وادی کی پکار

303

سرسبز و شاداب وادیوں سے گھرا وہ کشمیر کا ایک چھوٹا سا گاؤں ویلگام تھا۔ مختصر سی آبادی والے اس گاؤں کے باسیوں کی گزر اوقات گلہ بانی اور کھیتی باڑی پر تھی۔
فرید ایک محنتی لکڑہارا تھا، جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور بازار میں بیچ کر روزی کماتا۔ فرید کی بیوی ہاجرہ مسجد کے موذن کی بیٹی تھی۔ وہ آس پڑوس کے بچوں کو سپارہ پڑھاتی۔ ان کے تین بچے تھے… دس سالہ عمر، سات سالہ آمنہ، اور ننھا شیرخوار عبداللہ۔ ہاجرہ نے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی تھی، وہ عام بچوں سے مختلف اور بے حد صابر اور سمجھدار تھے۔
فرید نے گزارے کے لیے چند بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ ان کے گاؤں کے اطراف بھارتی فوجی چھاؤنی قائم تھی۔ فوجی کسی بھی وقت گاؤں میں گھس آتے، گھروں کی تلاشی لیتے، جسے جی چاہتا مارتے، پیٹتے اور پکڑ کر لے جاتے۔ گاؤں کا کوئی بھی گھر ان کے قہر سے بچا ہوا نہ تھا۔ سب ان درندوں سے خوف زدہ تھے۔ کسی کو بھی گاؤں سے باہر غیر ضروری طور پر آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔
ایک روز فرید لکڑیوں کی تلاش میں نکلا تو بدقسمتی سے بارودی سرنگ کی جانب چلا گیا۔ اس کے پیروں تلے بارودی سرنگ پھٹ گئی اور اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں۔ اس کی دنیا اجڑ گئی، وہ اپاہج ہوگیا۔ بھارتی فوج نے اس حادثے کی پوری ذمے داری فرید پر ڈال دی۔ وہ ظالم، فرید کو زخمی حالت میں گاؤں چھوڑ گئے۔ اس حادثے کی وجہ سے سارا گاؤں خوف زدہ اور اداس تھا۔
فرید کا کام چھوٹ گیا تو تنگ دستی نے گھر میں ڈیرے ڈال دیے اور فاقوں کی نوبت آگئی۔ لیکن فرید نے ہمت نہ ہاری، اس نے بیساکھی کے سہارے چلنا شروع کیا، وہ مویشیوں کی نگہداشت کے لیے بچوں کے ساتھ لے جاتا۔ عمر لکڑیاں کاٹتا، اور وہ گھر واپسی پر انہیں بیچ کر کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لیتے۔
…٭…
’’اماں! جب میرا قرآن شریف مکمل ہوجائے گا تو مجھے کیا انعام دو گی؟‘‘ کنول جیسی گلابی رنگت والی آمنہ نے اپنی چمکتی نیلی آنکھوں سے ماں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ کچھ روز بعد اس کی تجویدالقرآن ختم ہونے والی تھی۔
’’میری پیاری بیٹی! قرآن شریف تو اللہ پاک کی سب سے پاک کتاب ہے۔ اسے پڑھنے کا انعام وہ اپنے بندوں کو خود دیتا ہے۔‘‘ ہاجرہ ہر موقع پر اپنے بچوں کا تعلق اللہ سے مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے اماں! پھر تو میں اللہ سے دُعا کروں گی کہ وہ میرے بابا کی ٹانگیں لوٹا دے اور وہ پہلے کی طرح چلنے لگیں۔‘‘ آمنہ نے معصومیت سے ماں سے اپنی خواہش کا اظہارکیا تو ہاجرہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ہاں میری بیٹی! اللہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا، بس آزمائش میں ڈالتا ہے، اس کے بعد راحت ہی راحت دیتا ہے۔‘‘
ماں کی بات سن کر آمنہ کا معصوم چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ وہ جلدی سے عمر کو بتانے کے لیے باہر دوڑ گئی۔
…٭…
سفید گل گوتھنا چھوٹا سا دنبہ ریوڑ سے نکل کر دوڑا تو عمر کی پکڑ میں نہ آیا۔ وہ اس کے پیچھے دوڑتا رہا اور چراگاہ سے دور نکل گیا۔ آمنہ اسے پکارتی رہ گئی، مگر وہ رکا نہیں، دوڑتا رہا۔ اس دن عمر اور آمنہ چراگاہ اکیلے ہی آئے تھے۔ فرید کو سخت بخار تھا۔
’’عمر بھائی! ابا جان نے منع کیا تھا کہ چراگاہ سے آگے نہ نکلنا۔‘‘ آمنہ نے متفکر ہوکر بھائی کو آواز لگائی۔
’’میں اس میمنے کو پکڑ کر ہی دم لوں گا، تم فکر نہ کرو، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ عمر نے بہن کی آواز سنی اور دور سے آواز لگائی۔
…٭…
کچھ دور جاکر میمنہ عمر کی پکڑ میں آگیا۔ اس نے دبوچ کر اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ واپس جانے لگا تو راستہ بھٹک گیا۔ ’’یا اللہ میری مدد فرما۔ گھر کیسے جاؤں گا، یہ تو فوجی علاقہ ہے، کہیں کوئی فوجی مجھے دیکھ نہ لے۔‘‘ وہ اپنے اندازے سے گاؤں کی جانب تیز تیز چلتا رہا۔
شام ڈھلنے لگی تھی۔ اسے اب کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔ اچانک اسے دور سے فوجی گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔ عمر جانتا تھا کہ بھارتی فوجی بہت بے رحم ہیں، وہ کسی کا بھی اپنے علاقے کی طرف آنا معاف نہیں کرتے۔
اس نے دوڑ لگا دی۔ فوجی اسے دیکھ چکے تھے، وہ بھی اسی جانب آنے لگے۔
خوش قسمتی سے عمر کو گاؤں جانے والی پگڈنڈی نظر آگئی، وہ تیزی سے اس راستے پر دوڑتا ہوا فوجیوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
…٭…
آمنہ کچھ دیر بھائی کا انتظار کرنے کے بعد گھرچلی گئی اور والدین کو سب بتا دیا۔ ہاجرہ مصلّے پر سجدہ ریز ہوکر بیٹے کے صحیح سلامت لوٹنے کی دعائیں کررہی تھی۔ فرید بخار کی حالت میں گاؤں والوں کو لے کر عمر کی تلاش میں نکل گیا۔
عمر ہانپتا ہوا گھرخیریت سے پہنچا تو ماں کی جان میں جان آئی۔
فرید اور باقی سب لوگ بھی اسے ہر جگہ تلاش کرکے واپس لوٹ آئے۔ عمر کے گھر لوٹنے کا پتا چلا تو سب خوش ہوگئے۔ عمر نے انہیں اپنی روداد سنائی۔ ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ فوجی گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔
قابض بھارتی درندے کبھی کسی کو معاف نہیں کرتے تھے۔ انہیں پتا چل چکا تھا کہ اس گاؤں سے کوئی فرد ان کی چھاؤنی کے قریب گیا تھا۔
خوف کے سائے سب کے چہروں پر لہرا گئے۔ سب اپنے گھروں کی جانب دوڑنے لگے۔ بے رحم فوجیوں نے اپنی چھرّوں والی بندوقوں سے فائر کھول دیے۔ سیکڑوں چھرّے نہتے افراد کی کھال کو چیرتے ان کے جسموں میں پیوست ہوگئے۔ گھروں سے باہر کھیلتے معصوم بچوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چھرے ان کے چہرے، گردن اور پیشانی کی جلد میں پیوست ہوگئے۔کسی کی آنکھیں پھوٹ گئیں، کسی کی کھوپڑی میں سوراخ ہوگیا، کسی کا پیٹ اور کمر چھلنی ہوگئی۔ ہر طرف چیخ پکار مچ گئی۔ بھارتی درندوں نے کسی پر رحم نہ کھایا۔ جو بھی ان کو دکھائی دیا اُسے نشانہ بنایا۔
اپاہج فرید اپنے بچوں کو بچانے کے لیے لپکا۔ مگر دیر ہوچکی تھی۔ چھروں نے اس کے جگر کے ٹکڑوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔ آمنہ کی پریوں جیسی چمکتی ستارہ کی آنکھوں سے خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ عمر کا چہرہ چھروں سے مسخ ہوچکا تھا۔ وہ تڑپ رہے تھے۔ فرید صدمے سے نڈھال بیساکھیوں کے سہارے ان کے پاس پہنچا۔ ہاجرہ بھی دیوانوں کی طرح دوڑتی وہاں پہنچ چکی تھی۔
قابض فوجی درندے خون کی ہولی کھیل کر جاچکے تھے۔ ہنستے کھیلتے بچے درد سے کراہ رہے تھے۔ ایسا بھیانک نظارہ تو فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔
ہاجرہ گم سم سکتے کی حالت میں اپنے معصوم بچوں کو مرغِ بسمل کی طرح تڑپتا دیکھ رہی تھی۔
…٭…
گاؤں کے دیگر افراد کچھ ہی دیر میں پہنچ گئے اور زخمیوں کو ڈسپنسری لے گئے۔ عمر اور آمنہ بھی شدید زخمی تھے۔ ان کی بھی مرہم پٹی کردی گئی۔
’’اماں کہاں ہو تم، مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا… سب طرف اندھیرا کیوں ہے اماں؟‘‘
درد سے کراہتی آمنہ کی آواز نے ہاجرہ کا دل چیر کے رکھ دیا۔ وہ بیٹی کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر چومنے لگی۔
’’اماں کی جان! میں تمہارے پاس ہوں میری شہزادی۔‘‘
’’اماں اندھیرا کیوں ہے؟ کیا رات ہورہی ہے؟‘‘ آنکھوں میں لگنے والے چھرے اس کی بینائی چھین چکے تھے۔ ہاجرہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ آنسو بہائے جارہی تھی۔
’’اماں! میرا قرآن آج مکمل ہونا تھا۔ اب میں قرآن کیسے پڑھوں گی… اور اللہ پاک سے انعام کیسے لوں گی؟ مجھے ابا کی ٹانگیں اللہ تعالیٰ سے واپس لینی تھیں… اللہ تعالیٰ نے میری آنکھیں بھی چھین لیں… اماں! تم چپ کیوں ہو؟ جواب دو نا! اماں ہماری آزمائش کب ختم ہوگی… اماں ہمارا کیا قصور ہے…؟‘‘آمنہ بلک بلک کر رونے لگی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر شخص پھول سے بچوں کے درد سے دُکھی تھا۔ آمنہ کے سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہ تھے۔

حصہ