پر مضبوط بنیادوں پر ایک مضبوط گروپ تیار کرسکیں۔ بکھرے ہوئے لوگ ہیں، ایسے لوگ ہیں جو نظریاتی طور پر محب وطن ہیں، اسلام دوست ہیں اور ان اداروں میں کام کرتے ہیں، جو جمعیت میں رہ چکے ہیں، وہ اداروں میں ہیں لیکن اپنے آپ کو منوا نہیں پاتے۔ اب لوگ چھپاتے ہیں اپنے آپ کو۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے یہ صورت حال نہیں تھی۔ دانستہ نظریاتی بے ربطگی پیدا کی گئی ہے۔ ذہنوں کو آلودہ کیا گیا ہے، اور انتشار پیدا کیا گیا ہے۔ اب تو مادی فوائد اتنے ہیں کہ کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہمارے کیریئر کے عروج میں تنخواہیں ہزاروں میں تھیں، اب لاکھوں میں ہیں۔ میں نے ایک مالک سے کہا: اگر اس حد سے زیادہ مجھے تنخواہ کی پیش کش کرو گے تو میں نہیں لوں گا، اس لیے نہیں لوں گا کہ وہ میری تنخواہ نہیں ہوگی، کہیں اور سے آئے گی۔ اور ایسے پیسے آتے ہیں، اس کے لیے اب ہم دلائل دیتے ہیں، جواز پیدا کرتے ہیں۔ دیکھیے جی اتنے اشتہار آئیں گے۔ اتنے اشتہاروں کا اتنا فی صد ہمیں ملنا چاہیے۔ وہ تو ہوگئے 45لاکھ روپے۔ اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اینکر اپنی پوری ٹیم بنا لیتا ہے۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں تو آپ روک نہیں سکتے۔ بعض چینل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ حکومت روک پاتی ہے نہ کوئی اور روک پاتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ بین الاقوامی سازش نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ پھر الیکٹرونک میڈیا تو خاص طور پر اپنی روح کے اندر غارت گر تہذیب ہے۔ اپنا کلچر لیے اس کے اندر رہ کر لڑنا بہت بڑا جہاد ہے۔ اور ہمارے بڑے بڑے نام اور بڑے بڑے لوگ جن کو ہم نے اپنا لیڈر بنا کر آگے کیا ہوا تھا، اب ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ کس روش پر چل رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے پاس قیادت نہیں رہی جو ہمیںصحیح سمت پر رکھ سکے۔ وہ کہیں اور ہانک کر لے جانا چاہتی ہے۔ یہ سب سے بڑا المیہ ہے۔
سوال: پاکستان میں نجی ٹی وی کا آغاز ہوا تھا تو سمجھا جارہا تھا کہ ٹی وی آزاد ہے۔ لیکن اب اس کے بارے میں خیال ہے کہ کہیں اس میں امریکی اور یورپی پیسہ، کہیں ایجنسیوں کا سرمایہ،کہیں کارپوریٹ سیکٹر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ آپ اس صورت حال کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
سجاد میر: آزاد میڈیا کس چڑیا کا نام ہے؟ پہلے ہم غلام تھے حکومت کے، کیوں کہ اشتہار 80 فی صد حکومت کے آتے تھے۔ اب حکومت سے نہیں آتے، اب جہاں سے آتے ہیں اُن کے غلام ہیں۔ پہلے صرف اشتہاروں کی غلامی ہوتی تھی، اب مدد اشتہاروں سے ہٹ کر بھی آتی ہے۔ ایک چینل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے جتنے اخراجات ہیں، اس کا 20 فیصد اشتہاروں سے آتا ہے، باقی 80 فیصد کہاں سے آتا ہے؟ کسی چینل کے 80 فی صد اخراجات کسی اور ذریعے سے آتے ہیں تو کیوں آتے ہیں؟ کوئی ایجنڈا ہوتا ہوگا تب ہی آتے ہوں گے۔ یہ کاروبار چل پڑا ہے کہ تھوڑی سی خبر چل جائے گی تو کیا ہوگا! صنعتیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ مرغ بانی کی صنعت کے لوگوں نے مجھ سے آ کر کہا کہ فلاں فلاں اینکر نے اتنے اتنے لاکھ لیے جنہوں نے مشہور کررکھا ہے کہ فلاں بیماری پھیل گئی ہے۔ اس سے مرغی کی کھپت میں کمی آگئی ہے۔ اگر ہم اس بیانیے (narrative)کو الٹ دیں اور بتائیں کہ یہ بیماری انسانی جانوں کے لیے خطرہ نہیں ہے تو اس کا ایسا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح تو کام کیے جاتے ہیں۔
سوال: جس طرح ماضی میں ہماری سیاست میں نظریاتی کش مکش تھی اُسی طرح صحافت نظریاتی صحافت کے عنوان سے دیکھنے کوت کی طرح نظریاتی صحافت بھی ختم ہوگئی ہے اور ہمارے درمیان کوئی نظریاتی صحافی بھی شاید ڈھونڈے سے نہ ملے، یا وہ موجود ہی نہیں ہے۔ اس تجزیے میں کتنی صداقت ہے؟
سجاد میر: نظریاتی صحافت کے نام کے لوگ چلے گئے ہیں، لیکن میں نوجوانوں میں بہت تڑپ دیکھتا ہوں۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو بظاہر لبرل نظر آتے ہیں لیکن وہ بہت نظریاتی کام کررہے ہیں، مثال کے طور پر عامر خاکوانی اس طرح کے لکھنے والوں میں ہیں، یا وہ مسائل اور موضوعات جو پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو تنگ کرتے ہیں وہ ان پر اپنے انداز میں لکھتے ہیں۔ بلاگرز پیدا ہوگئے ہیں جو آپس میں مل کر کام کررہے ہیں۔ نئے لکھنے والوں میں یقینی طور پر ایک جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ لیکن ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہمارے نامور لیڈر اُن کے بارے میں بڑی واضح رائے رکھتے ہیں۔ واضح سے میری مراد یہ ہے کہ منفی رائے رکھتے ہیں، بظاہر عزت کرتے ہیں لیکن ان کو پتا ہے ان سے اللہ کو جو کام لینا تھا وہ لے چکا ہے۔ اب شاید یہ ذمے داری ہمیں نبھانا پڑے۔ اس لیے اگر پرانے لوگوں میں ڈھونڈیں گے تو خال خال ہی ملیں گے۔ خاص طور پر ہمارے مکتبہ فکر میں تو بہت کم ملیں گے۔ لیفٹ کو ربع صدی ہوگئی۔ لیفٹ این جی او کو پیارا ہوگیا ہے۔ ادھر جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں لبرل اور سیکولر سوچ پروان چڑھا جانے میں ایک طرح کی مالی اعانت میسر ہے، سو ان کے ہاں یہ تضاد (contradiction) نہیں پایا جاتا۔ اب وہ سیکولر اور لبرل ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی مغرب چاہتا ہے، یہی وہ این جی اوز چاہتی ہیں جو مغرب سے پیسہ لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں وہ لوگ بھی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں ان کے مقابلے میں پیسہ کمانے کے لیے اور دھندے کرنے پڑتے ہیں اور لوگوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو حکومت خریدتی ہے، تو کسی کو کوئی اور خریدتا ہے۔ پہلے ہوتا تھا کہ آپ نظریاتی طور پر کسی گروپ کے ساتھ ہیں۔ اب آپ لوگوں کی بیس سال کی ہسٹری دیکھیں، کتنی سیاسی پارٹیاں بدلی ہیں۔ ٹی وی کا ریکارڈ تو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے کہ صبح شام بدل لیں تو پتا نہیں چلتا۔ اب الطاف حسن قریشی کا ایک ادارہ تھا، اس سے کئی لوگ پھوٹے نظریاتی طور پر۔ جو آج بہت بڑے بڑے لوگ موجود ہیں وہیں سے نکلے ہیں۔ لیکن جب سب جوان ہوگئے، بڑے ہوگئے، اب کون کیا کررہا ہے کیا نہیں کر رہا، آپ کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔
(جاری ہے)