شعرو شاعری

440

جگر مراد آبادی
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانئے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدتِ غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد
میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جوشؔ ملیح آبادی
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرز تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا
میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
کچھ نہیں اس کے سوا جوشؔ حریفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا

جاں نثاراختر
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی
ورنہ یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہیں
آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں

جون ایلیا
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

جرأت قلندر بخش
ہمیں دیکھے سے وہ جیتا ہے اور ہم اس پہ مرتے تھے
یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے
وہ سوز دل سے بھر لاتا تھا اشکِ سرخ آنکھوں میں
اگر ہم جی کی بے چینی سے آہِ سرد بھرتے تھے
کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو
وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے
ملی رہتی تھیں آنکھیں غلبۂ الفت سے آپس میں
نہ خوف اس کو کسی کا تھا نہ ہم لوگوں سے ڈرتے تھے
سو اب صد حیف اس خورشید رو کے ہجر میں جرأتؔ
یہی راتیں ہیں اور باتیں ہیں وہ دن کیا گزرتے تھے

احمد ریاض
ہم ہی بدلیں گے رہ و رسم گلستاں یارو
ہم سے وابستہ ہے تعمیرِ بہاراں یارو
قربتِ کاکل و رخسار سے جی تنگ نہیں
اک ذرا چین تو دے گردشِ دوراں یارو
لاکھ ہم مرحلۂ دار و رسن سے گزرے
زندگی سے نہ ہوئے پھر بھی گریزاں یارو
اک تھکا خواب کہ سینے میں سلگتا ہے ابھی
اک دبی یاد کہ ہے نیشِ رگِ جاں یارو
آمدِ صبح سے مایوس نہیں ہیں لیکن
ڈس نہ لے تیرگیٔ شام غریباں یارو
اور کچھ دور کہ تھوڑی ہے رہ جور و ستم
اور کچھ دیر کہ ٹوٹا درِ زنداں یارو
اپنا دکھ ہو تو ریاضؔ اس کا مداوا کرتے
ہیں سبھی شعلہ بجاں چاک گریباں یارو
پی.پی سری واستو رند
پیش منظر جو تماشے تھے پس منظر بھی تھے
ہم ہی تھے مالِ غنیمت ہم ہی غارت گر بھی تھے
آستینوں میں چھپا کر سانپ بھی لائے تھے لوگ
شہر کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ بازی گر بھی تھے
برف منظر دھول کے بادل ہوا کے قہقہے
جو کبھی دہلیز کے باہر تھے وہ اندر بھی تھے
آخرِ شب درد کی ٹوٹی ہوئی بیساکھیاں
آڑے ترچھے زاویے موسم کے چہرے پر بھی تھے
رات ہم نے جگنوؤں کی سب دکانیں بیچ دیں
صبح کو نیلام کرنے کے لیے کچھ گھر بھی تھے
کچھ بلا عنوان رشتے اجنبی سرگوشیاں
رتجگوں کے جشن میں زخموں کے سوداگر بھی تھے
شب پرستوں کے نگر میں بت پرستی ہی نہ تھی
وحشتیں تھیں سنگ مرمر بھی تھا کاری گر بھی تھے
اس خرابے میں نئے موسم کی سازش تھی تو رندؔ
لذتِ احساس کے لمحوں کے جلتے پر بھی

قابل اجمیری کے اہم اشعار
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

حصہ