سیلن زدہ تہہ خانہ جو انسانی خون اور چمڑے کی بُو سے بھرا ہوا تھا، وہ دہشت زدہ انداز میں تہہ خانے کی پہلی سیڑھی پر کھڑی ’’با با…با با!‘‘ پکار رہی تھی۔ یہ محسوس ہورہا تھا کہ انسانی ہیولے اس کے اردگرد گھوم گھوم کر سوال کررہے ہیں… اور وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔
’’کیا ہوا جان…!‘‘ مما گھبرا کر اندر داخل ہوئیں۔
اس کا سانس دھوکنی کی مانند چل رہا تھا۔
’’مما! وہ بابا…اس تہہ خانے میں تھے۔‘‘ عروش مچل کر بولی۔
’’کہاں…کون سا تہہ خانہ؟ 22 سال کی ہورہی ہو اور بچوں کی مانند ابھی تک…‘‘
’’دادی کہاں ہیں…؟‘‘ وہ بیڈ سے اترتے ہوئے بولی۔
’’ناشتے کی میز پر ہیں۔ ان فضول خیالوں اور خوابوں سے باہر آئو، تایا ابو وغیرہ کینیڈا سے ایک بجے پہنچ رہے ہیں۔‘‘
وہ آبنوسی میز کی جانب آئی جس پر انواع واقسام کا ناشتا سجا تھا۔ ’’وادی میں لاک ڈائون ہے، لوگ کھانے کو ترس رہے ہیں، معصوم بچے دودھ کو… اور یہاں یہ لمبی چوڑی میز…‘‘وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیا کرسکتے ہیں؟‘‘دادی بے بسی سے بولیں۔
’’دادی! میں نے پھر وہی خواب دیکھا۔‘‘ عروش دادی کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔ ’’اور یہ عارش ابھی تک نہیں اٹھا۔‘‘اس نے چھوٹے بھائی کے بارے میں پوچھا۔
’’وہ رات تمہاری مما کے ساتھ این جی او کی پارٹی میں گیا تھا۔ تھکا ہوا ہے۔‘‘دادی ناگواری سے بولیں۔
’’اُف یہ مما اور ان کی این جی او…‘‘ عروش دانت کچکچاکے بولی۔ ’’وہ کچھ بھی کرلیں، ہندو انھیں وفاداری کا سرٹیفکیٹ نہیں دینے کے۔‘‘ عروش بولی۔
’’اماں! آپ ناشتے کے بعد تیار ہوجائیں۔ بھائی صاحب کی فلائٹ ٹائم پر ہے‘‘۔ مما نے عروش کو سنی ان سنی کردیا۔
’’ان کی بیگم تو آنہیں رہیں، کیوں کہ ان کو تو کشمیر آتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ دادی طنزیہ انداز میں گویا ہوئیں۔
…٭…
سرور شاہ ہندو سرکار کے منظورِ نظر تھے۔ ہندو کی نظرِ عنایت سے مالامال… مگر وجیہہ شاہ… وہ ہندوئوں سے سخت نفرت کرتی تھیں لیکن شوہر کے ہاتھوں بے بس تھیں۔ سرکار کی طرف سے زمینیں، جائداد اور بہت پیسہ ملا ہوا تھا۔
ان کے دو بیٹے تھے عظیم شاہ اور عرفان شاہ۔ عظیم شاہ وادی کے حالات سے بہت خائف تھے، نہ ان کو ہندوستان کے حالات سے دلچسپی تھی اور نہ ہی پاکستان سے کوئی جذباتی لگائو۔ وہ تعلیم کے فوراً بعد امریکن نیشنل ہوگئے۔ چھوٹے بیٹے عرفان شاہ پاکستان کے وفادار تھے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ ان کی زبان پر ہوتا۔ باپ اور بھائی عرفان کو سمجھاتے، مگر ماں کی بہت سپورٹ تھی۔
عرفان شاہ کی بیگم سونیا شاہ تھیں۔ جب انڈین آرمی کو علم ہوا کہ عرفان شاہ دل سے پاکستانی ہیں اور وہ چوری چھپے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں تو ایک دن ان کو غائب کردیا۔
سرورشاہ نے ہر ممکن کوشش کرلی، ہرطرح سے ان کو وفاداری کا یقین دلایا، لیکن انڈین آرمی والے یہی کہتے رہے کہ عرفان شاہ کو پاکستانی آرمی نے گرفتارکیا ہے۔ وہ کوشش کررہے تھے کہ ان کے چہیتے بیٹے کا کہیں سے کوئی پتا مل جائے مگر بس اتنا ہی پتا چل سکا کہ بہت سے کشمیری مجاہدین کے ساتھ کسی نامعلوم مقا م پر ہیں۔ عروش اُس وقت 13سال کی، جب کہ عارش 11 سال کا تھا۔ عروش کے باپ کو ایک قید خانے میں رکھا گیا ہے۔ عروش 18 سال کی ہوئی تو دادا جان نے شدید بیماری کی حالت میں عظیم شاہ اور ان کے اکلوتے بیٹے حارب کو بلواکر عروش کا نکاح حارب سے پڑھوا دیا۔
جب سے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 منسوخ ہوا تھا، حالات بے حد خراب ہوگئے تھے اور سونیا شاہ جلد ازجلد یہاں سے امریکا شفٹ ہوجانا چاہتی تھیں۔
…٭…
تایا جان اور حارب کی آمد سے چہار جانب قوس قزح کے رنگ بکھر گئے تھے۔ عروش اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں آرہی تھی… حارب کی لو دیتی نگاہیں…
وہ کشمیری چائے کو دم دے رہی تھی۔ الائچی کی خوشبو نے سرد ہوا میں گلابی رنگ گھول دیا تھا۔
دادی نہ جانے کب سے حارب کو لپٹائے بیٹھی تھیں۔
’’تمھاری بیگم تو آئی نہیں شادی میں شرکت کے لیے‘‘۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وجیہہ شاہ کے لہجے میں طنز آہی گیا۔
وہ ہولے ہولے ٹرالی دھکیلتی آرہی تھی۔ قرمزی دوپٹے کے ہالے میں عروش کے ملکوتی چہرے پر حیا کا بانکپن چھایا ہوا تھا۔ عارش نے حارب کے کہنی ماری۔
دادی نے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا اور وہ واپس مڑ گئی۔
’’اگلے ہفتے کی تاریخ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ عظیم شاہ بولے۔
’’آپ کا اور عروش کا ویزا تو ہم لے آئے ہیں۔ بس عارش اور سونیا کے ویزے کا کچھ پروسس باقی ہے۔ اِن شاء اللہ وہ بھی جلد مکمل ہوجائے گا تو آپ لوگوں کو بھی وہیں بلا لیں گے۔‘‘
’’اماں! بوٹ ہائوس والے دونوں کمرے حجلہ عروسی کے طور پر ویڈنگ ڈیکوریٹ کروا لیتے ہیں۔‘‘ عظیم شاہ بولے۔
’’بھائی صاحب! وہ کمرے بالکل باہر کی جانب ہیں، اس حویلی کا حصہ محسوس نہیں ہوتے۔‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا، اللہ مالک ہے۔‘‘ عظیم شاہ کہتے ہوئے اٹھ گئے۔
پھر پوری ڈیکو ریشن، حجلہ عروسی سب انہیں ہی کروانی تھی۔
…٭…
’’پلیز انارکلی صاحبہ! آج رات شرفِ ملاقات بخش دیں۔ ایک مرتبہ بھی سیر حاصل نظر نہ ڈال سکا۔‘‘
حارب کا پیغام موصول ہوا۔
’’دادی کو بتا کر آئوں گی۔ اور آپ کیا لکھنؤ سے تشریف لائے ہیں؟‘‘
آجائو، پھر بتائوں گا۔‘‘
سردی قدرے کم تھی۔ لان میں رات کی رانی کی مہک پھیلی ہوئی تھی، شروع تاریخ کا باریک چاند سفید ہالے میں مقید تھا۔
گہرا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ دور سے جھینگر کی آواز فضا میں ارتعاش پیدا کرتی… وہ صحن میں بنے کنویں کو دیکھ کر ششدر تھا۔
سناٹے میں قدموں کی چاپ نے اس کو چونکا دیا۔ عروش کو دیکھ کر گھوما۔
عنابی لینن کی فراک میں بال کھولے اس کا میک اَپ سے عاری چہرہ چاند کی مانند دمک رہا تھا۔ وہ بے اختیار اس کی جانب بڑھا۔
’’جی کیوں بلایا ہے؟‘‘ عروش شرمیلے لہجے میں بولی۔
’’یہ تحفہ لایا تھاآپ کے لیے، مگر آپ تو کوئی لفٹ ہی نہیں کرا رہیں۔‘‘ وہ روپہلی نازک سی پائیل اس کو دیتے ہوئے بولا۔ ’’کہو تو پہنادوں؟‘‘ اس کا لہجہ بھاری ہوگیا۔
اچانک وادی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ… چیخ، پکار کی آوازیں… بچوں اور عورتوں کا غل… ’’یہ کیا؟‘‘حارب گھبرا کر بولا۔
عروش استہزائیہ انداز میں بولی ’’یہ تو روز کا معمول اور خون میں ڈوبی داستانیں ہیں۔‘‘
’’یہاں تو کوئی نہیں آئے گا ناں؟‘‘ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
’’نہیں، یہ معروف سوشل ورکر سونیا شاہ اور ان کے وفاداروں کا گھر ہے، یہاں کیسے آئیں گے!‘‘ وہ طنزیہ انداز میں ہنسی۔ باہر چیخ پکار کے بعد سناٹا چھا گیاتھا۔ حارب کنویں کی منڈیر پر ٹک گیا۔
وہ برابر میں بیٹھتے ہوئے بولی ’’کیوں بلایا تھا؟‘‘
’’موڈ برباد ہوگیا سارا۔‘‘ وہ بے زاری سے بولا۔ ’’بس تم اور دادی رخصتی کے بعد چلنے کی کرو۔ چاچی اور عارش کا پیپر ورک پورا ہوتے ہی بلا لیں گے۔ ارے یہ اتنا گہرا کنواں؟‘‘ حارب حیرت سے بولا۔
’’چلو دونوں اندر آئو، ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔‘‘ اندر سے دادی کی آواز آئی۔
’’جی دادی…!‘‘ حارب اس کو کندھے سے پکڑکر لاتے ہوئے۔ بولا ’’بس چار دن کی دوری ہے‘‘۔ حارب اس کے کان میں گنگناتا اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔ عروش کے لبوں پر شرمیلا تبسم تھا۔
شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے سونیا شاہ کے چند احباب اور عروش کی سہیلیاں تھیں جو پورا پورا حارب کی سالیوں کا کردار ادا کررہی تھیں۔
پھولوں کی لمبی سجی سنوری چھڑیاں لیے بنی سنوری لڑکیاں کھڑی تھیں، جس کے نیچے سے گزر کر دولہا کو دلہن تک پہنچنا تھا اور لڑکیوں کو روکنا تھا۔
’’اتنی آسانی سے عروش تک نہیں پہنچ سکتے جناب… پہلے ڈالر نکالیں، اس کے بعد۔‘‘ عارش بھی ان لڑکیوں کا ساتھی بنا ہوا تھا۔
’’یار تم تو کم ازکم میرا ساتھ دے دو، میں تو تنہا ہوں۔‘‘
دادی پشمینے کی شال لپیٹے سب کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
’’بھئی اب بس کرو، تم لوگوں نے میرے معصوم بچے کو بہت ستا لیا، یہ لو نیگ… اور اب اس کا پیچھا چھوڑو… بہت تنگ کرلیا… اور تم بھی بس اپنے گھروں کو چلی جائو، یہاں تو سرِ شام ہی سناٹا چھا جاتا ہے۔‘‘ دادی تشویش سے بولیں۔
’’سونیا! لڑکیوں سے عروش کو کمرے میں پہنچوا دیں اور اس کا کھانا بھی کمرے میں پہنچا دیں… اور ہاں صحن والا دروازہ کھول دینا، میں ہولتی رہوں گی۔‘‘
’’فضول ضد تھی بچوں والی، ورنہ میں کبھی حویلی سے باہر نہ نکالتی۔‘‘ دادی سرور شاہ کو گھورتے ہوئے بولیں۔
’’اماں! یہ میری نہیں آپ کے پوتے کی خواہش تھی، سب سے کہتے ہوئے شرما رہا تھا تو اس نے مجھ سے کہا۔‘‘ سرور شاہ ماں سے لپٹتے ہوئے بولے۔
’’چلو ٹھیک ہے، اللہ خوش رکھے۔‘‘
…٭…
حارب کی جانب نگاہیں اٹھ نہیں رہی تھیں، لگ رہا تھا پلکیں من بھر کی ہیں۔ وہ پورے استحقاق کے ساتھ براجمان اس کی چوڑیوں اور مہندی سے سجے ہاتھ دیکھ رہا تھا۔ ’’میرا نام لکھوایا؟‘‘ وہ بچوں کے سے اشتیاق سے اس کے ہاتھوں پر اپنا نام تلاش کررہا تھا۔
عروش نے لجاتے ہوئے ہتھیلی کے درمیان بنے دل کے اندر لکھے حارب پر اپنی حنائی انگلی رکھی۔
’’ہونہہ… پہلے ایزی ہوجائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ وہ حارب کو پیچھے دھکیلتی کھڑی ہوگئی اور آہستہ آہستہ اپنے زیور اتارنے لگی۔
آئینے میں سے وہ اس کے عروسی عکس کو آنکھوں میں جذب کررہا تھا۔ اچانک وہی دھم دھم گونجی۔ گرجتی برستی گولیاں… لگا، دروازہ دھکوں سے گرا ہی چاہتا تھا، اور آخر وہ ٹوٹ گیا۔ وہ حارب کی کمر کے پیچھے چھپی کہہ رہی تھی ’’میں سونیا شاہ کی بیٹی ہوں۔‘‘
’’سجی سجائی سیج، سرخ پھولوں سے مہکتی رات… سب تیار ہے یہاں تو۔ ہم تم دونوں کو ماریں گے نہیں بلکہ……‘‘ یہ کہہ کر دونوں خبیثانہ انداز میں ہنسے۔
بس حارب کے پاس اتنا ہی وقت تھا… اس نے دونوں کو دبوچ لیا۔ ’’بھاگو عروش! ان کتوں کے ہاتھ نہ آنا…‘‘ اور ان ظالموں نے بندوق کی تمام گولیاں حارب کے اندر اتار دیں۔ اس کی کم خواب کی آف وائٹ شیروانی لہو رنگ ہوتی چلی گئی۔
عروش ایک لحظے کو ٹھٹکی۔ ’’بھاگو…‘‘ حارب پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر بولا۔
اور جھاڑیوں سے الجھتی، زرتار شرارے میں جھونجتی… کوریڈور اس کی پہنچ سے بہت دور، جب کہ کنویں کی آغوش قریب تھی۔ زور دار شڑاپ کی آواز کے ساتھ گہرے کنویں میں اس نے چھلانگ لگا دی، اور اس کے ساتھ ہی حارب کی بند ہوتی آنکھوں کو اس کنویں کا مقصد سمجھ میں آگیا۔